Oct 23, 2025 07:50 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
قوم مسلم کا ماضی اور حال ایک تجزیاتی مطالعہ

قوم مسلم کا ماضی اور حال ایک تجزیاتی مطالعہ

24 Jul 2025
1 min read

قوم مسلم کا ماضی اور حال ایک تجزیاتی مطالعہ

از: نور محمد خالد مصباحی

مرکزی خازن علما کونسل نیپال

بسم الله الرحمن الرحيم. یوں تو اس دنیا  کے سات بر اعظمون  میں سے چھ میں  مختلف قومیں اباد ہیں انھیں مین سے ایک قوم قوم مسلم بھی ہے۔جس کا ماضی اتنا شاندار  اور حال اتنا خسته کہ شاعر کو کہنا پڑا ( وه معزز تھے زمانہ میں مسلمان ہو کر۔ہم خوار ہوے تارک قران ہوکر)جس قوم  کے بارے میں اللہ کریم کا وعدہ ہے ۔ ولا تهنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان كنتم مومنين. سورة:ال عمران  ایت:139  اور سست نہ رہو اور  غم نہ کھاو تمہی بلند وبالا رہو گے مگر ایک شرط  ہے کہ ایمان والے ہو جاو۔ اور اللہ پاک نے اپنے اس وعدہ کو سچا کر کے دکھا دیا  باین طور کہ اس نے ابتداے اسلام  مین نصف صدی سے بھی قلیل مدت میں دنیا کے تین بر اعظمون ایشياء يورپ ۔افریقہ پر اسلامی فتوحات کا پرچم نصب کر وادیا  قیصر وکسری جیسی عظیم سلطنتیں انکے زیر نگین ہو گئیں ۔ معاملہ یہین تک نا رکا بلکہ دور بنو امیہ ۔بنو عباسیہ ۔سلجوقیہ عثمانیہ  .غزنویہ ۔غوريہ۔خلجیہ ۔مغلیہ میں  فتوحات كا  مزید سلسلہ جاری رہا اس تابناک ماضي كے کچھ اسباب وعوامل تھے۔مثلا مسلمانوں کا قران وسنت پر مضبوطی سےعمل  ۔عدل وانصاف کی بالا دستی ۔اپسی اتفاق واتحاد ۔دینی غيرت وحميت۔ دين وسياست مين يكجہتی و ہم اہنگی ۔وغيره اصولون پر عمل کرنے کی وجہ سے  ۔کامیابی نے ہمارا قدم چوما۔  ہان جس دن ہم نے اس قراني إحكام  پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔اور ایمان کے تقاضوں سےدستبردار ہو گئے تو پھر(:من اعرض عن ذكري فان له معيشة ضنكا :جو میری ذكر سے روگردانی کرے گا میں اس کی زندگانی تنگ کر دونگا ۔)اس کے مصداق بن گئے۔اج پریشانیاں ہماری مقدر بن چکی ہے اخر اسکیے متعدد وجوہات ہین۔قران و سنت سےدوری ۔افتراق وانتشار ونا اتفاقی ۔نا انصافی قانون شكني .عبادت وریاضت سے دوری ۔مغربی افکار و نظریات سے محبت و مرعوبيت .نيكي كي دعوت سے دوری ۔فکری ونظرى جمود .دنياوي مال واسباب سے محبت.  سیرت مصطفے ۔۔اسوہ صحابہ سےدوری ہماری پریشانیوں کا سبب ہے۔ ۔اج ۔سیاسیات ۔معاشیات ۔سماجیات۔عمرانیات۔ ۔معاملات اخلاقیات  ۔۔ ہر شعبہ زندگی میں ہم غيرون سے پیچھے ہین بالخصوص سیاسیات مین  تو ہم  غيرون کے دست نگر بن چکے ہین ہمین فٹبال سمجھ لیا گیا  ۔۔تم کو کیا معلوم کہ قوم کیا ہے اور قوموں کی امامت کیا ہے ۔ہم نے سیاست کو دین سے جدا کر دیا ۔جسکی وجہ سے زمام حكومت غيرون کے ہاتھ میں چلی گئی اج دنیا مین بنام مسلمان   57اسلامی ممالک ہین مگر سب کا لگام پنجہ یہود مین ہے ۔ایک دور وہ  بھی تھا کہ راجہ داہر کے ظلم وستم سے تنگ آکر ایک مسلمان خاتون نے حجأج بن يوسف كو صدا لگائ ۔ صدا سنتے ہی حجاج بن یوسف نے اپنے بھتیجے محمد بن قاسم کو ایک لشكر جرارکے ساتھ راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے روآنہ کر دیا اور ایک دور اج بھی ہے فلسطین۔ شام .لبنان.کشمير .بوسينيا .مين مسلمان عورتون کی عزتین ۔پامال ہو رہی ہیں ۔انکے سامنے انکی زندگی کا سہاگ لٹتا جا رہا ہے مگر اج کا مسلم  حكمران خاموش تماشاي بنا بیٹھا ہے ۔ ایک دور وہ بھی تھا کہ جب خانقاهون سے  ضرب حيدري کی صدائین بلند ہوا کرتی تھیں اج خانقاہین تن بے جان ہو چکی ہیں  مدارس دینیہ جو کل تک علم و  حكمت کے سر چشمے تھے جہان سےفقہا ء ومحدثين ومحققين .غزالي ورازی ۔جنم لیتے تھے اج وهان  سے اختلاف وانتشار جنم  لے رہے ہیں کل تک جن ماؤن   کے گود سے غزنوی ۔ غوری۔ ايوبي جنم ليتے تھے اج انہین ماون کے گود سے سلمان ۔شاه رخ. مبر جعفر.مير صادق جنم لے رہے ہیں ۔ایک دور وہ بھی تھا کہ ہمارے مقدر کا فیصلہ قران وحديث سے ہوا کرتا تھا اج لندن وواشنگتن سے ہو رہا ہےاخر ہم پریشان کیون ہے ۔کیونکہ ہم  نے سیرت مصطفےکو چھوڑ دیا ۔شاعر كہتا ہے۔(طریق مصطفے کو چھوڑنا ہے وجہ بربادی ۔اسی سے ہو گئ قوم دنیا میں بے اقتدار اپنی)۔ اج ايك عالم دوسرے عالم کو۔ایک خطیب دوسرے خطیب کو ۔ایک نعت خوان دوسرے نعت خواں کو پسند نہیں کرتا 

اس کی وجہ کیا ہے۔تو اس کا جواب یہ ہے کہ کثرت حسد خواہش دنیا۔فقدان اخلاص و ايثار.حب جاه وشہرت ۔نام ونمود۔ہم علماء مین  کوٹ کوٹ کر بھر چکا ہے  خطباء شعراء قراء.حفاظ اپس میں جھگرنے لگے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے لگے۔ تاکہ لوگ  انہیں ہی اچھا سمجھیں  انہین ہی زینت محفل هونے کاشرف بخشين.انہین ہی ندرانہ سے مالامال کرین ہان جب یہی دینی علوم و فنون رضاے الہی ورضاے مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئیے  حاصل كيا  گیا تو  اپس میں الفت ومحبت تھی تاریخ کی کتابین فقہاء محدثين.مفسرين کی  اپسی اخوت و محبت کی سیرتون  سے بھری پڑی ہیں ۔۔مین علماء کرام سے گزارش کروں گا کہ اپ حضرات اب علوم دینیہ کے ساتھ۔عصری علوم وفنون میں  بهي مہارت پیدا کریں تاكه   معاشيات اچھی ہو.اعلي تعليم چاہیے عصری ہو یا دینی اس کی کمی بھی ہماری ترقی کی راہون مین رکاوت کا  ایک اہم سبب ہے مجھے برا بھلا  نہ کہینگے ۔دور حاضر مين اكثر خطباء وشعراء جماعت رابعه فیل ہی ہوتے ہین اب خطابت۔ونعت خوانی با قاعدہ ایک پیشه کی شكل اختيار كرچکا ہے۔ باقاعدہ استیجون سے ایک دوسرے کو طعن وتشنيع كيا جا رها  ہے۔یہ امر امت مسلمہ کے لیے لائق افسوس ہے ۔ ۔مدارس وخانقاہ کے ذمہ دارون سے مودبانہ گزارش کرونگا کہ اب quantity سے بڑھ کر quality  کی ضرورت ہے اس لئے اپ حضراتQuality پیدا کروائیں ۔معذرت کے ساتھ نيم حكيم خطرے جان ۔نیم ملا خطرے  ایمان

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383