Oct 23, 2025 04:29 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
اسلام میں حق میراث اور خواتین

اسلام میں حق میراث اور خواتین

01 Sep 2025
1 min read

اسلام میں حق میراث اور خواتین ۔

 ابو خالد قاسمی فاضل دار العلوم دیوبند الھند ۔

 میراث کے تفصیلی احکام جاننے کے لیے درس نظامی کی مشہور ومعروف کتاب "السراجی فی المیراث" دیکھیں ۔ (یہاں ہم صرف یہ بحث کریں گے کہ کیا خواتین پر حق میراث کے سلسلے میں ظلم ہوا ہے ؟ کہ ان کو مرد کے مقابلے میں نصف حصہ ملے گا)

 شریعت ِاسلامی کے تمام احکام کی بنیاد عدل پر ہے ، عدل سے مراد ہے صلاحیت کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے حقوق کی تعیین ، عدل کا تقاضہ کبھی مساوات اور برابری کا ہوتا ہے اور کبھی کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کا ، اسلام کا قانون میراث بھی اسی اُصول پر مبنی ہے ،اسلام نے مردوں سے دوگنا عورتوں کو دیا ’’اصحاب فرائض‘‘ کو دیکھیے یعنی ان لوگوں کو جن کا ترکہ قرآن وسنت میں مذکور ہے، وہ کل بارہ افراد ہیں ؛ جن میں آٹھ عورتیں ہیں اور مرد صرف چار ہیں ، عورتوں میں (۱) بیوی، (۲) بیٹی، (۳) پوتی، (۴) حقیقی بہن، (۵) علاتی بہن، (۶) اخیافی بہن، (۷) ماں ، (۸) دادی ہے اور مردوں میں (۱) باپ، (۲) دادا، (۳) اخیافی بھائی، (۴) شوہر ہے۔ 

گویا اسلام نے عورتوں کی زیادہ تعداد کو ترکہ دیا ہے، یعنی حصہ پانے والی عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ مزید برآں قرآنِ پاک میں حصے کل چھ ہیں : ثلثان، (دوتہائی) نصف (آدھا) ثلث (تہائی) ربع (چوتھائی) سدس (چھٹا) ثمن (آٹھواں )۔ 

(الف) ان سب میں سب سے بڑا حصہ ثلثان (دوتہائی) ہے، اس کو لینے والیاں صرف عورتیں ہیں ، یعنی متعدد بیٹی، پوتی، حقیقی بہن اور علاتی بہن، کسی مرد کو یہ بڑا والا حصہ نہیں ملتا۔ اس سے بھی خوب واضح ہوگیا کہ اسلام نے عورتوں کو زیادہ دیا ہے۔ محض تین صورتیں ایسی ہیں جن میں عورت کو مرد کے مقابلے میں نصف ملتا ہے: ۱- جب بھائی بہن کے ساتھ وارث ہوں ، اس کی چار شکلیں بنیں گی: ۔

۔(الف) جب میت کے بیٹے بیٹی وارث ہوں۔

۔ (ب) جب میت کے پوتے پوتی وارث ہوں۔

۔ (ج) جب میت کے حقیقی بھائی بہن وارث ہوں ۔

۔(د) جب میت کے علاتی بھائی بہن وارث ہوں۔

۔ ۲- جب میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث ہوں تو اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کو ربع (چوتھائی) اور بیوی کو ثمن (آٹھواں ) ملتا ہے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو نصف (آدھا) اور بیوی کو رُبع (چوتھائی) ملتا ہے، ان میں غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ شوہر کو بیوی کا دوگنا دیاگیا ہے۔ ۳۔

۔- جب ماں اور باپ وارث ہوں اور دوسرا کوئی نہ ہوتو ماں کو ایک تہائی اور باپ کو دوتہائی ترکہ عصبہ ہونے کی وجہ سے ملتا ہے۔ دونوں کا حصہ برابر کچھ صورتوں میں ایک ہی درجہ کے مرد و عورت رشتہ دار کے حصے برابر ہوتے ہیں : ٭ میت کا ایک لڑکا ہو اور ماں باپ ہوں تو باپ کو بھی چھٹا حصہ ملے گا اور ماں کو بھی ۔ ٭ میت کی صرف دو بیٹیاں ہوں ، اس صورت میں بھی بیٹیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا ، ماں اور باپ کو چھٹا ملے گا ۔ ٭ مرنے والی نے باپ ، بیٹا او رنانی کو چھوڑا ہو تو باپ اور نانی دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا ؛ حالاں کہ نانی کا رشتہ بمقابلہ باپ کے دور کا ہے ۔ ٭ اخیافی یعنی ماں شریک بھائی اور بہنوں کا حصہ ہمیشہ برابر ہوتا ہے ۔ ٭

 بعض صورتوں میں تنہا مرد رشتہ دار ہو یا عورت ، پورے ترکہ کی حقدار ہوگی ، جیسے کسی نے صرف باپ کو چھوڑا ہوتو عصبہ ہونے کی بناپر باپ پورے ترکہ کا حقدار ہوگا ، یا صرف ماں کو چھوڑا ہو تو ایک تہائی اس کا اصلی حصہ ہو گا اور دو تہائی بطور ’’ رد ‘‘ اسے ملے گا ، یا صرف ایک بیٹا چھوڑا ہو تو وہ عصبہ ہونے کی بناپر پورے ترکہ کا حقدار ہوگا ، اور اگر صرف ایک بیٹی چھوڑی ہو تو نصف اس کا اصل حصہ ہوگا اور باقی بطور ’’ رد ‘‘ اسے مل جائے گا ۔ اس طرح کی متعدد صورتیں ہیں جن میں حقیقی بہن کا حقیقی بھائی کے ساتھ یا اخیافی بہن کا حقیقی بھائی کے ساتھ برابر کاحصہ ہوتا ہے ۔ عورت کا حصہ زیادہ بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے بڑھ جاتا ہے ؛ کیوں کہ بیٹی کا حصہ ذوی الفروض میں ہونے کی حیثیت سے بعض دفعہ نصف یا تہائی بھی ہو جاتا ہے ، بیٹے کا حصہ اصحاب الفروض میں ہونے کی حیثیت سے نصف یا تہائی نہیں ہے ؛ البتہ اصطلاحِ میراث کے اعتبار سے ’’ عصبہ ‘‘ میں ہونے کی حیثیت سے تقسیم حصص کے بعد بچاہوا حصہ اسے مل جاتا ہے ، یہ حصہ بعض اوقات عورت کے اس حصے سے کم ہوجاتا ہے ، جو اسے ’ اصحابِ فروض ‘ میں ہونے کی حیثیت سے ملتا ہے ، جیسے فرض کیجئے کہ ایک عورت نے اپنی وفات کے وقت ساٹھ ایکڑ زمین چھوڑی اور شوہر ، والد ، ماں اور دو بیٹیوں کو چھوڑا ، تو ہر بیٹی کو سولہ (۱۶ ) ایکٹر زمین ملے گی ، اوراگر اسی صورت میں دو بیٹیوں کے بجائے دو بیٹوں کو چھوڑا تو ہر بیٹے کا حصہ ساڑھے بارہ ایکٹر ہوگا ، اسی طرح ایک عورت نے ترکہ میں ۱۵۶ ایکڑ اراضی چھوڑی اور اس کے ورثہ میں شوہر ، والد ، ماں اور بیٹی ہیں ، تو بیٹی کا حصہ۷۲؍ ایکڑ ہوگا اور اسی صورت میں اگر بیٹی کے بجائے بیٹا ہے تو اس کا حصہ ۶۵؍ایکٹر ہوگا ؛ چنانچہ اس طرح کی متعدد صورتیں ہیں جن میں مرد کے مقابلہ عورت کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ۔

 صرف عورت وارث 

بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جس میں مرد کو حصہ نہیں ملتا ہے ؛ لیکن اگر اسی کی ہم درجہ عورت رشتہ دار ہو تو وہ میراث میں حصہ پاتی ہے ، جیسے کسی عورت نے پس ماندگان میں شوہر ، باپ ، ماں ، بیٹی اور پوتی کو چھوڑا ہو ، تو پوتی چھٹے حصے کی مستحق ہوتی ہے اور پوتی کے بجائے پوتا ہو تو اسے کوئی حصہ نہیں ملتا ، اسی طرح مرنے والی عورت نے شوہر ، حقیقی بہن اور علاتی بہن کو چھوڑا ہے تو علاتی بہن چھٹے حصے کی حقدار ہوتی ہے ، علاتی بہن کے بجائے علاتی بھائی ہو تو اسے کوئی حصہ نہیں ملتا ہے ، اسی طرح بعض اوقات دادی وارث ہوتی ہے اور اجداد میں سے جو اس کے مقابل ہو، وہ وارث نہیں ہوتا ہے ۔

 غرض کہ شریعت میں بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ برابر یا زیادہ ہوتا ہے یا عورت حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے ، ڈاکٹر صلاح الدین سلطان مصری نژاد فاضل ہیں ، جو جامعہ اسلامیہ امریکہ میں استاذ ہیں ، انھوں نے اس موضوع پر ’’ میراث المرأۃ و قضیۃ المساواۃ‘‘ کے عنوان سے قلم اُٹھا یا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تیس سے زیادہ حالتیں ایسی ہیں جن میں عورت مرد کے برابر یا اس سے زیادہ حصہ پاتی ہے یا وہ تنہا حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے ، جب کہ چار متعینہ حالتیں ہیں ، جن میں عورت کا حصہ بہ مقابلہ مرد کے آدھا ہوتا ہے ، اگر اس پس منظر میں عورت کی میراث کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ عورت کو مرد کے مقابلہ کم حصہ دیا جاتا ہے ، محض غلط فہمی ہے ، اور جن صورتوں میں عورت کا حصہ کم ہے ، ان میں فرق محض فرائض اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے رکھا گیا ہے ؛ بلکہ اس میں بھی عورتوں ہی کی رعایت ملحوظ ہے ض

 مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں مذکر کو دوگنا دیاگیا ہے، وہ بھی باریک حکمتوں کے پیش نظر حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ (۲/۳۷۴) میں لکھتے ہیں : أنَّ الذکَرَ یُفَضَّلُ علی الأنثٰی إذا کانا في منزلۃ واحدۃ أبدًا؛ لاختصاص الذکور بحمایۃ البیضۃ والذب عن الذمار؛ ولأنَّ الرجالَ علیہم إنفاقاتٌ کثیرۃٌ فہم أحق بما یکون شبہ المجان بخلاف النساء فإنَّہُنَّ کَلٌّ علی أزواجہن أو آبائہِنَّ أو أبنائِہِنَّ۔ وہو قولہ تعالیٰ: الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَی النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَہُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ (نسائ:۳۴)

 ترجمہ: مرد کو عورت پر (ترکہ میں ) صرف اسی صورت میں ہمیشہ ترجیح دی گئی ہے جب کہ دونوں ایک درجے میں ہوں ، (گویا اوپرکی ساری شکلیں اس میں آگئیں ) وطن کی حمایت اور اپنوں کے دفاع میں مرد کے خاص ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ مردوں پر بہت سے اخراجات لازم ہیں ؛ اس لیے مفت کی طرح ملنے والے مال کے زیادہ حق دار ہیں ، برخلاف عورتوں کے؛ اس لیے کہ وہ (بلانکاح) اپنے باپ دادا، بیٹے پوتے اور (نکاح کے بعد) اپنے شوہروں پر بوجھ ہوتی ہیں اور یہ (باتیں ) اللہ تعالیٰ کے قول (میں ) ہیں : مرد عورتوں پر نگراں ہیں ، اس فوقیت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر دی ہے اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال (ان کی کفالت میں ) خرچ کرتے ہیں ۔ 

حضرت شاہ صاحبؒ نے یہاں ’’ایک‘‘ بات تو یہ بیان فرمائی کہ مردوں کو عورتوں سے دوگنا صرف اس صورت میں ملتا ہے جب کہ دونوں ایک ہی درجے کے ہوں ، یہ بات اوپر کی تینوں صورتوں میں خوب واضح ہے کہ ماں باپ، میاں بیوی اور بھائی بہن سب ایک درجہ میں ہیں ۔ ’’

دوسری‘‘ بات یہ فرمائی کہ ترکہ میں مردوں کو دووجہ سے زیادہ ملتا ہے ایک تو اس وجہ سے کہ مرد مردانگی کے کام کرتا ہے، اپنے اہل وعیال کی حفاظت میں شیردل ہوکر بیٹھا رہتا ہے، عزت، آبرو اور جان ومال کی حفاظت کے لیے لڑنے کی نوبت آتی ہے تو لڑتا بھی ہے، اس میں شاہ صاحب نے دیگر مذاہب اور عرب کے قیاسی استدلال کو ملحوظ رکھا اور دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ عورت پر مرد خرچ کرتا ہے، گویا ’’آمدنی بقدر خرچ‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مردوں کو دوگنا دیاگیا کہ وہ بیوی بچے، ماں باپ اور خود اپنے اوپر خرچ کرتا ہے، اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی بیاہ شادی پر خرچ کرتا ہے، بیوی کا مہر دیتا ہے، کھانا، کپڑا اور رہائش کا انتظام کرتا ہے، آنے والے مہمانوں کی ضیافت کرتا ہے، صدقہ خیرات کرتا ہے، گھر کے لوگوں کے دوا علاج پر خرچ کرتا ہے، کبھی کوئی جرمانہ کسی پر عائد ہوا تو اس کی ادائیگی کرتا ہے۔ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں : والحکمۃُ أنَّ الرجال تلحقہم مُؤَنٌ کثیرۃٌ بالقیام بالعِیَالِ وَالضِّیفان والأرقّاء والقاصدین ومؤاسات السائلین وتَحَمُّلِ الغرامات وغیر ذلک۔ (شرح صحیح مسلم) ترجمہ: (مردوں کو میراث زیادہ دینے کی) حکمت یہ ہے کہ مردوں پر بہت سی مالی ذہ داریاں آپڑتی ہیں ، اہل وعیال، مہمان، غلام، آنے جانے والے کی ذمہ داری، مانگنے والوں کی دل جوئی اور تاوان کا بوجھ وغیرہ۔

 رہی عورت تو اس کا اسلام میں کوئی خرچہ نہیں ، شادی سے پہلے اور شادی نہ ہوتو پوری زندگی وہ باپ کے پاس رہتی اور باپ اس کی کفالت کرتا ہے، باپ پر کفالت واجب ہے اور شادی کے بعد شوہرپر شریعت نے نفقہ واجب کیا ہے اور اگر باپ نہیں ہے تو بیٹے پھر بھائی پھر چچا پر نفقہ واجب ہے؛ بلکہ محتاج ہونے کی صورت میں محرم رشتے دار پر بقدر میراث نفقہ واجب رہتا ہے اور وارث کو اس پر مجبور کیا جائے گا۔ والنفقۃ لکل ذي رحم محرم؛ إذا کان صغیرًا فقیرًا أو کانت امرأۃ بالغۃ فقیرۃ أو کان ذکرًا بالغًا فقیرًا زَمِنًا أو أعمٰی۔ (ہدایہ۲/۱۹۲ مکتبہ بُشری کراچی) ویجب علی مقدار المیراث ویجبر علیہ۔ (ایضًا)۔ ترجمہ: ہرمحرم رشتے دار کا خرچہ اس وقت واجب ہے جب کہ وہ نابالغ اور محتاج ہو یا عورت محتاج بالغ ہو یا بالغ محتاج اپاہج یا اندھا ہو اور نفقہ (بالفرض) وراثت پانے کی مقدار کے مطابق واجب ہوتا ہے اور اس (کی ادائیگی) پر رشتے دار کو مجبور کیا جائے گا۔ یہاں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ مردوں کو اگر دوگنا دیاگیا ہے تو یہ اس وجہ سے معقول ہے کہ ان کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں آدھی ہے تو دوگنا ملنا ہی چاہیے، تبھی تو دونوں صنفوں میں برابری ہوگی! اب یہ کہنا کہ عورتوں کو اسلام نے ذلیل رکھا ہے بالکل غلط ہوگا؛ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسلام نے عدل کیا ہے عورتوں کو عزت دی ہے، دوسرے مذاہب میں عورتوں کو ترکہ سے بالکل محروم رکھاگیا ہے۔ 

مذاہب عالم میں خواتین کے لئے میراث کا تصور ۔

 (الف) ’’یونانی قانون‘‘ میں ترکہ صرف لڑکوں کو دیاگیا تھا، اس کی دلیل یہ تھی کہ خاندانی مسائل وحالات کی نگرانی لڑکا ہی کرتا ہے، گھریلو حقوق وفرائض وہی ادا کرتا ہے؛ اس لیے اسی کو ترکہ ملے گا۔ لڑکیوں کے اندر یہ صلاحیت نہیں اور ان کی یہ ذمہ داری نہیں ہے؛ اس لیے لڑکیوں کو ترکہ نہیں ملے گا۔ (احکام المیراث ص۵۷ مؤلفہ ڈاکٹر محمد محمد براج بحوالہ تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷) (ب) ’’بابلی قانون‘‘ میں بھی لڑکیوں کو اس صورت میں ترکہ نہیں دیا جاتا تھا جب کہ میت کا لڑکا یا بھائی موجود ہوتا تھا، اگر دونوں موجود نہ ہوتے تو لڑکیوں کو ترکہ ملتا تھا۔ (الاعجاز لنظام المیراث، مؤلفہ احمد یوسف سلیمان) (ج) ’’یہودی مذہب‘‘ میں میت کی لڑکی کو اسی وقت ترکہ ملتا تھا جب کہ میت کا کوئی لڑکا موجود نہ ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی شرط تھی کہ لڑکی کو اسی وقت ترکہ ملے گا جب کہ وہ اپنے قبیلے اور خاندان میں بیاہی جائے، اگر خاندان سے باہر شادی ہوتی تھی تو اس کو ترکہ نہیں ملتا تھا، یہودی مذہب میں بیوی کو بھی ترکہ نہیں دیا جاتا تھا اور بیوی کی کمائی اوراس کے ترکے کا مستحق اس کا شوہر ہوتا تھا۔ (تورات: کتاب گنتی باب ۲۱، ۲۷، باب ۳۶/مقدمہ شریفیہ:١٨-١٩) (د) ’’عیسائی مذہب‘‘ میں عورتوں کو ناپاک مخلوق مانا جاتا تھا، ان کے یہاں الگ سے کوئی قانونِ میراث نہیں ملتا؛ مگر عیسیٰ علیہ السلام چوں کہ بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء ہیں اور تورات کے بدلے ہوئے احکام کو درست کرنے کے لیے تشریف لائے تھے؛ اس لیے مستقل احکامات انجیل میں نہیں ملتے، بالفرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیوں کے یہاں بھی اصولی طور پر توارت کا حکم ہی مسلّم ہے۔ یعنی ان کے یہاں بھی لڑکوں اور چچائوں کی موجودگی میں لڑکیوں کو نہ دیا جانا مسلّم تھا۔ (الفرائض والمواریث للزحیلی:٢٣-٢٥) 

(نوٹ) یہاں ایک سوال ہوگا کہ اگر یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے آسمانی اور الٰہی ہونے کا دعویٰ کریں تو کیا یہ مانا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو لڑکوں اور چچائوں کی موجودگی میں مرحوم فرمایا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چوں کہ تورات وانجیل میں تحریفیں ہوتی رہی ہیں ؛ اس لیے یہ حکم بھی انھیں تحریفات میں سے ہوسکتا ہے؛ اور یہ کہ اس لیے بھی قرینِ قیاس ہے کہ میراث کے احکامات قرآن مجید میں بڑے اہم اور سخت ہیں ، میراث پر عمل نہ کرنے والا فاسق اور زبان سے انکار کرنے والا اور میراث کے قرآنی احکامات کو نہ ماننے والا کافر ہے؛ اس لیے اس کے لیے ہمیشہ ہمیش جہنم میں رکھے جانے کی وعید آئی ہے۔ (نسائ:۱۴) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تورات وغیرہ میں یہ حکم قرآن کی طرح ہوگا؛ مگر لوگوں نے اس میں تحریف کی ہوگی۔ 

(ھ) ’’ہندو مذہب‘‘ میں بھی میراث میں عورتوں کا کوئی حق نہ تھا، منوسمرتی (۹؍۱۰۲) میں لکھا ہے کہ ’’ماں باپ کی ساری دولت بڑا بیٹا لے، چھوٹا اور منجھلا بھائی بڑے بھائی سے اوقات گزاری کریں ، جس طرح والدین سے پرورش پاتے تھے۔‘‘ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ص۱۶۱/اسلام اور ہندو دھرم کا مطالعہ: ٤٢٦-٤٣٠) یجروید،اتھر وید وغیرہ کا خلاصہ یہ تھا: ۱- عورت اور شودر دونوں نِردھن (مال سے محروم) ہیں ۔ ۲- لڑکی باپ کی جائیداد کی وارث نہیں ہے۔ ۳- اگر کسی بیوہ کو اپنے شوہر کی طرف سے کوئی جائیداد ملی ہوئی ہے تو وہ اُسے بیچ نہیں سکتی۔ ۴- لڑکا نہ ہوتب بھی لڑکی وارث نہیں ہوسکتی؛ البتہ متبنّیٰ یعنی لے پالک وارث ہوگا۔ (مذاہبِ عالم کا تقابلی مطالعہ ص۱۲۸) ہندوستان کے قانون میں ۲۰۰۵÷ میں ہندو عورت کو یہ حق دیاگیا کہ باپ کی مشترکہ جائیداد میں لڑکی کا حصہ بھی لڑکے کے برابر ہوگا۔ (تکبیر مسلسل مارچ ۲۰۱۷÷)

 (و) ’’عرب‘‘ میں زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو ترکہ نہ دینے کا رواج تھا، اسی پر سارے عرب عمل کرتے تھے، ان کے یہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ تھی، وہ کہتے تھے: کَیْفَ نُعْطِي الْمَالَ؟ مَنْ لا یَرْکَبُ فَرَسًا وَلَا یَحْمِلُ سَیْفًا وَلَا یُقَاتِلُ عَدُوًّا (المواریث ص۲۱) ترجمہ: ہم (اس صنف کو) مال کیسے دیں ؟ جو نہ گھوڑے پر سوار ہوتی ہے، نہ تلوار اٹھاتی ہے اورنہ دشمن سے جان توڑ مقابلہ کرتی ہے! زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے یہاں عورتوں اور بچوں کو کوئی مال نہ دیا جاتا تھا، نہ ترکہ اورنہ مال غنیمت وغیرہ؛ بلکہ عورتیں مردوں کی دست نگر اور محتاج ہوتی تھیں ، ان کا کھانا، خرچہ، کپڑا اور رہائش مرد برداشت کرتے تھے؛ اس لیے ترکہ بھی نہ دیتے تھے۔ اسلام نے عورتوں کو انصاف دیا، جہاں اُن کو زندہ درگور ہونے سے بچایا، وہیں گھر کی ملکہ بناکرترکہ اورمیراث میں ان کا حصہ مقرر کیا، اُن کو کسی کا محتاج نہ چھوڑا۔(مقدمہ شریفیہ: ٢٠-٢١) 

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: کتاب الفرائض،آسان سراجی: مفتی سلمان منصورپوری صاحب ۔ ٣٤-٤٤‌

 تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ۔

 ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا ۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383