حضرت مولانا افضل حسین مصباحی، لوکہاوی کچھ یادیں کچھ باتیں
محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی
۲؍ربیع الآخر ۱۴۴۷ھ مطابق ۲۵؍ ستمبر ۲۰۲۵ء بروز پنجشنبہ کو شام میں یہ خبر واٹس ایپ کے ذریعے پڑھنے کو ملی کہ ضلع مدھوبنی کے مردم خیز قصبہ لوکہا سے تعلق رکھنے والے معروف عالم دین حضرت مولانا حافظ وقاری الحاج افضل حسین مصباحی جو عرف عام میں مولانا افضل امام مصباحی حبیبی کے نام سے معروف تھے، طویل علالت کے بعد دہلی کے اپولو ہاسپٹل میں اللہ کو پیارے ہو گئے، اس خبر کو سن کر سکتہ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ میں نے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا۔ اور مرحوم کے حوالے سے گہرے تفکرات میں ڈوب گیا، ان سے تقریبا ہر بار لوکہا کے سفر میں ملاقات، گفت وشنید اور باہمی تبادلۂ خیالات کے لمحات کو یاد کرنے لگا، مولانا افضل امام مرحوم سے ہماری ملاقات اور شنا سائی کا دائرہ دو دہائیوں پر محیط ہے۔ جب آپ کے قصبہ لوکہا میں ۲۰۰۴ء میں میری شادی ہوئی اس وقت سے ہی آمد ورفت کا نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ قائم ہو گیا۔ ہمارے خسر محترم الحاج محمد رفیق برکاتی صاحب کے گھرانے سے ان کے گھرانے کا ایک گہرا ربط وتعلق پہلے سے قائم تھا اس رشتۂ مودت اور تعلق کے اعتبار سے ان کے چچا حضرت مفتی عابد حسین قادری مصباحی، مفتی جھار کھنڈ، شیخ الحدیث مدرسہ فیض العلوم جمشید پور اور ان کے دوسرے بھائی جناب حامد رضا صاحب کو چچا کہہ کر بلاتے ہیں۔
میں جب بھی لوکہا جاتا خواہ ایک دن کا ہی قیام کیوں نہ ہو، حضرت مولانا افضل امام مرحوم کی دکان پر ضرور ایک بار ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتا اور وہ پرتپاک انداز میں مجھ سے ملتے، میرے لیے ناشتہ منگواتے، چائے اور پان کا اہتمام ضرور کرتے۔ دیر تک کسی نہ کسی دینی اور
علمی مسئلے پر ان سے گفتگو ہوتی رہتی۔ کبھی کبھی ہدایہ کی عبارت لفظ بلفظ پڑھ کر سناتے اور کہتے مولانا مجھے ہدایہ کی عبارتیں ابھی تک یاد ہیں۔ اس سے ان کی قوت استحضار کا اندازہ ہوتا۔ وہ بڑے ذہین اور نکتہ رس انسان تھے۔ پوری زندگی نہایت سادگی کے ساتھ گذار دی۔ کرتا، پاجامہ اور رام پوری ٹوپی عموماً پہنا کرتے تھے۔ یہی ان کی پوشاک تھی۔ تکلف اور تصنع سے بہت دور رہے۔ مختلف پروگراموں میں ہمارا اور ان کا ساتھ بیٹھنا ہوا۔ میں نے دیکھا ان کی تقریر اپنے موضوع پر نہایت مدلل اور مختصر ہوا کرتی تھی۔ لفاظی کرنا ان کی عادت میں شامل ہی نہیں تھا، گذشتہ تین سالوں سے ہم لوگوں کی ملاقات نہیں ہو سکی تھی۔ وجہ یہ ہے کہ اس عرصہ میں اپنی گونا گوں مصروفیات کے باعث میں نے لوکہا کا سفر نہیں کیا۔ بلکہ گذشتہ سال عرس حضور حافظ ملت کے موقع پر اپنے خسر محترم کو ہی یہاں بلا لیا تا کہ بچوں سے ان کی ملاقات ہو جائے۔
مولانا افضل امام کے خاندانی پس منظر کے بارے میں شاید اکثر حضرات کو معلوم نہ ہو گا، ان کی زندگی کے نشیب وفراز کو سمجھنے کے لیے خاندانی بیک گراؤنڈ کا جاننا نہایت ضروری ہے۔
مولانا مرحوم نے جس خانوادہ میں آنکھیں کھولیں وہ اس خطے کا علمی، دینی اور صاحب وجاہت خانوادہ تھا۔ جہاں علمی وروحانی بصیرت پہلے سے موجود تھی، آپ کا شجرۂ نسب کچھ اس طرح ہے۔
مولانا افضل حسین مصباحی حبیبی ابن شیخ عبد الحق رضوی (۱۹۴۰ء -۲۰۱۶ء) ابن مناظر اہل سنت، تلمیذ رشید محدث احسان علی فیض پوری، مرید حضور حجۃ الاسلام، مولانا محمد یونس رضوی حامدی (۱۹۲۲ء -۱۹۹۲ء) ابن شیخ محمد ابراہیم ابن شیخ حسین بخش ابن شیخ مولانا بخش۔
آپ کا خاندان محمد پور، موتی پور، ضلع مظفر پور سے ہجرت کر کے لوکہا میں آباد ہوا۔ آپ کے جد اعلیٰ مولانا بخش کی قبر موتی پور ہی میں موجود ہے۔ مولانا مرحوم کے دادا مولانا یونس رضوی کے دادا شیخ حسین بخش انگریزی عہد حکومت میں پولیس والوں سے کسی معاملے میں نزاع ہو جانے کے سبب تین پولیس والوں کا کام تمام کر کے جان بچا کر سرحدی علاقے کی طرف آئے، اور سرحد پر واقع بستی لوکہا کو اپنی جائے سکونت بنایا۔ پھر یہیں آپ کی نسل پھلی پھولی۔
شروع ہی سے آپ کا خاندان، جرأت، بہادری اور حمیت وغیرت دینی میں ممتاز رہا۔ آپ کے دادا مولانا محمد یونس رضوی مرحوم دربھنگہ کمشنری کے منتخب علما میں سے ایک تھے۔ آپ کی اعلیٰ تعلیم وتربیت مدرسہ منظر اسلام بریلی شریف سے ہوئی۔ اور وہیں سے فارغ التحصیل بھی ہوئے، قیام بریلی ہی کے زمانے میں آپ نے حضور حجۃ الاسلام کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل کیا۔ مختلف مقامات پر دین کی خدمت انجام دی۔ انہیں میں ایک مدرسہ ’’لطیفیہ بحر العلوم کٹیہار‘‘ بھی ہے، جس زمانے میں حضور ملک العلما وہاں تدریسی فریضہ انجام دے رہے تھے، آپ بحثیت مدرس وہاں موجود تھے۔آپ کےکٹیہار میں قیام کا زمانہ ( ۱۹۶۰ء-۱۹۵۹ء) کا ہے۔ مولانا افضل امام کے والد شیخ عبد الحق اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ میں نے ان کی زیارت کی ہے۔ بہت جری اور شجاع انسان تھے۔ آپ کے چچا حضرت مفتی عابد حسین مصباحی اس عہد کے یکتاے روز گار عالم دین اور فقیہ ہیں، ظاہر وباطن کا سنگم ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف اور مرتب ہیں، فقہ وفتاویٰ، افتا وقضا آپ کا خاص میدان ہے، حضور قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ آپ کی ذات پر بے پناہ اعتماد فرمایا کرتے تھے۔ مفتی صاحب اخلاص، توکل، صبر وشکر اور زہد و ورع کے اعلیٰ صفات سے متصف ہیں۔
جن کو اس زمانے میں با عمل عالم دین کو دیکھنا ہو وہ آپ کی صحبت کا فیض اٹھائے۔ جب بھی مبارک پور آتے ہیں اس فقیر کو ضرور یاد کرتے ہیں، سسرالی نسبت سے وہ ہمارے خسر ہوتے ہیں اس وجہ سے اور بھی زیادہ محبت فرماتے ہیں۔
اس طرح مولانا افضل امام کو ایک دینی وعلمی خاندان نصیب ہوا اور وہ گھرانہ ملا جس کو اعلیٰ حضرت امام اہل سنت کے گھرانے سے کئی پشتوں سے نسبت غلامی حاصل ہے۔
مولانا افضل امام اپنے نو بہنوں اور بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے دادا الحاج محمد یونس رضوی سے حاصل کی۔ پھر جامعہ حنفیہ غوثیہ جنک پور، نیپال میں داخلہ لیا اور وہاں سے اکتساب علم کیا۔حفظ قرآن کے لیے ۱۹۷۷ء میں مرکز علم وادب الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور میں داخلہ لیا اور حضرت حافظ قاری جمیل احمد عزیزی کی بافیض بارگاہ سے حفظ قرآن مکمل کیا۔
اس کے بعد درس نظامی کی تکمیل کے لیے کامل نو سال آپ نے جامعہ اشرفیہ میں گزارے اور ۱۹۸۷ء میں درجۂ فضیلت سے فارغ ہوئے۔ اپنی ذہانت وفطانت کے سبب اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن آپ کو حاصل تھی۔
روحانی نسبت کے لیے آپ نے ہندوستان کی ایک مرتاض اور مرنجان مرنج شخصیت کا انتخاب کیا جن کو دنیا مسیحائے سنیت، مجاہد ملت، علامہ حبیب الرحمٰن عباسی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔
حضور مجاہد ملت کے دست مبارک پر بیعت ہو کر سلسلۂ قادریہ رضویہ میں نسبت حاصل کی، اور اس نسبت سے حبیبی کہلائے۔
اگر آپ کسی درسگاہ سے وابستہ رہتے تو آج ان کے ہزاروں تلامذہ ہوتے مگر شان درسگاہی پر شانِ تجارت کو ترجیح دی اور اپنے ہی گھر میں آپ نے ہارڈویر اور میٹریل کی ایک بڑی دکان کھولی اور بڑی خودداری اور عزت نفس کے ساتھ تجارت میں مصروف رہے۔
آپ کا نظریہ تھا کہ دین کی خدمت فی سبیل اللہ ہونی چاہیے اور کسب معاش کے لیے کوئی جائز ذریعہ معاش ہونا چاہیے۔
ایک تاجر کی حیثیت سے سنت مصطفوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام پر عمل کرتے ہوئے ایمان داری اور دیانت کے ساتھ آپ نے تجارت فرمائی۔
آج ہمارے درمیان گو بظاہر وہ موجود نہیں تاہم وہ ہماری جلوت وخلوت میں زندہ ہیں، ان کی یادیں، ان کی باتیں، ان کے حسن اخلاق اور ان کے ملنے کا طریقہ ہمارے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ، ان کے صغائر وکبائر معاف فرمائے، ان کی تربت پر شب وروز رحمت وغفران کی بارش فرمائے اور ہم میں ان کے امثال پیدا فرمائے۔
محمد رضا قادری مصباحی نقشبندی
خادم تدریس جامعہ اشرفیہ، مبارک پور
یکم اکتوبر، ۲۰۲۵ء، بروز چہار شنبہ/۸؍ ربیع الآخر؍۱۴۴۷ھ
نوٹ: خاندانی بیک گراؤنڈ سے متعلق تفصیلات میں نے فقیہ عصر مفتی محمد عابد حسین قادری کی تالیف ’’تجلیات مولانا یونس رضوی ‘‘سے اخذ کی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کریں