حضور خطیب البراہین واقعات کی روشنی میں
مولانا محمد طاہرالقادری نظامی مصباحی :شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت غوثیہ نظامیہ حسنی بستی
ساتھ حاضری دیا کرتے تھے اور ہر سال آپ کی تقریر ہوا کرتی تھی مگر حضرت کبھی خانقاہ میں نہیں ٹھرے بلکہ حضرت مسجد کے ایک گوشے میں رک جاتے تھے اپنا وقت اوراد وظائف گزارتے جب تقریر کرنے کا وقت ہوتاتو تشریف لے جاتے سادات کرام بیٹھے رہتے آپ کےلیے کرسی لگائی جاتی آپ تقریر کرتے تقریر کے بعدہ باادب ایک کنارے بیٹھ جاتے تھوڑی دیر اسٹیج پر رہتے اس کے بعد سادات کرام سے اجازت لے کر حضرت پھر اسے مسجد میں چلے جاتے
حضور خطیب البراہین کی شان اشتغناء
*عصر حاضر کے خطیبوں کےلیے نمونہ عمل*
دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھا سنت کبیر نگر میں جب آپ کی سروس ختم ہوگئی اور آپ گورنمنٹ کے کاغذ میں ریٹائر ہوگیے تو ادارے کے ارباب حل وعقد سے حضور خطیب البراہین کی بارگاہ میں درخواست کی حضور آپ حسب سابق ادارے کی خدمت کرتے رہیں انشاءاللہ تعالیٰ انتظامیہ کمیٹی آپ کی خدمت کرتے رہے گی آپ نے ادارے کی خدمت کرنے کی درخواست تو
قبول کرلی اور 2008تک ادارے کی خدمت کرتے رہے مگر اہل کمیٹی سے کبھی ایک روپیے کامطالبہ نہ کیا انتظامیہ کمیٹی نے کچھ مشاہرہ طے کرکے دیناچاہامگر آپ نے صاف انکار کردیا اس طرح تقریبا دودوہائیوں تک آپ ادارے کی خدمت کرتے رہے اور فی سبیل اللہ درس بخاری دیتے رہے
لگژری گاڑی لینے سے انکار کردیا
2000عیسوی کے اس پاس کی بات ہے ایک سیٹھ صاحب ایک مرتبہ دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھاسنت کبیر نگر آپ کی خدمت میں میں پہونچے اور آپ سے عرض کرنے لگے حضور اب آپ کی عمر دوسری ہوگئی ہے ہر روز دور دراز کا پروگرام آپ کرتے ہیں لوگ طرح طرح کی گاڑی سے آپ کو لےکر جاتے ہیں آپ کو سفر میں بہت تکلیف ہوتی ہوگی حضور اگر آپ اجازت دیں تو ایک بات عرض کروں حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا کہیے سیٹھ صاحب اپنی نئی ٹاٹا سفاری گاڑی کی چابھی سامنے رکھتے ہوئے عرض کیا یہ میری نئی لگژری کار کی چابھی ہے اسے
قبول فرمائیں میری خواہش ہے کہ آج کے بعد آپ اسی گاڑی سے چلیں آپ کو سفر کرنے میں آسانی ہوگی
حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا حاجی صاحب آپ اپنی گاڑی اپنے پاس رکھیں فقیر کو اکثر مریدین ہی پروگرام میں بلاتے ہیں وہ جس طرح بھی لے جائیں گے فقیر تاحیات خدمت دین متین کرتا رہے گا ہمیں اس گاڑی کی ضرورت نہیں ہے یہ کہا اور چابھی واپس سیٹھ صاحب کے ہاتھ میں پکڑادیا
پروگرام میں کبھی نذرانے کاڈیمانڈ نہیں کیاجو ملا رکھ لیا
حضور خطیب البراہین جہاں ایک بہترین مدرس ومصنف تھے وہیں مقبول انام خطیب اور شیخ بھی تھے آپ کی تقریر قرآن سنت سے لبریز ہواکرتی تھی آپ اپنی ہر بات کے ثبوت میں پہلے قرآن پاک پھر حدیث پاک پھر اقوال صحابہ ائمہ وعلماء اور اخیر میں سیدی سرکاراعلی حضرت کے اشعار پیش کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں آپ اکثر خطاب فرمانے کےلیے جایا کرتے تھے
استاذ العلماء حضرت قاری ظہور احمد صاحب قبلہ سابق
استاذ دارالعلوم اہل سنت تنویر الاسلام امرڈوبھاسنت کبیر آپ کے بہت قریبی رہے ایک زمانےمیں حضور خطیب البراہین علیہ الرحمہ کے ساتھ پروگرام میں بھی جایا کرتے تھے حضرت سے آپ کی بے تکلفی تھی آپ نے حضرت سے بہت فیض حاصل کیا
ایک مرتبہ حضرت کہیں پروگرام سے آۓہوۓتھے حضرت قاری ظہور صاحب حضرت کے پاس پہونچے اور عرض کیا حضور چاۓ پلائیں اتفاق سے ادارے کے دو استاذ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے حضرت مسکراتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالے اورکچھ رقم نکالے اور قاری صاحب سے فرمایا لیجیے قاری صاحب چاۓ منگالیجئے حضرت قاری صاحب نے عرض کیا حضور ہم لوگ آج کے نذرانے سے چاۓ پینا چاہتے ہیں حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے بیگ میں لفافہ ہے نکال لیجئے قاری صاحب نے لفافہ نکالا حضرت نے کہا اسے کھو لیے حضرت قاری صاحب نے اس لفافے کو کھولا اسلفافے میں صرف ایک ہی روپیہ تھاقاری صاحب نے عرض کیا حضور اس میں تو ایک ہی روپیہ ہے حضرت نے فرمایا چاۓ کتنے کی ملتے ہے قاری صاحب نے عرض کیا حضور 25پیسے میں حضرت نے فرمایا قاری صاحب آپ تین لوگ ہیں تین چاۓ منگالیں اللہ کا شکر ہے پھر بھی ہمارے لیے 25پیسے بچ چائیں گے
از قلم
مولانا محمد طاہرالقادری نظامی مصباحی
شیخ الحدیث دارالعلوم اہل سنت غوثیہ نظامیہ حسنی