امام احمد رضا: عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا مینارِ نور اور تجدیدِ دین کا علمبردار
✍ قاری رئیس احمد خان
استاذ: دارالعلوم نورالحق،
چرہ محمد پور، فیض آباد، ایودھیا
(یو۔پی۔)
ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کے حقیقی وارثین و جانشین پیدا فرمائے، جو بندگانِ خدا کی رہنمائی، اصلاح و تربیت، اور دینِ مصطفوی ﷺ کے فروغ کے لیے سراپا رحمت و خیر بن کر جلوہ گر ہوئے۔ یہ وہی علمائے حق اور اولیائے کرام ہیں جن کے قلوب عشقِ مصطفی ﷺ کے نور سے معمور اور اعمال و افکار سنتِ نبوی ﷺ کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
جب یہ سلسلہ عشق و محبت کی سرزمین بریلی شریف پہنچا تو یہاں کی خاک سے ایک ایسا خورشیدِ علم و فضل طلوع ہوا جس نے ملتِ اسلامیہ کے دینی و فکری آسمان کو روشن کر دیا۔ یہ شخصیت تھی امام عشق و محبت، مجددِ دین و ملت، محققِ بے مثال، اور سنتِ نبوی ﷺ کے سچے پیکر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی-
محبوبِ خدا کا عاشق، بندگانِ خدا کا محبوب:
اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو اس کے محبوب ﷺ سے سچا عشق کرتا ہے، اللہ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے، اور پھر اس کی محبت بندوں کے دلوں میں ودیعت کر دیتا ہے۔ یہی راز تھا کہ اعلیٰ حضرت جہاں بھی گئے، محبت و عقیدت کے پھول بکھرتے گئے۔ مدارس ہوں یا خانقاہیں، مشرق ہو یا مغرب...ہر سمت ان کا چرچا اور ہر دل میں ان کی الفت کا چراغ روشن ملتا ہے۔
جیسا کہ کہا گیا:
ہم ہوئے کہ تم ہوئے، سب اسی زلف کے اسیر ہوئے-
تجدیدِ دین کا مینار:
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو عرب و عجم کے جلیل القدر علما اور فقہا نے بلا جھجک چودھویں صدی کا مجددِ اعظم تسلیم کیا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ نے نہ صرف سینکڑوں علوم و فنون میں عبقری تحقیقات پیش کیں بلکہ اپنی عملیزندگی میں شریعت کی کامل پاسداری اور سنت کی بے مثال پیروی کا نمونہ چھوڑا۔ آپ کی تصانیف میں علومِ نادرہ سے لے کر فقہ، کلام، تفسیر، حدیث، فتاویٰ نویسی، تصوف، منطق، ریاضی، فلکیات حتیٰ کہ معاشرتی مسائل تک ہر شعبہ شامل ہے۔
جیسا کہ کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا:
اگلوں نے بھی لکھا ہے بہت دین پر مگر
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے
خوشہ چینی کا فیضان:
اعلیٰ حضرت کے علمی و روحانی فیضان سے براہِ راست مستفید ہونے والوں کی فہرست طویل ہے، مگر ان میں دو عظیم المرتبت ہستیاں نمایاں ہیں:
1. حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ:جو اپنے وقت کے مرجعِ فتاوی اور ملت کے روحانی و علمی پیشوا تھے۔
2. ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ: جو تحقیق و تصنیف اور فقہی خدمات میں بے مثال تھے۔
یہ دونوں بزرگ نہ صرف مدارس و خانقاہوں کو فیضیاب کرتے رہے بلکہ لاکھوں کے قلوب و اذہان کو ایمان و معرفت کی روشنی عطا کرتے رہے۔
فیضانِ رضا کا تسلسل:
مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ سے فیض پانے والوں میں مفتیٔ زمن حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ ایک درخشندہ ستارہ تھے، جن کے تلامذہ و خلفا نے فکرِ رضا کو پوری دنیا میں عام کیا۔
اسی طرح ملک العلماء حضرت علامہ ظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ کے شاگردِ رشید، امامِ علم و فن حضرت علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی علیہ الرحمہ، سابق شیخ الحدیث دارالعلوم نورالحق چرہ محمد پور، نے اپنے تلامذہ کے ذریعے اس روشنی کو ملک کے گوشے گوشے میں پہنچایا۔
عرسِ اعلیٰ حضرت کا روح پرور منظر:
سال بھر محبانِ رضا میں عقیدت و محبت کا چرچا رہتا ہے، مگر ماہِ صفر کی 25 تاریخ کو بریلی شریف کا منظر کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ مرکزِ اہلِ سنت کی فضا میں عشق و محبت کے نغمے گونجتے ہیں، زائرین کا ہجوم، محفلِ نعت کی بہاریں، اور ذکرِ مصطفی ﷺ کی خوشبو ہر سو پھیلی ہوتی ہے۔
حدائقِ بخشش،عشق کا گلشن:
اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش عشقِ رسول ﷺ سے لبریز ایک ادبی و روحانی خزانہ ہے۔ اس کا مطالعہ قاری کو نہ صرف عشقِ مصطفی ﷺ کا سلیقہ سکھاتا ہے بلکہ محبتِ رضا کی خوشبو سے بھی معطر کر دیتا ہے۔ آپ کے کلام میں حمد میں بھی نعت کا رنگ جھلکتا ہے، جیساکہ آپ کا مشہور شعر:
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بنایا
تجھے حمد ہے خدایا تجھے حمد ہے خدایا
یہی وجہ ہے کہ حضرت داغ دہلوی جیسے بڑے شاعر نے آپ کی عظمت کو یوں سلام کیا:
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آ گئے ہو، سکے بٹھا دیے ہیں
ادبا و شعراء کے لیے پیغام:
اہلِ ادب و شعراء کرام کو چاہیے کہ بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں ادب و نیاز کے ساتھ حاضر ہوں، حدائقِ بخشش سے عشقِ رسول ﷺ کی خوشبو کشید کریں، اور اپنی تحریروں و شاعری کے ذریعے اس فیضان کو عام کریں۔ یہی ان کے لیے دنیا و آخرت کا سرمایہ اور بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں بہترین خراجِ عقیدت ہوگا۔
اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ﷺ کے صدقے اہلِ سنت کے علما و مشائخ خصوصاً فکرِ رضا کے امین و وارثین کی حفاظت فرمائے، اور ہمیں اس نورانی فیضان کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ