امام احمد رضا عظیم ریاضی داں
از قلم :محمد فیض شیخ
شمش العلما عربی کالج تو منگلور کر ناٹکہ
سیدنا اعلی حضرت امام احمد رضا نے علم ریاضی میں اپ نے بہت سی کتابیں لکھیں اور بعض کتابوں پر حواشی بھی تحریر فرمائی علم ریاضی چار شعبوں میں منقسم ہے
نمبر ایک ہیت یعنیphase
نمبر دو ہندسہ یعنی sdigith
نمبر تین حساب یعنیmathamatic
نمبر چار موسیقی یعنیprogssion
ہیئت میں: زیجات ، تقویم ، توقیت، جغرافیہ، فلکیات و نجوم سب کچھ شامل ہیں ، آپ نے ان تمام علوم پر جو کتا ہیں تصنیف فرمائیں ان میں سے بعض یہ ہیں: (1) فوز مبین در رد حرکت زمین (۲) معین مبین (۳) نزول آیت فرقان (۴) حاشیه تصریح (۵) ماشیہ شرح چغمینی (۶) شرح باکوره (۷) کسور اعشاریہ (۸) جدول الرياضي (۹) مسئوليات السهام (۱۰) حاشیه خزانته العلم
علم زیجات میں
(۱) حاشیه زلالات بر جندی (۲) حاشیه بر جندی (۳) حاشیه زیج ایل خانی (۴) حاشیه زیج بہادر خانی (۵) حاشیه زیج سلطانی (۲) حاشیہ فوائد بہادر خانی (۷) حاشیہ جامع بہادر خانی آپ کی اس فن میں مہارت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر ضیاء الدین نے ریاضی کی تعلیم جرمنی میں حاصل کی اور وہاں سے امتیازی پوزیشن میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ہندوستان آئے تو یہاں اپنے فن میں یگانہ روز گار کہلاتے تھے ، ایک مرتبہ ان کو ریاضی کے کسی مسئلہ میں الجھن ہوئی تو انہیں اس کو حل کرنے کے لیے جرمن جانا تھا مگر احباب کے اصرار اور مشورہ سے اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور فن ریاضی کے تعلق سے اپنے شکوک و شبہات پیش کیے ، آپ نے بلا تامل ان کو حل فرمادیا، یہ دیکھ کر ڈاکٹر صاحب ہکا بکا رہ گئے اور بر ملا اعتراف کیا کہ جب ہندوستان میں علم ریاضی کا ایسا یکتائے روزگار موجود ہے تو پھر یورپ جاکر ہم نے اپنا وقت ضائع کیا۔ اس وقت تک اعلیٰ حضرت ریاضی میں چار کتابیں فارسی و عربی زبان میں لکھ چکے تھے ، ڈاکٹر صاحب نے ان چاروں کتابوں کا اپنے لیے اردو زبان میں ترجمہ کرایا۔ آپ نے آئزک نیوٹن ، آئن اسٹائن جیسے سائنس دانوں کا بھر پور تعاقب کیا اور خاص کر زمین کی حرکت کے رد میں آپ نے مشہور زمانہ کتاب "فوز مبین در رد حرکت زمین لکھ کر تہلکہ مچا دیا ہے ۔ نظریہ حرکت زمین کے رد میں آپ نے مزید دو کتابیں اور لکھیں جن کا نام نزول آیات فرقان “ اور ”معین مبین “ ہے۔نزول آیات فرقان لکھنے کا سبب لاہور کالج کے پروفیسر حاکم علی ہیں جو سائنس کے بعض مسائل میں الجھے ہوئے تھے ، پروفیسر صاحب لاہور سے بریلی آئے اور ایک ماہ تک آپ سے سائنسی مسائل میں مذاکرہ کرتے رہے اور واپسی میں نہایت خوش تھے ، لاہور جاکر آپ نے ایک سوال بھیجا جس کے جواب میں آپ نے یہ کتاب لکھی۔
علم ہندسہ : اس میں مثاث مسطح ، مثلث کردی ۔ مربع سطح، مربع کروی مخمس
، مساحت ، مناظر و مرایا شامل ہیں۔
Spherical Trignometry علم مثلث کروی میں
(۱) رساله در علم مثلث کروی (۲) المعنى المجلی (۳) مسئوليات السهام ان کے علاوہ طبعیات سے متعلق در جنوں کتا ہیں لکھیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:
(1) الكلمة الملهمه (۲) حاشيه اصول طبعی (۳) الصراح الموجز (۴) حاشیہ شرح تذکره (۵) حاشیه کتاب الصور (1) النور والنورق (2) الدقة -والتبيان
سائنس کے شعبہ جات میں سے ہر شعبہ پر آپ کی تصانیف موجود ہیں ، البتہ ان میں سے اکثر اب تک چھپ نہیں سکیں ، اس کی خاص وجہ یہ رہی کہ ان کتابوں کو اس فن کے ماہرین ایڈٹ ہی نہیں کر سکے ، لہذا معدود دے چند کے سوا تمام کتابیں غیر مطبوعہ ہیں ۔
سائنس کے شعبوں میں جبر و مقابلہ ، ارثما طیقی، فلکیات و معدنیات اور ارضیات وغیرہ بھی اہم شعبے ہیں ، اعلیٰ حضرت نے جبر و مقابلہ پر Algebra
(۱) جل المعادلات (۲) حاشیه قواعد جلیلہ (۳) رسالہ جبر و مقابلہ ۔
ار شما طیقی پر
(1) البدور في اوج المجذور (۲) الموهبات في المربعات (۳) کتاب الار ثما طبقی ۔
توقیت و نجوم پر Stronomy
(1) میل الكواكب (۲) زیج الاوقات (۳) طلوع و غروب نیرین (۴) الانجت الانبق (۵) البرهان القويم (۶) تسهيل التعديل،
فلکیات، ارضیات Geodesy اور معدنیات پر
(1) استخراج تقویمات کواکب (۲) استخراج وصول قمر (۳) حاشیه حدائق النجوم
(۴) مطر السعید (۵) حسن التعلم ، اور ان کے علاوہ بہت سی کتابیں ایک امریکی ہیئت داں پروفیسر البرٹ ایف پور ٹا نے اپنی ایک پیش گوئی میں کہا تھا که ۷ ار دسمبر ۱۹۱۹ء کو سورج میں ایک ایسا بڑا داغ دیکھا جائے گا جو اس سے پہلے کبھی رونما نہ ہوا
ہو گا ،، اس کی وجہ سے طوفان، بجلیاں اور زلزلے رونما ہوں گے ۔ ۱۸ اکتبور ۱۹۱۹ء کو یہ خبر شائع ہوئی تو اعلیٰ حضرت سے سوال ہوا، آپ نے بروقت اس پر تنقید فرمائی اور تحریر فرمایا کہ یہ سب اوہام باطلہ ہیں، علم ہیئت کی رو سے یہ سب غلط ہے اور پھر ایک کتاب آپ نے تحریر فرمائی جس کا نام ہے ”معین مبین بہر دور شمس و
سکون زمین“ ہے۔ اور آخر کار ایسا ہی ہوا جیسا آپ نے فرمایا تھا کہ پورٹ کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی۔ تحریر فرمائیں۔اسی طرح آپ نے سائنس داں آئزک نیوٹن پر بھی تنقید کی جس نے نظر یہ حرکت زمین پیش کیا تھا جس پر آج تک سائنس داں قائم ہیں مگر اعلیٰ حضرت نے ۱۰۵ دلائل سے اس نظریہ کو باطل قرار دیا ہے اور معرکۃ الآراء کتاب "فوز مبین در رد حرکت زمین " تصفیف فرما کر واضح کر دیا ہے کہ یورپ و امریکہ والوں کو طریقہ استدلال ہی نہیں آتا ، یہ کتاب اپنے موضوع پر بے مثال کتاب ہے ، اور پوری سائنسی دنیا کو چیلنچ ہے جس کا آج تک کوئی جواب نہیں،
اسی طرح معاشیات میں "انصح الحکومت اقتصادیات میں ” کفل الفقيه الفاهم فى احكام قرطاس الدراهم تدبير فلاح و نجات " زراعت میں ” افصح البیان “ سیاسیات میں دوام العيش " " اعلام الاعلام “ اور ” حاشیہ مقدمہ ابن خلدوں “ تجارت و بینکاری میں ” المنى والدرر“ آپکی مشہور اور متداول کتابیں ہیں۔
. علم صوتیات ( Sound ) میں آپ نے ایک معرکۃ الآراء کتاب " الكشف شافيا تحریر فرمائی جس میں آواز کی حقیقت اور کیفیت پر بھر پور روشنی ڈالی ، قریب کی آواز زیادہ اور دور کی آواز کم کیوں سنائی دیتی ہے ، انسان کے مرنے کے بعد اس کی آواز باقی رہتی ہے یا نہیں ، اس طرح کے پچاسوں سوالات کے جوابات آپ نے نہایت وضاحت سے دیے ہیں۔
اسی طرح علم توقیت اور علم جفر میں بھی آپ کی تصانیف یادگار ہیں ۔ جیسے الجفر الجامع ، مجتلى العروس ، الجداول الرضويه للمسائل الجفريه -
غرض کہ وہ تمام علوم جو آج رائج ہیں یا وہ جو بھی تھے اور اب ناپید ہیں آپ کو ان سب پر عبور حاصل تھا، آپ کی تحریریں اس پر شاہد عدل ہیں، البتہ سائنسی علوم کے تعلق سے آپ کی اکثر کتا ہیں اب تک چھپ نہیں سکیں ، ان میں کچھ کتابوں کے عکوس ملتے ہیں اور اکثر نایاب ہیں۔
اعلیٰ حضرت کی ذات میں علوم وفنون کی جامعیت اور آپ کے عشق و عرفان کا یہ کمال ہی ہے کہ آپ کی شخصیت پر اب تک پانچ سو سے زیادہ کتا بیں اور ڈیڑھ ہزار سے زیادہ مقالات و مضامین لکھے جاچکے ہیں۔
ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی بہت سی یونیورسٹیوں میں آپ کے کارناموں پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے گئے اور ڈگریاں ایوارڈ ہوئیں ۔ ان کے علاوہ یورپ، امریکہ ، افریقہ اور عرب ممالک میں بھی اعلیٰ حضرت پر پی ایچ ڈی ، مقالات معرض تحریر میں آئے ، ان سب کی تفصیل امام احمد رضا اور عالمی جامعات " نامی کتاب میں ملاحظہ کریں جو ڈاکٹر پروفیسر مسعود احمد مجددی کی تالیف ہے۔
۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک آپ پر پچاس ( پی۔ ایچ۔ ڈی ) مقالات لکھے جاچکے ہیں اور درجنوں (ایم ، فل) کے مقالات بھی تحریر ہوئے ہیں ، ان میں بعض مطبوعہ اور اکثر غیر مطبوعہ ہیں۔