اداریہ
یورپی ملکوں کی طرف سے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کیا جانا مسلم ممالک کی بے حسی پر زناٹے دار طمانچہ
ایڈیٹر کے قلم سے ۔۔۔۔
1948ء سے آج تک فلسطین کے مسلمانوں کا جس طرح بے دریغ خون بہایا گیا ہے، وہ یقیناً نہایت افسوسناک اور دل دہلا دینے والا واقعہ ہے۔ خون کسی کا بھی ہو قیمتی ہے، لیکن جب خون ناحق بہایا جائے تو اس کا حساب ضرور لیا جاتا ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر روز بہ روز گرنے والے لہو کے چھینٹے انسانیت کے منہ پر تازیانہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس ظلم و ستم کا ذمہ دار کون ہے؟ ملبوں کے ڈھیر سے چیختی ہوئی معصوم بچوں کی آوازیں دنیا کو کیوں سنائی نہیں دیتیں؟ فلسطین کے بازار ویران ہوچکے ہیں، عالی شان مکانات کھنڈر بن گئے ہیں، اور غزہ و فلسطین سے آنے والی تصاویر نے پوری انسانیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
بھوک اور پیاس کی شدت سے فلسطینی عوام نڈھال ہیں، لیکن پچپن اسلامی ممالک اور اقوامِ متحدہ کی بے اثر قراردادیں اب تک کسی کام کی ثابت نہیں ہوئیں۔ اسرائیل کی بربریت سب کے سامنے ہے۔ جس سرزمین پر کبھی فلسطینیوں نے ان ظالموں کو پناہ دی تھی، آج انہی کو وہاں زندہ رہنے کا حق نہیں دیا جا رہا۔ اسرائیلی بمباری نے پوری آبادی کو گھائل کردیا ہے، ہر لمحے کسی نہ کسی کی لاش اٹھتی ہے۔ مسلمان بیٹیوں کے لیے آسمان ہی واحد سائبان بچا ہے، مگر کوئی پرسانِ حال نہیں۔
گزشتہ دنوں قطر کی سرزمین پر اسرائیلی جارحیت کی گونج پوری دنیا نے سنی۔ اس کے فوراً بعد اسلامی ممالک نے اجلاس منعقد کیے، مگر یہ اجلاس محض بیان بازی تک محدود رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ بمباری رکی، نہ غزہ کے مکین محفوظ ہوئے، نہ ہی مساجد و مدارس سلامت رہ سکے۔ یہ صرف فلسطینی مسلمانوں کا قتلِ عام نہیں بلکہ پوری انسانیت کے دامن پر بدنما داغ ہے۔
14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک لاکھوں فلسطینی اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں۔ آج یورپی ممالک کی طرف سے فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک کے سربراہان کی بے حسی نے فلسطین کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ ایک طرف یورپ غزہ و فلسطین کے حق میں آواز بلند کر رہا ہے، جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک محض اجلاس در اجلاس کرکے اپنے فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیں، جن کے نتائج نہ پہلے نکلے نہ آج کوئی نکلنے کی امید ہے۔
یورپ اور ایشیا سے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کی آواز اسرائیل کے لئے ناقابلِ برداشت بن چکی ہے، اسی لیے وہ پوری دنیا کو اس قدم سے باز رکھنے میں سرگرم ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلامی ممالک بیک زبان فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کریں اور دنیا کو ایک مؤثر پیغام دیں، مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی حمایت نے ہی اسلامی دنیا کی بے حسی پر زناٹے دار طمانچہ مارا ہے۔
اب دنیا کی نظریں اس بات پر جمی ہیں کہ کیا فلسطین کو ریاست کا درجہ مل پائے گا یا نہیں؟ اور کیا اسلامی ممالک اپنی ذمہ داری پوری کریں گے؟ اس وقت اقوامِ متحدہ کی بروقت اور عملی پیش رفت نہایت ضروری ہے، ورنہ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولناک ہولی کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور اسلامی دنیا مل کر فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کریں اور اس خطے کے مظلوم عوام کو ان کا بنیادی حق واپس دلائیں۔