Oct 23, 2025 07:40 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
محسنِ انسانیت ﷺ کی ولادت – کائنات کے لیے رحمت

محسنِ انسانیت ﷺ کی ولادت – کائنات کے لیے رحمت

28 Aug 2025
1 min read

محسنِ انسانیت ﷺ کی ولادت – کائنات کے لیے رحمت

 از: محمد مقتدر اشرف فریدی،

 اتر دیناج پور، بنگال۔ 

ماہِ ربیع الاول کی رونقیں اور بہاریں ہر سمت جلوہ گر ہیں، دلوں کو مسرت اور فضاؤں کو نور سے معمور کر رہی ہیں۔ یہ ساری خوشیاں اور رعنائیاں دراصل محسنِ انسانیت، فخرِ موجودات، رحمتِ دو عالم آقا کریم ﷺ کی ولادتِ باسعادت کی برکتیں ہیں۔ یہی وہ باعظمت مہینہ ہے جس نے کائنات کو انوارِ مصطفی ﷺ سے منور کر کے تمام مہینوں پر شرف و فضیلت عطا کی۔

 تمام جہانوں کے لیے رحمت

 اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت اور سب سے عظیم رحمت ہمارے آقا و مولا، رحمتِ دو عالم ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: وَما أَرسَلناكَ إِلّا رَحمَةً لِلعالَمين "اے محبوب ﷺ! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔" رحمتِ عالم ﷺ کی رحمت آفاق گیر ہے، جو کائنات کی ہر مخلوق کو محیط ہے۔ آپ ﷺ انسان و جنات، انبیا و رسل، مومن و کافر، دوست و دشمن، حیوان و نبات، حتیٰ کہ ذرے ذرے کے لیے سراپا رحمت ہیں۔ جیسے ربِ کریم کی ربوبیت ہر چیز پر عام ہے، ویسے ہی مصطفی ﷺ کی رحمت ہر سمت محیط ہے۔

 آمد مصطفیٰ ﷺ کی برکتیں

 نبی کریم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل دنیا ظلمت و ضلالت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہر طرف کفر و شرک کا اندھیرا، بت پرستی کا راج، ظلم و جبر کا بازار اور اخلاقی پستی عام تھی۔ ایسے پرآشوب دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب، رحمتِ عالم ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسانیت کو نورِ ہدایت عطا کریں۔ آپ ﷺ کی آمد نے جہالت کے اندھیرے مٹا دیے، رشد و ہدایت کی قندیل چمک اٹھی، توحید و رسالت کا نور پھیلنے لگا، کردار سنورنے لگے، اطوار مہکنے لگے، افکار چمکنے لگے، انوار برسنے لگے اور پوری کائنات روشن ہوگئی۔

 رسول کریم ﷺ کا اخلاق عظیم

 آپ ﷺ سراپا حلم، عفو، سخاوت، صبر، شکر، رحم و کرم، شفقت اور اعلیٰ اخلاق کے بے مثال پیکر تھے۔ آپ کے اخلاق نے دلوں کو تسخیر کیا اور انسانیت کو کامل راہِ نجات عطا کی۔ آپ ﷺ سچائی، دیانت داری، رحم دلی اور صبر کا نمونہ تھے۔ آپ ﷺ کے دشمن بھی آپ کی امانت اور صداقت کے قائل تھے، اسی لیے آپ کو "الصادق" اور "الامین" کہا جاتا تھا۔ اللہ کریم نے آپ ﷺ کو خلق عظیم کے اعلی درجہ پر فائز فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے: وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم) "یقیناً آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔ 

بعثت کا مقصد: اخلاق کی تکمیل

 نبی اکرم ﷺ نے اخلاق کی ترویج و اشاعت کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: "إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الأَخْلَاقِ" "یقینا میں اسی لیے بھیجا گیا ہوں کہ شریفانہ اخلاق کی تکمیل کروں۔" (البیہقی فی السنن الکبری)

 رسول اکرم ﷺ نے حسنِ اخلاق کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "کوئی چیز جو حساب کے ترازو میں رکھی جائے گی، حسنِ اخلاق سے زیادہ بھاری نہ ہوگی۔" (جامع الترمذی)

 اخلاقِ مصطفی ﷺ کے نمایاں پہلو

 صبر و برداشت

 میدانِ طائف میں پتھر کھائے، احد میں زخمی ہوئے، دندانِ مبارک کا ایک گوشہ شہید ہوگیا اور رخِ زیبا لہو لہان ہوا۔ صحابہ کرام کے لیے یہ ناقابلِ برداشت لمحات تھے۔ ان لمحات میں صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان لوگوں نے آپ پر ظلم و جفا کاری کی انتہا کر دی ہے، اگر آپ چاہیں تو ان کے لیے بد دعا فرما دیں۔ اس پر آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے جواب ارشاد فرمایا: "إني لم أبعث لعانًا، وإنما بعثت رحمة." (صحیح مسلم)

 یعنی میں اپنے اوپر ظلم و زیادتی کرنے والوں کے لیے بد دعا نہیں کروں گا، اس لیے کہ میں لوگوں کو رحمت سے محروم کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں تو خیر، فلاح اور نیکی کی طرف ایک ایسا دعوت دینا والا بن کر مبعوث ہوا ہوں جو سر تا پا ہر اپنے اور پرائے کے لیے رحمت ہی رحمت ہے۔

 ان حالات میں بھی آپ ﷺ نے بددعا نہ کی بلکہ یوں دعا فرمائی: اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ "اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، بے شک یہ جانتے نہیں۔" (مسند احمد) آپ ﷺ نے انتہائی مشکل اور کٹھن حالات میں بھی صبر و استقلال کا دامن نہ چھوڑا۔

 عفو و درگزر

 فتحِ مکہ کے موقع پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عام معافی کا اعلان فرمایا۔ جس قوم نے آپ پر ظلم و ستم کیے، جب آپ ﷺ نے اس پر فتح حاصل کی تو سب لرزاں و ترساں تھے کہ کہیں انتقام نہ لیا جائے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤ! آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرمائے۔ فتحِ مکہ پر عام معافی دے کر دکھا دیا کہ حقیقی فاتح وہی ہے جو معاف کرے۔

 تواضع و انکساری

 تمام تر عظمت کے باوجود آپ ﷺ نے فرمایا: میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔ آپ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بندہ ہونے پر فخر کا اظہار فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ اپنے کپڑوں میں پیوند لگاتے، جوتے مرمت کرتے اور گھر کے کام کاج میں اہلِ خانہ کی مدد فرماتے۔ آپ ﷺ غلاموں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھتے اور ان کی دلجوئی فرماتے۔ یہ وہ عظیم عاجزی اور انکساری ہے جس کی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔

 سخاوت و ایثار 

آپ ﷺ کے پاس جو کچھ ہوتا، راہِ خدا میں تقسیم فرما دیتے۔ کبھی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔

 شفقت و محبت

 آپ ﷺ بچوں سے کھیلتے، عورتوں کی عزت کرتے، صحابہ کی دلجوئی فرماتے اور امت کے لیے دعائیں کرتے رہتے۔ قرآن کریم نے فرمایا:(بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ) "آپ مومنوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہیں۔" 

عدل و انصاف

 آپ ﷺ نے عدل کو کبھی مصلحت پر قربان نہ کیا۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا: "اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ 

اخوت و مساوات:

 رسول اکرم ﷺ نے انسانی مساوات کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا: "کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، اور نہ ہی کسی گورے کو کالے پر یا کالے کو گورے پر فضیلت ہے، سوائے تقویٰ کے۔

 کامل نمونۂ حیات 

آپ ﷺ کی سیرت اہلِ ایمان کے لیے کامل اسوہ اور بہترین نمونہ عمل ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب) "یقینا رسول اللہ ﷺ کی زندگی تمہارے لیے حسین نمونہ عمل ہے۔

 نتیجہ 

رسولِ کریم ﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ اخلاقی خوبیوں کا حسین مرقع ہے۔ آپ ﷺ کی بعثت کا مقصد انسان کو اخلاقِ حسنہ کا خوگر بنانا تھا۔ آج اگر امت ان اوصاف کو اپنا لے تو معاشرہ امن و محبت کا گہوارہ اور دنیا و آخرت کی کامیابیوں کا ضامن بن جائے گا۔ آپ ﷺ کا مشن دنیا میں عدل، امن و شانتی، صلح و آشتی، پیغام محبت اور خدا کی بندگی کو عام کرنا تھا، جو کہ قیامت تک انسانیت کے لیے مشعل راہ رہے گا۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383