نئی نسل کا زوال یا شعور کا فقدان؟ اسلامی تجزئیات کے آئینہ میں
پریس ریلیز
نیپال اردو ٹائمز
بقلم محمد عادل ارریاوی
قارئین کرام! آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں جدیدیت کی چکاچوند نے نوجوان ذہنوں کو الجھا کررکھ دیا ہے۔ اخلاق وکردار کی پختگی دینی شعور اور اُمت کی فلاح جیسے الفاظ محض کتابوں کی زینت بنتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی نئی نسل کا زوال ہے؟ یا صرف شعور اور رہنمائی کا فقدان؟
موجودہ دور مغربی فکر وفلسفہ اور مادی نظاموں کے غلبے کا دور ہے۔ مغرب کی موجودہ فکر نے اِنسانیت پر صرف اپنے گہرے اَثرات ہی نہیں مرتب کیے بلکہ حیاتِ انسانی کو اپنے مطلوبہ سانچوں کے مطابق ڈھالا بھی ہے جس کی وجہ سے اَقدار و روایات کا مضبوط نظام تہہ وبالا ہو کر رہ گیا ہے۔ اِنسانیت بڑی سخت معنوی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ ان کٹھن اور تلخ حالات نے سب سے زیادہ مسائل ہمارے مسلم نوجوانوں کے لئے پیدا کئے ہیں جو ایک ایسے دین کے پیروکار ہیں جو اپنے دائمی اور عالمگیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جو اپنی تعبیر میں لا محدود وسعتوں کا قائل ہے ایسے دین کی اِتباع میں اس سے غیر متعلقہ پیوندکاری کی کیسے گنجائش نکل سکتی ہے؟
ایک اَلمیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے میں اپنی دینی ثقافت کا رنگ بھی نہیں پاتا۔ اس کے پاس اَسلاف سے رشتہ و ناطہ جوڑنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے یعنی وہ لٹریچر جو اَسلاف نے اپنے دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر تیار کیا تھا۔ بالعموم ہمارے مسلم نوجوان ان مسائل کا شکار ہیں کیونکہ بوڑھوں کی زندگی جن سانچوں میں ڈھلی ہوئی تھی وہ اپنے دور کے فکری تقاضوں کے بقدر ہم آہنگ تھے۔ وہ انہیں پہ کار بند ہیں اور انہی کے مطابق رہنا چاہتے ہیں۔ چاہے حالات کا طوفان جس طرف بھی بہہ جائے جبکہ نوجوان ہر آنے والی تبدیلی کا بری طرح شکار ہوتے ہیں۔
آج امتِ مسلمہ جن چیلنجز سے دوچار ہے ان میں سب سے بڑا چیلنج ہماری نوجوان نسل کی تباہی اور بربادی ہے یہی نوجوان کل کے معمار رہنما اور قوم کے سپاہی ہیں مگر بدقسمتی سے آج انہیں گمراہی بے راہ روی فکری انتشار اخلاقی زوال اور مغربی ثقافت کی اندھی تقلید نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں کی گمراہی و اِنحراف کے کئی اَسباب سامنےآتے ہیں کیونکہ نوجوانی کی عمر ہی ایک ایسی عمر ہے جس میں انسان پر جسمانی فکری اور عقلی حیثیت سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ اِنسانی جسم نشوونما اور اِرتقا کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات عقل و فکر کے دریچے کھولتے جاتے ہیں۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ شعور واِدراک کی نت نئی منازل بھی طے ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کی بنا پر انسان سوچ و فکر کی نئی راہیں متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف جذبات کی شدت فیصلوں میں عجلت پر مجبور کرتی ہے۔ ان اَحوال میں نوجوانوں کو ایسے مربیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اعلیٰ اور لطیف حکمت و بصیرت کے ساتھ اِعتدال کا دامن اُن کے
ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیں۔ بڑے احتیاط اور صبر و تحمل کے ساتھ صراطِ مستقیم کی طرف لے چلیں۔ اب ہم ایک مربی کے لیے ہم ان پانچ اَہم ترین اَسباب کا ذکر کرتے ہیں جو آج کل کے نوجوانوں کے بگاڑ میں نمایاں کردار اَدا کرتے ہیں تاکہ بعد میں حسبِ حال اِصلاح ممکن ہوسکے۔
سب سے پہلی اور بنیادی وجہ قرآن و سنت سے دوری ہے۔ نوجوان نسل دین کے بنیادی عقائد فرائض اور اخلاقی اصولوں سے ناواقف ہوتی جا رہی ہے۔ جب دل میں اللہ کا خوف نہ رہے تو انسان کو برائی میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔
نوجوانوں کی تباہی و ہلاکت کا اَہم ترین سبب فراغت ہے۔جسم انسانی کو اللہ تعالیٰ نے اصلاً متحرک و فعال بنایا ہے۔لہٰذا اس کی ساخت اور کیفیت تقاضا کرتی ہیں کہ یہ ہر دم حرکت میں رہے۔ حرکت کا تعطل اس کے لیے فکری عقلی بلکہ ظاہری اِعتبار سے بھی زہر قاتل ہے۔ فکری پراگندگی و اِنتشار ذہنی رذالت و سطحیت مجاہدانہ اُلوالعزمی کی بجائے کم حوصلگ خواہشاتِ نفسانی اور وساوس شیطانی فراغت کے ہی کرشمے ہیں کیونکہ جسم نے تو اپنے تقاضے کے مطابق حرکت میں رہنا ہی ہے۔ اب وہ حرکت بالخصوص اس وقت جب اسے شدتِ جذبات کی پشتیبانی بھی حاصل ہو تو بجائے مثبت اور تعمیری کاموں پر لگنے کے وہ منفی اور تخریبی اُمور سرانجام دیتی ہے ۔ جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مسلّمہ اَقدار کی بے حرمتی ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
سوشل میڈیا، فلموں، ڈراموں، فیشن، اور
لادینی نظریات نے ہمارے نوجوانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ وہ اسلامی شناخت پر فخر کرنے کے بجائے مغربی انداز کو ترقی سمجھنے لگے ہیں۔
والدین و اساتذہ کی غفلت
تربیت کا نظام کمزور ہو چکا ہے۔ والدین اور اساتذہ صرف دنیاوی تعلیم پر زور دیتے ہیں مگر کردار سازی اور روحانی تربیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ہمارے تعلیمی ادارے طلبہ کو صرف روزگار کے قابل بنانے کی فکر کرتے ہیں مگر انہیں انسانیت دین داری اور اخلاق کے زیور سے آراستہ نہیں کرتے۔
جب نوجوان کے پاس کوئی واضح ہدف نہ ہو تو وہ ہر اس راستے پر چل پڑتا ہے جو وقتی مزہ دے۔ نشہ فحاشی گیمز اور دیگر لغویات میں وقت اور صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں
دورِ جدید میں مغربی فلسفہ و فکر کے تسلط کی وجہ سے نوجوان طبقہ فکری طور پر اِسلام کے بارے میں بہت سی بدگمانیوں کا شکار ہوا ہے۔ چنانچہ مغربی فلسفے کےتمام اِعتراضات کو اگر پیش نظر رکھا جائے تو اسلام کے حوالے سے مجموعی طور پر یہ تاثر ابھرتا ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی آزادی سلب کرکے اسے فکری و عملی لحاظ سے قید کرکے رکھ دیتا ہے ترقی کے دروازے مسدود کردیتا ہے صلاحیتوں پر بندشیں عائد کردیتا ہے اور انسان کو دقیانوس بنا دیتا ہے۔ یہی وہ اعتراض و خدشات ہیں جو دورِ جدید کے نوجوانوں کے
قلب و ذہن پر طاری و مسلط ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اسلام سے بباطن یا بظاہر اظہارِ بیزاری اور برات کا اظہار کردیتا ہے۔ نعوذ باللہ
نوجوان وہ فصل ہے جسے جیسا بویا جائے ویسا ہی کاٹا جائے گا۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ امت کا مستقبل روشن ہو تو ہمیں آج کے نوجوان کو سنوارنا ہوگا۔ انہیں علم کردار دین حیا غیرت محنت اور تقویٰ کا پیکر بنانا ہوگا۔ یہی ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی ہے اور یہی امتِ مسلمہ کی بقا کا راز۔
اس تحریر کے مطابق نوجوانی ایک حساس عمر ہے جس میں مربی رہنما اور فکری رہنمائی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس عمر میں نوجوانوں کی درست تربیت نہ کی جائے تو وہ گمراہی کی طرف مائل ہو جائیں گے ۔
اللہ ربّ العزت تمام امت مسلمہ کو دین صحیح سمجھ عطافرماۓ ان کو بےجا خرافات سے لغویات سے مکمل حفاظت فرماۓ آمین
ثم آمین یارب العالمین