Oct 23, 2025 08:03 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام کی بے بسی

مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام کی بے بسی

25 Sep 2025
1 min read

مسئلہ فلسطین اور عالم اسلام کی بے بسی

مضمون نگار 

ادیب شہیر حضرت علامہ نورم حمد خالد مصباحی ازہری 

مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال

دنیا کے ساتوں  براعظموں پر جزوی یا کلی طور پر یورپین (European) قابض ہو چکے تھے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ براعظم جنوبی امریکہ،(.برازیل ۔ارجنٹائن ۔سرینام ۔چلی ۔ووینزولا ۔)     شمالی امریکہ (کینیڈا یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ میکسکو )  یورپ ( اسپین پرتگال۔۔فرانس ۔جرمنی نیدر لیند۔ناروے ۔پولینڈ ۔بلغاریہ ۔اٹلی .یونان ۔سویترر لیند ۔فن لینڈ وغیرہ )، آسٹریلیا اور افریقہ کے 90 فیصد حصون  پر یا تو برطانوی سامراج یا فرانسیسی سامراج حکومت کر رہے تھے۔ ایشیا میں برصغیر (موجودہ پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما)، انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی، فلپائن، اور نیوزی لینڈ پر بھی  برطانوی، فرانسیسی، یا ہسپانوی حکومت کر رہے تھے۔الحمد لله  اگر مضمون كے طویل ہونے کا خوف نہ ہوتا تو دنیا کے 193 ممالک کی بیسویں صدی کے اوائل میں  جغرافیائی صورتحال پر قلم بند کر دیتا 

2:بیسویں صدی کے اوائل کی سیاسی صورتحال:

یورپ میں برطانوی، فرانسیسی، جرمن، اور ہسپانوی حکومتیں تھیں جبکہ روس میں زارِ روس اور چین میں چینیون کی حکومتين   تھیں ۔ ایشیا میں  خلافت عثمانیہ بشمول موجودہ (ترکی، شام، لبنان، فلسطین، اسرائیل، اردن، عراق، حجاز مقدس، یمن) حکومت کر رہے تھے۔ فارس (موجودہ ایران) میں قجرویہ  یعنی اہلِ تشیع حکومت کر رہے تھے۔ مصر، سوڈان، مراکش، تیونس، الجیریا، مالی، اور برکینا فاسو پر برطانیہ اور فرانس حکومت کر رہے تھے۔ برصغیر پر بھی انگریزوں کی حکومت تھی ۔ موجودہ قطر پر آلِ ثانی، بحرین پر آلِ خلیفہ، کویت پر آلِ صباح، خطۂ نجد پر آلِ سعود، اومان پر اباضیہ، اور متحدہ عرب امارات پر سات چھوٹے چھوٹے بادشاہ حکومت کر رہے تھے۔

3:بیسویں صدی  کے اوئل کی مذہبی صورتحال

یورپ کے خطۂ بلقان پر جو  عثمانیوں کے زیرِ نگیں تھا ان  علاقوں پر  سُنّی حنفی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ باقی یورپ کے تمام ممالک میں کسی نہ کسی طرح برصغیر کے ، یا افریقی ممالک کے ، یا مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان آباد ہو چکے تھے۔ ان میں شیعہ اور سُنّی دونوں فریق کے لوگ  تھے۔ شمالی افريقه پر گرچہ انگریز حکومت کر رہے تھے، مگر عقیدة وہاں کی عوام سُنّی صوفی مالکی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ نگیں ممالک کی  زياده تر آبادی سُنّی صوفی حنفي  مسلمانوں پر مشتمل  تھي  ۔ برصغیر میں شیعہ اور سُنّی برسہا  برس سے آباد تھے مگر اکثریت سُنّی صوفی حنفی مسلمانوں پر مشتمل   تھی۔ مشرقِ وسطیٰ کے اکثر بادشاہ سوائے آلِ سعود کے، انقلابِ عرب قومیت سے پہلے اکثر سُنّی صوفی مسلمان تھے۔ مگر سعودی عرب کے سیاسی دباؤ میں اگر کہیں نہ کہیں وہابیت سے مغلوب هو چکے تھے   وسطی ایشیاء (تاجکستان، ازبکستان، قرغستان، ترکمانستان، داغستان ازر بائیجان  وغیرہ جو زارِ روس کے ماتحت تھے)  وهان بھی سُنّی صوفی حنفی مسلمان  اکتریت میں  تھے۔اس تمہید کے بعد ان شاء الله  آپ کو مسئلہ فلسطین  سمجھنے میں آسانی ہوگی۔يون تو فلسطين خليفه دوم امير المؤمنين حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے دور خلافت یعنی ساتویں صدی عیسوی میں ہی فتح هو چکا تھا پھر خلافت راشدہ کے بعد دور بنو امیہ ۔بنی عباسیہ ۔سلجوقیہ  کے زیر نگیین سولہویں صدی تک    مختلف مسلم حكمران كے ماتحت رها .گیارہوین اور بارہویں صدی عیسوی میں   ایک صدی کے لئے یورپ کے عیسائیوں کے قبضہ میں چلا بالاخر  سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں بیت المقدس فتح هوا  پھر سولہویں  صدی  سے بیسویں صدی کے اوائل تک یعنی تقریباً چار سو برس فلسطین عثمانیوں کے ماتحت رہا ۔ اس دور میں اس پورے خطے کو شام کہا جاتا تھا (جسمین موجودہ: اسرائیل، شام، لبنان، اردن، فلسطین)۔شامل ہیں پہلی جنگِ عظیم (1914 تا 1918) لڑی گئی جس میں ایک طرف خلافتِ عثمانیہ، جرمنی، ہنگری، بلغاریہ، اور آسٹریا تھے تو دوسری طرف فرانس، برطانیہ، روس، امریکہ، سربیا، اور اٹلی کی حكومتیں تھیں ۔ جنگ کے اسباب پر گفتگو نہ کرتے ہوئے بات آگے بڑھاتا  ہوں ۔ پہلی جنگِ عظیم 1914 تا 1918 بڑے ان و بان سے لڑی گئی اور بالآخر جرمنی اور خلافتِ عثمانیہ کی شکست پر اس جنگ کا خاتمہ ہوا۔ 16 ملین انسانوں نے اپنی جانوں کا ندرانہ پیش کیا اس جنگ کے خاتمہ کے بعد ۔ بندر بانٹ کا سلسلہ شروع ہو ا ۔ خلافتِ عثمانیہ کے  خطہ شام، عراق اور خطۂ بلقان پر فاتح اقوام کا قبضہ ہو گیا۔ موجودہ فلسطین، لبنان، اردن، قطر، بحرین، اور کویت پر برطانیہ کا قبضہ ، اور  موجودہ شام و عراق پر فرانس کا قبضہ ہو گیا۔

جنگِ عظیم اول میں خلافتِ عثمانیہ اور اس کے اتحادیوں کی شکست کے اسباب

پہلا سبب: جرمنی کے یہودیوں کی شاہِ برطانیہ سے خفیہ معاہدہ کہ اگر اس جنگ میں برطانیہ 

کی فتح ہوئی تو بدلے میں برطانیہ یروشلم میں ایک یہودی ریاست قائم کرنے میں یہودیوں کی مدد کرے گا۔   بدلے میں دنیا بھر کے یہودی  ، بالخصوص جرمنی کے یہودی  ، برطانیہ اور فرانس کی  خوب خوب مالی مدد کرینگے ۔۔

دوسرا سبب: برطانیہ کے جاسوس ہمفرے کا خطۂ عرب میں گھوم گھوم کر عرب قومیت کی تحریک بلند کرنا ، اور عرب مسلمانوں کو ترک  مسلمانوں کا مخالف بنا نا  ۔ اس مخالفت میں سُنّی اور وہابی دونوں  عقائد  کے عرب شامل تھے۔ خطۂ نجد کے وہابی حکمران تو خلافتِ عثمانیہ کے  پہلے سے ہی مخالف تھے  ، جب اعلیٰ حضرت ر حمة الله عليه   تکفیر وہابیہ دیابنہ۔ کے لیے حرمین شریفین کے علماء سے حسام الحرمین پر تقریظ لکھوانے حجاز مقدس تشريف  لے گئے

تھے ، اس وقت مکہ اور مدینہ میں شریفِ مکہ عون الرفيق پاشا بعدہ علی بن عبداللہ بن محمد 1905 تا 1908 گورنر رہے۔بعدہ 1908  تا 1916   حسين بن علي ہاشمی تركون  کی طرف سے حجاز مقدس گورنر تھے  جو اپنے اپ کو ال رسول۔کہتے تھے  انہون نے 1917 عيسوي مين ترکوں سے عرب قومیت کے نام پر غداری۔کی انگریزوں نے اس  غداری ۔کے عوض انہیں خليفة المسلمين بنانے کا لالچ دیا  اور انہین حجاز و شام وعراق كا بادشاه بنا ديا گیا کہا جاتا ہے کہ جارڈن کے موجودہ بادشاہ انہیں کی نسل سے ہیں اس لئے اس مملکت کو مملکت هاشميه اردنيه كہا جاتا ہے شريف مكه كا حجاز  اور عراق وشام پر  قبضہ تو ہو گیا مگر بعد میں  نجد کےوہابیون نے شریف مکہ کے زیر نگیین حجاز مقدس پر 1925 عیسوی میں  چڑھائی کرکے انگریزوں کی مدد سے قبضہ کر لیا اور لاکھوں سنی علماء کو يا تو تختہ دار ہر لٹکا دیا یا تو شہید کر دیا ۔اس وقت حجاز کے باغی بادشاه حسين بن علي ہاشمی کے بیٹے علی بن حسين هاشمي حجاز مقدس كے بادشاه تھے .عراق وشام پر برطانیہ اور فرانس نے قبضہ کر لیا اور جارڈن کا  چھوٹا سا علاقہ انکے اولاد کو دے دیا گیا۔ناخدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ناادھر کے ہوئے نا ادھر کے ہوئے۔

تیسرا سبب: آلِ سعود اور آلِ شیخ کا انگریزوں سے مل کر سُنّیوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنا  اور دولتِ قجریویہ ایران کا  ترکوں کے 

ساتھ غداریاں  کرتے رہنا ۔وغیرہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ تو  ہو گیا ۔مگر اس  امداد کے بدلے  جو یہودیوں نے برطانیہ کے ساتھ  کیا تھا ۔ 2 نومبر 1917 کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور (Arthur Balfour) نے اعلامیہ بالفور جاری کرتے ہوئے پوری دنیا کے یہودیوں کو فلسطین میں آ کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ یہ اعلامیہ لارڈ والٹر روتھشیلڈ (Lord Walter Rothschild) کو دیا گیا جو یہودیوں کا لیڈر تھا۔

پہلی جنگِ عظیم کے بعد مسلمانوں کا سیاسی، معاشی، سماجی  مذہبی دیوالیہ ہو گیا ۔ خانقاہیں ضربِ حیدری سے محروم هو چکی تھیں جذبہ جہاد سر ہو چکا تھا ۔، عجمي تصوف غالب هو چکا تھا ۔جیسے آج برصغیر کے اکتر خانقاہون مين ہے  رہ گئی رسمِ اذان، روحِ بلالی نہ رہی، فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی۔

دوسری جنگِ عظیم (1939 تا 1945) آتے آتے فلسطین میں یہودیوں کی اچھی خاصی آبادی ہو گئی ۔ دوسری جنگِ عظیم میں ایک طرف جرمنی، ہنگری، اٹلی، جاپان، اور بلغاریہ تھے تو دوسری طرف برطانیہ، امریکہ، روس، چین، فرانس، کینیڈا، برازیل، آسٹریلیا، برٹش انڈیا، پولینڈ اور ناروے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم میں  جرمنی  کے  یہودیوں  نے جرمنی سے غداری کرکے برطانیہ کا ساتھ   دیا جب ہتلر کو اس غداری كا علم هوا تو اس نے  جرمنی اور پورے یورپ کے 6,000,000 (ساٹھ لاکھ) یہودیوں کو نذرِ آتش کر دیا اور 20,000 (بیس ہزار) یہودیوں کو زندہ چھوڑ دیا، یہ کہتے ہوئے کہ آگے دنیا دیکھے گی کہ ہٹلر نے انہیں کیوں مارا تھا ہٹلر اس وقت جرمن کا چانسلر تھا ۔ یہود یوں  کے اوپر یہ کہاوت صادق آتی ہے : ، جس پتّری میں کھاو وہی چھیدو کرو ۔ جس کا مطلب ہے کہ جس برتن میں کھاؤ اسی میں سوراخ کرو)۔یہ یہودیوں کی فطرت ہے  قرآن مجید کے سورة البقره  میں انکی اسي خباثت كو  الله نےاشكارا فر ما   دياہے دوسری جنگ عظیم کی خونریزی کو دیکھتے ہوئے کہ  دنیا میں  پھر جنگ نہ ہو   26 جون 1945 کو   امریکہ کے شہر نیویارک میں  اقوام متحدہ کی۔ بنیاد ڈالی گئی ۔ بیسویں صدی کو مسلمانوں کے زوال کی صدی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا  ۔ مسلمان پوری دنیا میں واسطہ  یا بالواسطہ انگریزوں کے غلام بن گئے تھے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ برصغیر انگریزوں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا ۔ دنیا کے اکثر حصوں پر  عیسائی قابض ہو چکے تھے  14 مئی 1948 کو  یہودیوں نے برطانیہ کی مدد سے مسلمانوں کی مقدس سر زمین  فلسطین پر  اسرائیل نامی ملک قائم کر لیا  جو اب تک قائم ہے اور  فلسطین مسلمانوں کی بے بسی کا  ابتک۔رونا رو  رہا ہے۔

فلسطین وہ قدیم شہر ہے جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ فلسطین کی اسی سرزمین پر مسجد حرام کے بعد روئے زمین پر قائم۔ہونے والی۔ دوسری مسجد مسجد اقصی ہے ۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں سے حضور صلى الله عليه وسلم  قبل از ہجرت معراج پر   تشریف لے گئے اور آدم تا عیسیٰ علیہم السلام تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ اس سرزمین کو ہزاروں انبیاء کے مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اسی سرزمین پر قبة الصخرة بھی ہے، یہ وہ پتھر ہے جس سے معراج کی رات آپ کے براق کو باندھا گیا۔ اس طرح اس زمین پر ملت اسلامیہ کے ہزاروں علماء و صلحاء پیدا ہوئے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی، علامہ یوسف نبہانی علیہ الرحمہ۔ فلسطین جیسے مقدس شہر پر غاصب صیہونی 77 برس سے قابض ہیں اور الفتح  کے نام سے محمود عباس کی  ايك.سیاسی پارٹی ہے جسکے  زیر قیادت ایک عبوری حکومت قائم ہے۔ آج صرف ہماری تحریروں اور تقریروں میں خالد بن ولید، طارق بن زیاد، سلطان صلاح الدین ایوبی کا تذکرہ باقی رہ گیا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی غیرت ایمانی کا جنازہ نکل چکا ہہے قومی  مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مسلم ممالک میں  اپسی اتحاد و اتفاق کا فقدان هو چکا  ہے۔

بوری دنیا میں کہیں بھی  خلافت کا نظام.نهين ۔ یہود و نصاریٰ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، ان میں سے بعض بعض کے دوست ہیں۔ مگر ہائے افسوس، آج مسلمان نصِ صریح کی مخالفت کرتے ہوئے یہود و نصاریٰ سے دوستی کیے ہوئے ہیں اور اپنے مسلمان حکمرانوں سے نفرت و عداوت۔ہے  کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383