امام احمد رضا خان بریلوی معاشی فکر کے عظیم مجدد
غلام مصطفیٰ مرکزی گلاب پوری
امام احمد رضا خان بریلوی (1856-1921ء) کی علمی عظمت صرف فقہ و حدیث، تفسیر و کلام یا تصوف تک محدود نہ تھی، بلکہ آپ کی گہری بصیرت معیشت و معاشرت کے اسلامی اصولوں کی تشکیل و تشریح میں بھی نمایاں ہے۔ اگرچہ آپ کو روایتی معنوں میں "ماہر معاشیات" (Economist) کا خطاب نہ دیا جائے، مگر آپ کی فقہی استنباط، معاشرتی تجزیے اور اقتصادی ہدایات پر مبنی کام اسلامی معاشیات کے بنیادی ستونوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ کی معاشی فکر کا محور اللہ کی حاکمیت اعلیٰ، عدل اجتماعی، اور انسانی فلاح تھا۔ آپ نے معیشت کو ایک الگ تھلگ نظام نہیں، بلکہ شریعت کے جامع نظامِ حیات کا لازمی حصہ قرار دیا، جہاں ہر معاشی سرگرمی کا مقصد آخرت میں نجات کے ساتھ ساتھ دنیا میں انصاف، امن اور معاشی استحکام قائم کرنا ہے۔ آپ کے فتاویٰ رضویہ اور دیگر تصانیف میں پھیلی ہوئی معاشی رہنمائی ایک مربوط نظامِ فکر کی عکاس ہے۔
معاشیات کے بنیادی اسلامی اصولوں کی توضیح و دفاع امام احمد رضا نے معیشت کے لیے ربا (سود) کی حرمت کو ناقابلِ تنسیخ اور معاشی برائیوں کی جڑ قرار دیا۔ آپ نے سود خوری کی تمام جدید شکلوں کو بھی اسی زمرے میں شامل کیا اور اسے معاشرے میں ظلم، استحصال اور دولت کے ارتکاز کا بنیادی سبب بتایا۔ آپ نے زکوٰۃ کو صرف ایک عبادت ہی نہیں، بلکہ دولت کی صفائی، گردش اور معاشرتی توازن کا مضبوط ترین ذریعہ قرار دیا۔ آپ کے نزدیک زکوٰۃ کی ادائیگی امیروں پر فرض ہونے کے ساتھ ساتھ غریبوں کا حق ہے، جس سے معاشی ناہمواری کم ہوتی ہے۔ خراج، عشر، فئے جیسے مالیاتی وسائل کے شرعی احکام پر آپ کی تفصیلی بحثیں اسلامی ریاست کے مالیاتی نظام کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ آپ نے منافع خوری کو جائز قرار دیا مگر احتکار (ذخیرہ اندوزی)، غبن (دھوکا دہی) اور نجومی (غیر یقینی سودے) جیسی ممنوعہ معاشی حرکات سے سختی سے منع کیا، کیونکہ یہ بازار میں خلل، مصنوعی قلت اور عوام کے استحصال کا باعث بنتی ہیں۔ عدالتی معاشی نظام اور دولت کی منصفانہ تقسیمامام صاحب کی معاشی فکر کا اہم ترین پہلو عدل اور انصاف پر زور ہے۔ آپ دولت کی منصفانہ تقسیم کے قائل تھے۔ آپ نے ملکیتِ فردی کو شرعی حدود کے اندر تسلیم کیا، لیکن اس بات پر زور دیا کہ دولت صرف چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو۔ آپ نے غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور معذوروں کے حقوق کو شریعت کا تحفہ قرار دے کر ان کی کفالت کو معاشرے اور ریاست کی ذمہ داری ٹھہرایا۔ آپ کی رائے میں معاشی پالیسیوں کا اولین ہدف عوام کی بنیادی ضروریات (خوراک، رہائش، لباس، علاج) کی فراہمی یقینی بنانا ہونا چاہیے۔ آپ نے ارضیات (زمین اور وسائل) کے اسلامی تصورات کو واضح کیا، جس کے مطابق حقیقی مالک اللہ ہے اور انسان محض امین ہیں۔ اس لیے وسائل کے استعمال میں اجتماعی مفاد اور آنے والی نسلوں کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ آپ نے وقف کے نظام کو معاشی استحکام اور سماجی بہبود کا ایک طاقتور ذریعہ قرار دیا۔
عملی معاشی ہدایات اور عصری معنویت امام احمد رضا خان نے صرف نظریاتی بحثوں تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ عملی معاملات میں شریعت کی روشنی میں رہنمائی فراہم کی۔ آپ نے تجارت اور لین دین کے آداب جیسے دیانتداری، تول پورا کرنا، معاہدوں کی پابندی، دھوکے سے اجتناب، کو تفصیل سے بیان کیا۔ آپ نے مزدور کے حقوق خاص طور پر اس کی مزدوری بروقت اور پوری ادا کرنے پر زور دیا اور اسے مزدور کا خون قرار دیا۔ آپ نے قرض حسنہ کی حوصلہ افزائی کی اور اسے معاشرتی ہمدردی اور معاشی تعاون کا بہترین ذریعہ بتایا۔ آپ کے نزدیک ایک اسلامی معیشت سود سے پاک بینکنگ اور مالیاتی نظام پر استوار ہونی چاہیے۔ آپ کی معاشی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ معاشی سرگرمیاں حلال ذرائع سے، شفافیت کے ساتھ، دوسروں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے، اجتماعی فلاح کو مدنظر رکھ کر اور آخرت کی جوابدہی کو یاد رکھ کرکی جانی چاہئیں۔ آپ کی یہ فکر آج بھی استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور سود پر مبنی معیشت کے متبادل کے طور پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور معاشی انصاف کے حصول کے لیے ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتی ہے۔