Oct 23, 2025 04:47 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ

بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ

16 Oct 2025
1 min read

بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ

از قلم: محمد ظفر احمد علیمی

پہلی جنگ عظیم جو 28 جولائی 1914 سے  شروع ہوکر 11 نومبر 1918 تک ختم ہوئی، اس جنگ میں دو بڑے گروہ ایک دوسرے کے مقابل میں تھے ایک گروہ میں فرانس، برطانیہ، روس، اٹلی، امریکہ، جاپان، سربیا، بیلجیم، کینیڈا، آسٹریلیا، اور انڈیا (برطانوی سلطنت کے تحت) یہ ممالک شامل تھے اس گروہ کو Allied Powers کہا جاتا ہے اور دوسرے گروہ میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری، عثمانی سلطنت، بلغاریہ یہ طاقتیں موجود تھیں اس صف کو Central Powers کا نام دیا گیا. 

اگرچہ یہ جنگ ان دونوں گروہوں کے درمیان ہی ہوئی تھی مگر اس کے اثرات پوری دُنیا میں ظاہر ہوئے۔ 

اس جنگ عظیم کے بعد 10 جولائی 1920 میں League of nations کے نام کے ایک بین الاقوامی تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنا اور دو ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو ثالثی کے طور پر صلح و آشتی سے ختم  کرانا تھا لیکن یہ چند سالوں میں ہی ناکامی کے ساتھ دم توڑ کر اپنے اختتام پر پہنچی۔ 

اسی تنظیم کے متعلق شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا: 

من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند

بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

یعنی: میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنا لی ہے۔ 

پھر 1 ستمبر 1939 میں دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا اور 2 ستمبر 1945 کو اختتام۔ اس جنگ ایک طرف Allied powers تھیں جس میں برطانیہ، امریکہ، سوویت یونین، فرانس، چین، کنیڈا، آسٹریلیا، نیوز لینڈ، بھارت(برطانوی سلطنت کے تحت) شامل تھے۔ 

اور اس ان طاقتوں کی حریف جماعت Axis Powers  ان ممالک پر مشتمل تھیں: جرمنی،اٹلی، جاپان، رومانیہ، بلغاریہ، تھائی لینڈ، 

یہ جنگ عظیم تقریباً سات کروڑ انسانوں کی موت کا سبب بنی۔جن لوگوں کی وجہ سے دنیا نے دو عظیم جنگوں کی تباہی کو

برداشت کیا تھا اب وہی لوگ سفید پوش زیب تن کرکے عالم انسانیت کے سامنے امن و سلامتی کا منشور لیکر کھڑے ہوئے کیونکہ جانی مالی نقصانات نے ان لوگوں کو ایک ایسے منصوبے کے انتخاب پر مجبور کر دیا تھا جس کے ذریعے آئندہ اقوامِ عالم کو آپس میں جنگی تصادم سے روکا جائے تاکہ پھر جانی و مالی نقصان نہ ہوں اسی لئے ان لوگوں نے 24 اکتوبر 1945 کو United Nations اقوام متحدہ کے نام سے ایک ایسا ادارہ قائم کیا جو  آئندہ نسلِ انسانی کو ایسی ہولناک جانی و مالی تباہ کاریوں سے بچانے، پوری دنیا میں امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے، ملکوں کے درمیان رشتوں کو فروغ دینے، اور بین الاقوامی اقتصادی، سماجی اور ثقافتی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ 

اقوام متحدہ کے بنیادی اور اہم مقاصد یہ ہیں: 

(1) نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا۔

(2) بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام اور فروغ کے لیے اجتماعی تدابیر اختیار کرنا۔

(3) بنی نوع انسان کے حقوق اور خودمختاری کے اصولوں کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے مابین دوستانہ تعلقات استوار کرنا۔

(4) بین الاقوامی اشتراکِ عمل کی بدولت دنیا سے جہالت، غربت اور بیماری کو دور کرنا۔

(5) نسل، رنگ اور مذہب کی بنا پر تفریق کو ختم کر کے انسانیت کی بنا پر اجتماعیت پیدا کرنا۔

(6) اقوامِ متحدہ کو ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں مداخلت سے روکنا۔

(7) بین الاقوامی قوانین مرتب کر کے قوموں کے باہمی تنازعات کو انہیں قوانین کے ذریعے ختم کرنا۔

اس بین الاقوامی تنظیم کی اولا دو شاخ رکھی گئی ہیں ایک جنرل اسمبلی اور ایک سلامتی کونسل۔ 

جنرل اسمبلی کا ہیڈکوارٹر امریکہ کے شہر نیویارک میں ہے 

ستمبر میں جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا آغاز ہوتا ہے جو تین مہینے تک چلتا ہے جس میں اقوام متحدہ کا ہر ممبر شریک

ہوتا ہے اس اجلاس کی خصوصیات میں سے ہے کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں ہر ملک کے نمائندے کو خواہ وہ وزیر اعظم ہو یا سرکاری ملازم اپنی تقریر میں دنیا کے تمام ممالک میں سے کسی  بھی ملک کے متعلق آزادئ اظہارِ خیالات و جذبات کا اختیار ہوتا ہے وہ جس طرح کے بھی طرز کلام کو اپنائے وہاں موجود ہر ملک کے نمائندے کو اس کے طنز و طعنے اور خیالی افسانوں کو برداشت کرنا ہی پڑے گا کسی کی پسند اور ناپسند میں جنرل اسمبلی کا اجلاس کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔

اور جنرل اسمبلی میں دنیا کے مسائل پر اپنی قرار دادیں پیش کرتی ہے مگر اسمبلی کی قرارداد ایک سفارش سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ جنرل اسمبلی کا بنیادی مقصد فقط اتنا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کرے جس پر وہ اپنے دل کا غبار بلا تکلف نکال سکیں اور کسی مسئلے پر سفارش پیش کر سکیں۔ 

اقوام متحدہ کی دوسری شاخ سلامتی کونسل ہے اس کا نظامِ دفتری اس طرح ہے کہ یہ ایک گیارہ ممبران  کی جماعت ہے جس میں پانچ مستقل ممبر ہیں اور چھ غیر مستقل ممبران ہوتے ہیں۔ اور ان پانچ مستقل ممبران میں شامل ہے امریکہ، روس ، چین ، فرانس ، برطانیہ۔  اصل میں یہی پانچوں ممبران ہی اقوام متحدہ کے ستون فقار کی حیثیت رکھتے ہیں ان ممبران کی رکنیت کبھی معطل نہیں ہو سکتی اور ان کو اپنی رکنیت کے لئے  دوسرے ممالک کی حمایت کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں کسی بھی فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے ان پانچ ممبران کا اتفاق ضروری ہے کیونکہ اصل طاقت انہیں کے پاس ہے اگر کسی فیصلے کو نافذ کرنے کے لئے سلامتی کونسل کے دس ممبران راضی ہوں اور ان پانچ ممبران میں کوئی ایک اس فیصلے سے اتفاق نہ رکھتا ہو تو وہ ممبر اپنا حق استرداد (Veto power)استعمال کرکے قرارداد کو نافذ العملی سے روک سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ  فیصلہ ہرگز نافذ نہیں ہوگا اگرچہ پوری جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے تمام ممبران ایک طرف ہوجائیں۔ اور غیر مستقل ممبران کا ہر دو سال بعد انتخاب ہوتا ہے جس میں دنیا کے ممالک حق رائے دہی کے ذریعے اپنے نمائندے کو ممبر بناتے ہیں۔ 

فی الوقت اقوام متحدہ دنیا کے تمام شعبوں پر قابض ہے معاشیات، ہیومن رائٹس، صحت، تعلیم، یہ اقوام متحدہ کے 

نمایاں شعبے ہیں۔ اقوام متحدہ کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے اوپر اقتصادی ناکہ بندی کردی جاتی ہے اور بعض ممالک کے اوپر تو فوج کشی بھی کردی گئی جس کے نتیجے میں وہ ملک مالی بہران کے شکار ہوگئے اور ان کی حکومتیں جڑ سے ختم ہوگئیں۔ اقوام متحدہ اگرچہ تحریرا و اعلانیہ طور نہ سہی مگر عملاً ایک ظالم و جابر حکومت ہے جو ہر ملک کو اپنے تحت رکھ کر پوری دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے اور اس منصوبے میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ لیکن حالات اس پر گواہ ہیں کہ اقوام متحدہ اپنے مقاصدِ قیام میں ناکام ہے، کہنے کو تو وہ انسانی حقوق کا پاسدار ہے مگر یہ بات صرف کاغذ تک ہی محدود ہے کیونکہ اس کی فہرست میں مسلمان حقوق انسانی کے حقدار نہیں ہیں اسی وجہ سے اس تنظیم نے  مسلمانوں کے حقوق کی آواز اٹھانے سے دستبرداری کی بلکہ اس کے ہاتھ بھی خون مسلم سے آلود ہیں۔ فلسطین کی زمین پر اقوام متحدہ نے ہی اسرائیل کو یہ کہہ کر بسایا کہ یہ سکونت محض عارضی ہے کچھ وقت کے بعد یہود کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے گا لیکن بعد میں یہ اقوام متحدہ کا عربوں کے ساتھ ایک دھوکہ ثابت ہوا اور پھر اسی اسرائیل نے اقوام متحدہ کی پشت پناہی میں غزہ پٹی پر قبضہ کرلیا اور اہل غزہ پر صیہونی فوجیوں نے ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے اور اقوام متحدہ اس وقت بھی گونگوں کی طرح تماشائی بنی رہی اور آج بھی اہل غزہ پر ہونے والے ظلم کے خلاف زبانی خرچے سے  زیادہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ آج تک اقوام متحدہ فلسطین کو ریاست کی حیثیت دینے سے قاصر ہے جبکہ یہی بین الاقوامی تنظیم اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کے تحفظ کے نام پر 1990 میں عراق پر تمام درآمد و برآمد پر پابندی لگائی، خاص طور پر تیل کی برآمد پر تاکہ اس کی معشیت متاثر ہو۔ اور عراقی رقم سرمایہ جو غیر ملکی بنکوں میں موجود تھا اس کو نکالنے اور منتقل کرنے پر روک لگادی۔ اور فوجی و عسکری قوت کو کمزور کرنے کے لئے ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کی ۔  عراقی حکومتی اہلکاروں پر سفری پابندیاں لگائیں۔ یہاں تک کہ  دوائیاں اور کھانے پینے کی چیزوں کے لئے بھی محدود درآمد کی اجازت دی گئی۔ ان انتہائی سخت پابندیوں کے باعث اہل عراق نے بھوک و افلاس اور صحت کے مسائل کے ساتھ کافی جانی نقصان کا بھی بوجھ اٹھایا ایک اندازے کے مطابق  کے مطابق موت کی آغوش میں جانے والے صرف بچوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔ اسی طرح لیبیا، ایران، افغانستان، اور متعدد اسلامی ممالک پر اقوام متحدہ نے حقوق انسانی کی پاسبانی کا ثبوت دینے کے لئے مخلتف طریقے سے پابندیاں لگائیں مگر یہ پابندیاں تحفظ کے پردے میں ظلم و استبداد، تباہی و بربادی سے کم نہ تھیں۔ جب اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد بین الاقوامی تنازعات کو افہام وتفہیم سے حل کرکے ایک دوسرے کے درمیان قربت کو فروغ دینا تھا تاکہ نسل انسان جنگی نتائج میں پیش آنے والے جانی مالی نقصانات سے محفوظ رہے تو اقوام متحدہ نے اس وقت کوئی مؤثر کوشش کیوں نہیں کی جب عراق، شام، الجزائر، فلسطین، برما میں مسلمانوں کا خون بہایا جارہا تھا اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر و قانون سازی میں حقوق انسانی کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا۔ 

🖋محمد ظفر احمد علیمی

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383