Oct 23, 2025 02:04 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
گلوبل صمود فلوٹیلا ،غزہ کے محاصرہ کو توڑنے کے لئے آخری انسانی کوشش

گلوبل صمود فلوٹیلا ،غزہ کے محاصرہ کو توڑنے کے لئے آخری انسانی کوشش

02 Oct 2025
1 min read

اداریہ

گلوبل صمود فلوٹیلا ،غزہ کے محاصرہ کو توڑنے کے لئے آخری انسانی کوشش

ایڈیٹر کے قلم سے ( عبدالجبار علیمی-نیپالی) ۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کی تاریخ میں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں بہادری اور انسانیت پسندی نے ظلم و ستم کے پہاڑ ہلا دیے۔ جب طاقت ور طبقے نے مظلوموں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی، تب کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں ایسے افراد یا قافلے سامنے آئے جنہوں نے انصاف و ہمدردی کے لیے اپنی جانیں جوکھم میں ڈال دیں۔ یہ وہی روح ہے جو صدیوں سے انسانیت کی بقا اور عزت کا ضامن رہی ہے  اور یہی جذبہ آج بھی دنیا بھر کے دلوں کو جگاتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے انسانیت کے اصولوں کو عالمگیر طور پر پہنچانے کا پہلا اور روشن پیغام دیا۔ جب مکہ کی سرزمین پر ظلم و جبر کی فضا طاری تھی، بے سہاروں، بیواؤں اور یتیموں کی فریاد سننے والا اور ان کے حقوق کا محافظ دینِ اسلام ہی بنا۔ اسی جذبۂ انصاف کی روشنی نے مظلوموں کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو قوت بخشی اور تاریخ نے انہیں فراموش نہ کیا۔

ہمارے ماضی کے بہادروں میں محمد بن قاسم کا نام انتہائی شان وشوکت سے لیا جاتا ہے ۔۔۔ وہ کسی تخت و تاج کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کے دفاع کے لیے لڑا۔ ایسے عظیم کردار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ جب حق اور انسانیت کی بات ہو تو حدودِ ملک و ملت پیچھے رہ جاتی ہیں اور انسانیت کا تقاضا سب سے بالا تر ہو جاتا ہے۔

 دور حاضر میں اسی جذبے کا عکاس ایک عالمی قافلہ بھی سامنے آیا۔۔۔ عالمی صمود قافلہ (Global Sumud Flotilla) — جس کا مقصد غزہ پٹی پر اس طویل اور کٹھور محاصرے کو توڑ کر وہاں پھنسے ہوئے انسانوں تک امداد پہنچانا اور بین الاقوامی توجہ مبذول کروانا تھا۔ یہ قافلہ تقریباً چالیس ممالک کے شہریوں پر مشتمل تھا اور اس نے دنیا کو مظلوم غزہ کے لیے یکجا ہونے کی دعوت دی۔ تاہم اس کوشش کو اسرائیلی بحریہ نے روکا اور اس کی کشتیاں بین الاقوامی پانیوں میں پابندیوں کے ساتھ روکی گئیں، متعدد رضاکاروں اور نمائندوں کو حراست میں لیا گیا ۔۔۔۔یہ واقعہ عالمی سطح پر شدید ردعمل اور احتجاج کا باعث بنا۔ 

یہاں سوال یہ ہے کہ جب انسانیت کی خاطر یہ پرامن اور علامتی کوششیں کی گئی تھیں تو انہیں روکنا کیا واقعی انسانی حق و ضمیر کے مطابق ہے؟ متعدد بین الاقوامی ادارے اور حقوقِ انسانی کے نگراں ادارے اس مداخلت کو غیرقانونی قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب جو اخلاقی اور انسانی نقطۂ نظر سے سوالات اٹھتے ہیں وہ عالمی ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہیں۔ بعض حکومتوں اور عوامی حلقوں نے قافلے کے اقدام کو تاریخی ہمت اور انسانیت پسندی کی جیت قرار دیا، تو بعض نے اسے سیاسی تحریک بھی کہا۔۔۔ مگر بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہاں لاکھوں عام انسان بھوک، بیماری اور تباہی کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں، اور ان کی مشکلات پر آنکھیں بند رکھنا آسان نہیں۔ 

اِس اداریے کا مؤقف یہ ہے کہ ظلم و جبر کے خلاف اٹھنے والی ہر انسانی آواز کو عزت دی جانی چاہیے۔۔۔ چاہے وہ علامتی ہو یا عملی، مگر پرامن اور انسانی مقاصد کے تحت۔ تاریخ گواہ ہے کہ سچائی اور ہمدردی کی آوازیں وقت کے ساتھ نہ صرف سنی جاتی رہی ہیں بلکہ وہی آوازیں بدلتی دنیا میں ضابطے اور انصاف کے نئے دروازے کھولتی آئیں۔ آج بھی جب غزہ کے مستقل شہری بنیادی انسانی حقوق سے محروم دکھائی دیتے ہیں، تو بین الاقوامی سماج کو چاہیے کہ وہ انسانی بنیادوں پر معاملہ اٹھائے، سفارتی راستے کھولے، انسانی امداد کے محفوظ اور مؤثر راستے باقاعدہ بنائے اور طویل مدتی حل کی طرف اپنا کردار سنجیدگی سے نبھائے۔ 

ہم اپنے قارئین سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ انسانیت کے تقاضوں کو فراموش نہ کریں؛ تاریخ ان کو یاد رکھتی ہے جو ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے، اور وہی آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنتے ہیں۔ انصاف، ہمدردی اور ایسا روّیہ جو انسانی جانوں کی حرمت کو مقدم جانے۔۔۔ یہی اصل تقاضا ہے۔ آخر میں صرف اِتنی بات کہ ظلم کے خلاف صدا بلند کرنا شرمندگی کا باعث نہیں، بلکہ انسانی وقار کا تقاضا ہے- اور جب دنیا کے بہادر انسان، بحری قافلوں کی شکل میں یا کسی اور انداز میں، اسی تقاضے کی خاطر سامنے آتے ہیں تو انہیں عزت دی جانی چاہیے، نہ کہ روکنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچائی اور انسانیت کے راستے پر ثابت قدم رکھے، آمین۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383