Oct 23, 2025 07:52 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
دینی مسئلے میں اختلاف نعمت ہے، لیکن ذاتی حملوں یا نفرت تک لے جانا غلط

دینی مسئلے میں اختلاف نعمت ہے، لیکن ذاتی حملوں یا نفرت تک لے جانا غلط

09 Sep 2025
1 min read

دینی مسئلے میں اختلاف نعمت ہے، لیکن ذاتی حملوں یا نفرت تک لے جانا غلط 

قصبہ منہداول میں کچھ دینی معاملات کو لےکر گرما گرم بحث و مباحثہ

 منہداول ،سنت کبیر نگر

 (اخلاق احمد نظامی) 

شہر پنچایت مہنداول میں کچھ دینی معاملات کو لیکر آپسی چپقلش بحث و مباحثہ عروج پر ہے ایسے ماحول میں دین فہمی سے کوسوں دور کچھ لوگ علمائے کرام کی گستاخی پر آمادہ ہوگئے ہیں اور ذاتیات پر اتر آئے ہیں جس سے قصبہ کے مسلم حلقوں کا ماحول پراگندہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے سوشل میڈیا کے اس زمانے جب ایک دوسرے تک اپنی بات سیکنڈوں میں پہنچائی جاتی ہے اس کا فائدہ اٹھا کر بعض افراد سنی رضا مسجد گروپ کے پلیٹ فارم سے علماء کرام کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنا رہے ہیں ذرائع کے مطابق قصبہ منہداول میں دو بڑے عالم کا ایک دینی مسئلے کو لے کر برسوں سے اختلاف چل رہا ہے حالانکہ معاملہ سلجھایا جا سکتا ہے اگر منہداول کے دیگر بڑے علماء اشرفیہ مبارک پور ،بریلی شریف سے وابستہ مفتیان کرام نیز ملک کے دیگر بڑے علماء و مشائخ کو دعوت دے کر صلح کے میز تک لے آئیں اگر ایسا ہو جائے اور دونوں علماء محض اللہ و رسول کی خوشنودی کی خاطر دینی اختلافات کو حل کرلیں تو اسلام و سنیت کا بہت بڑا فائدہ ہوگا

 قصبہ کے عوام کا کہنا ہے علماء کرام کے درمیان اختلاف کیوں ہوتا ہے اور کیا یہ ممکن نہیں کہ وہ کسی ایک مسئلے پر متفق ہوجائیں؟ یہ سوال واقعی بہت اہم ہےاس کا جواب سمجھنے کے لیے ہمیں چند بنیادی نکات پر غور کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو الگ ذہن، سوچنے کا انداز، اور فہم عطا کیا ہے۔ ایک عالم جب قرآن و حدیث سے مسائل کا استنباط کرتا ہے تو اس کا فہم، علمی پس منظر اور سوچنے کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اختلاف رائے درحقیقت انسانی عقل کی نشانی ہے اور علم و تحقیق کے لیے یہ لازم ہے۔ اگر تمام علماء ہر مسئلے پر روبوٹ کی طرح ایک جیسا فیصلہ دیں تو یہ علم کی ترقی کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

 اسلام کے بنیادی عقائد، جیسے توحید، رسالت، آخرت، اور دیگر ایمانیات، میں تمام علماء متفق ہیں۔ ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ البتہ، ثانوی یا فروعی مسائل میں اختلاف ہوتا ہے، جو دین کی جڑ نہیں بلکہ شاخیں ہیں۔ ان مسائل میں مختلف رائے ہونا کوئی عجیب بات نہیں بلکہ علم و تحقیق کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر غزوہ احزاب کے بعد نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا: "تم میں سے کوئی عصر کی نماز بنی قریظہ پہنچے بغیر نہ پڑھے۔" کچھ صحابہ نے اس حکم کو ظاہر پر لیا اور راستے میں نماز قضا ہونے کے باوجود بنی قریظہ پہنچ کر ادا کی۔ دیگر صحابہ نے حکم کا مقصد جلدی پہنچنا سمجھا اور راستے میں نماز ادا کرلی۔ جب یہ معاملہ نبی کریم ﷺ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ نے دونوں فریقین کی رائے کی تائید کی۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دینی معاملات میں مختلف فہم کا وجود ممکن ہے اور یہ فہم امت کے لیے وسعت اور رحمت کا سبب بنتا ہے۔ 

اگر آپ اسلام کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بڑے ائمہ، جیسے امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اور امام مالک، نے ایک دوسرے سے بہت اختلاف کیا۔ لیکن یہ اختلاف علمی حدود میں تھا اور ان کا مقصد حق تک پہنچنا تھا۔ ان اختلافات نے اسلامی فقہ کو وسیع کیا اور امت کو مختلف آسانیاں فراہم کیں۔ اسی طرح ہم دوسرے شعبہ جات کا جائزہ لیں، جیسے طب یا سائنس، تو ہمیں وہاں بھی اختلافات نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک ڈاکٹر کی رائے دوسرے ڈاکٹر سے مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح، ارسطو، نیوٹن، اور آئن اسٹائن کے درمیان اختلافات نے سائنسی ترقی کو روکا نہیں بلکہ آگے بڑھایا۔ یہی اصول دینی معاملات میں بھی لاگو ہوتا ہے۔ 

اختلاف اپنی جگہ ایک نعمت ہے، لیکن اسے ذاتی حملوں یا نفرت تک لے جانا غلط ہے۔ علماء کرام کا اختلاف علمی ہونا چاہیے، نہ کہ جذباتی۔ ہمیں ان کے اختلاف کو احترام کی نظر سے دیکھنا چاہیے اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لہذا، اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھیں اور اسے علم کی ترقی کا ذریعہ سمجھیں۔ یاد رکھیں، جب مسلمان علمی اختلاف کے باوجود اتحاد میں تھے، تو وہ دنیا کی سپر پاور تھے۔ یہی علمی روایت آج بھی امت کو مضبوط اور مستحکم کرسکتی ہے۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383