اعلی حضرت امام احمد رضا قادری اور مختلف اقوال فقہا میں ترجیح
مفتی محمد رضا قادری مصباحى
استاذ: جامعہ اشرفیہ مبارک پور، اعظم گڑ ھ
مختلف اقوال میں ترجیح بڑا اہم کام ہے ، جسے اجلہ فقہا نے اپنی فقاہت اور وسعت علم کے سہارے بڑی عالی ہمتی سے انجام دیا، لیکن جہاں ان سے کوئی ترجیح منقول نہ ہو ، یا جہاں مختلف تصحیح و ترجیح منقول ہوں ، وہاں یہ کام اور زیادہ مشکل ہوجاتا ہے ، مگر یہاں بھی اعلیٰ حضرت کا قلم حق رقم اور دقت نظر لائق خراج تحسین ہے کہ اس دشوار ترین مرحلے کو بھی کامیابی کے ساتھ سر فرمایا ہے۔ سرفرمايا ہے۔
ذیل کی سطور میں اس ضمن میں چند شواہد نذر قارئین ہیں:
(1)قبول“ ”ہبہ“ کا رکن نہیں ہے، مختلف اقوال فقہا میں ترجیح اور فقہی شواہد و جزئیات سے حکم مذکور کی تائید و توثیق
باب بیع میں اس کے ارکان ، ایجاب و قبول ہیں لیکن باب ہبہ میں صرف ایجاب بالاتفاق اس کا رکن ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ایجاب ہی کی طرح قبول بھی ہبہ کا رکن ہے یا نہیں ؟ تو اس سلسلے میں فقہائے کرام کی آرا ایک دوسرے سے مختلف ہیں بعض حضرات نے قبول کو بھی مثل ایجاب ہبہ کا رکن قرار دیا ہے ، اور بعض نے اس کی نفی کی ہے۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ رقم طراز ہیں:
ہمارے مشایخ مذہب رحمہم اللہ تعالیٰ کو اختلاف ہے کہ قبول بھی مثل ایجاب، رکن ہبہ ہے یا نہیں؟ مشى على الأول فى الكافى والكفاية والتنوير والدر و هبة الهداية وقال الاتقانى : إنه قول الإمام علاؤ الدين في تحفة الفقهاء ومشى على الثانى فى الحصر والمختلف والنهاية والدراية والعناية والعينى و عامة الشروح قال الاتقانى : إنه قول الإمام شيخ الإسلام خواهر زاده في مبسوطه و به جزم في كتاب الأيمان من الهداية والكرماني والتاويلات. ومحيط السرخسي. اهـ )فتاوٰی رضویہ، ج۱، ص۱۱۵۔ 7، ص۔ 435، مطبوعہ: رضا اکادمی، ممبئی(
کافی، کفایہ، تنویر الابصار ، در مختار اور ہدایہ کے باب الہبہ میں قول اول کو اختیار فرمایا ہے ، اتقانی نے کہا: تحفۃ الفقہا میں امام علاء الدین کا یہی قول ہے۔
اور حصر، مختلف ، نہایہ، درایہ ، عنایہ ، عینی ، اور عامۂ شروح میں قول ثانی کو اختیار فرمایا ہے ، اتقانی نے کہا: شیخ الاسلام خواہر زادہ نے اپنی مبسوط میں یہی قول کیا ہے، اور اسی پر ہدایہ کی کتاب الایمان ، کرمانی، تاویلات اور محیط سرخسی میں جزم کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا عبارات سے دو طرح کے قول سامنے آئے بعض فقہا نے قبول کو رکن قرار دیا اور بعض نے اس کی نفی کی ، لیکن بات اب بھی واضح نہیں ہوتی کہ اس میں راجح مفتی به کون سا قول ہے ؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اس مشکل امر کو نہایت آسانی سے حل فرمایا ہے اور دلائل و براہین کی روشنی میں نہایت ہی دقت نظری سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ راجح و معتمد اور مفتی بہ قول ثانی ہے ، اور اصول بھی اس کا مقتضی ہے۔
ہم ان کے دلائل و براہین کا خلاصہ اپنے الفاظ میں سپرد قلم کر رہے ہیں:اعلیٰ حضرت کا موقف یہ ہے کہ قبول رکن نہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہ سکتے ہیں کہ یہ ثبوت ملک کی شرط ہے ، رہا واہب کے اذن سے مجلس میں قبضہ تو یہ بھی قبول نہیں بن سکتا بلکہ قبول کا قائم مقام ہو جائے گا اور تحقیق یہ ہے کہ قبضہ بھی بذات خود ثبوت ملک کی شرط ہی ہے۔ پہلی دلیل: امام ملک العلما ابو بکر بن مسعود کاشانی بدائع میں تصریح فرماتےہیں :قبول کا رکن ہونا امام زفر کا قول اور قیاس ہے ، استحسان عدم رکنیت ہے ، اور یہ معلوم ہے کہ چند مسائل کو چھوڑ کر سب میں عمل ہمیشہ استحسان پر ہے اور مسئلہ مذکورہ ان مسائل سے نہیں لہذ ا بطور استحسان یہ ثابت ہوا کہ قبول رکن نہیں ۔
دوسری دلیل: فتاوی قاضی خان اور حاوی الفتاوی میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ موہوب لہ کا قبضہ مجلس ہبہ کے بعد جب اس تیسری دلیل کا مطلب یہ ہے کہ شئی موہوب پر موہوب کہ یہ قبضہ واہب کی اجازت سے ہو مثبت ملک ہے، اگر چہ موہوب لہ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے قبول کیا، اور امام قاضی خان اور صاحب حاوی الفتاویٰ نے صراحت فرمایا: ” به نأخذ “ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ، یہ لفظ اعاظم الفاظ افتا سے ہے ، جیسا کہ در رو غیرہا میں ہے۔ تیسری دلیل: قبضہ اگر چہ قائم مقام قبول ہے مگر قبول رکن ہوتا تو ماوراے مجلس پر موقوف نہ رہ سکتا ۔ (فتاوی رضویہ ، ج ۷، ص: ۴۳۶ مطبوعہ ، رضا اکیڈمی)لہ نے اس وقت قبضہ کیا جب مجلس ہبہ برخاست ہو چکی تھی اور یہ قبضہ باذن واہب تھا تو قاضی خان اور صاحب حاوی الفتاوی جیسے محقق فرماتے ہیں : کہ اس طرح سے ملکیت ثابت ہو گئی ، اگر چہ موہوب لہ نے قبول کردم کا لفظ نہ کہا ہو اور اگر قبول رکن ہوتا تو مجلس ہبہ کے ماسوا پر موقوف نہ رہتا، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
لأن الايجاب لفظ ، واللفظ عرض والعرض لا يبقى زمانين فلا يمكن ارتباط القبول به إلا إذا تحقق في مجلسه لأن الشرع جعل الممجلس جامع الكلمات . اهـ .( فتاوی رضویہ ، ج: ۷، ص: ۳۶ مطبوعہ ، رضا اکیڈمی)قبول کے عدم رکنیت پر یہ دلیل بہت ہی قوی ہے جو اعلی حضرت رحمة الله تعالى عليه نے ارشاد فرمائی۔ اس لیے کہ ایجاب ایک لفظ ہے اور لفظ عرض ہے اور عرض دو زمانوں میں باقی نہیں رہتا تو ایجاب سے قبول کا ربط نہیں ہوا، اس لیے کہ قبول تو دوسرے زمانے میں متحقق ہے پھر ذہن میں ایک سوال ابھرا کہ ٹھیک ہے عرض دو زمانوں میں باقی نہیں رہتا لیکن مجلس ہبہ میں بھی تو ایجاب و قبول کا ایک زمانے میں پایا جانا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ ایجاب کا زمانہ کچھ اور ہوگا اور قبول کا کچھ اور ۔ تو اس کا جواب اس طور پر دیا کہ شرع نے مجلس کو جامع کلمات متعددہ بنا دیا ہے اس لیے دونوں ایک ہی زمانے میں پائے گئے ۔ یعنی جب ایک مجلس میں ایجاب اور قبول دونوں پالیے گئے تو شرعا دونوں ایک زمانے میں مانے گئے۔
ایک نظیر پیش فرماکر اعلیٰ حضرت علی نے مزید اس مسئلے کو متقی فرمارہے ہیں، ملاحظہ کریں:
خود ہدایہ و در مختار وغیرہ عامہ کتب میں تصریح فرمائی کہ اگر زید نے قسم کھائی ”ہبہ نہ کروں گا“ پھر عمرو سے کہا یہ شے میں نے تجھے ہبہ کی اور عمرو نے ہبہ قبول نہ کیا قسم ٹوٹ گئی، کہ ہبہ صرف اس کے ایجاب سے متحقق ہو گیا، اگرچہ عمرو نے قبول نہ کیا۔ اور قسم کھائی کی نہ بیچے گا پھر عمرو سے کہا میں نے یہ شے تیرے ہاتھوں بیچی اور عمرو نے قبول نہ کیا قسم نہ ٹوٹی کہ بیچ بے ایجاب و قبول دونوں کے متحقق نہ ہوگی تو بے قبول مشتری بیچنا صادق نہ آیا، یہ چوتھی وجہ اس قول کی ترجیح کی ہے کہ عام کتب معتمدہ حتی کہ ان میں بھی جو رکنیت کی تصریح کرتی تھیں یہ مسئلہ یوں ہی مسطور ہے ، جس سے عدم رکنیت روشن و منصور ہے ۔ (فتاوی رضویہ ، ج: ۷ ، ص: ۴۳۶)
امام احمد رضا قدس سرہ نے دو نظیریں پیش فرمائیں ، پہلی نظیر سے یہ ثابت ہوا کہ اگر قبول رکن ہوتا تو زید کی قسم نہیں ٹوٹتی حالاں کہ ٹوٹ گئی ، اور دوسری نظیر سے معلوم ہوا کہ زید کی قسم نہیں ٹوٹی اس لیے کہ قبول پایا ہی نہیں گیا جو کہ بیچ کا رکن ہوتا ہے اس سے اعلیٰ حضرت کے کمال فقاہت اور تبحر علمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
شمن خلقی کو اگر ثمن غیر خلقی کے عوض بیچا گیا تو اس میں تقابض بدلین شرط نہیں ہےسونے اور چاندی جو پیدائشی طور پر ثمنیت کے لیے وضع کیے گئے ہیں ان کی بیع صرف کہلاتی ہے جب سونے کو چاندی یا چاندی کو سونے کے عوض بیچا جائے یا سونے کو سونے، چاندی کو چاندی سے بیچا جائے ، تو یہ بیع صرف ہے اور اس کی شرط یہ ہے کہ دونوں جانب قبضہ ضروری ہے اگر کسی جانب ادھار رہا تو یہ بیچ صحیح نہیں ہوگی اور جو چیز خلقی طور پر ثمن نہیں ہے بلکہ اصطلاح ناس اور رواج کی بنیاد پر اسے شمن کا حکم دے دیا گیا مثلاً : پیسہ اور کرنسی نوٹ، اگر ان میں سے کسی کو درہموں دیناروں کے عوض بیچا گیا تو کیا تقابض یعنی طرفین کا قبض یا بالید ہونا شرط ہو گا یا نہیں ، اس بارے میں فقہا کی دورائیں ہیں :
اکثر فقہا کا مذہب یہ ہے کہ پیسے کی بیع در اہم و دنا نیر کے ساتھ صرف نہیں پھر تقابض کی حاجت بھی نہیں ، یہ بات
انھوں نے فلوس کی اصل خلقت پر نظر رکھنے کے بعد کہی، امام محمد اللہ نے الت العالیہ نے مبسوط میں اسی پر پر نص فرمایا، محیط، حاوی، بزازیہ، بحر الرائق، نهر الفائق، فتاوی حانوتی، تنویر الابصار ، در مختار ، ہندیہ و غیر ها متون مذہب اور ان کی شروح و فتاویٰ میں اسی پر اعتماد فرمایا اور یہی مفاد ہے امام اسپیجابی کےکلام کا۔ اور دوسرے طبقہ کے فقہا جنھوں نے اصطلاحی شمن ہونے کا لحاظ کیا انھوں نے جانبین کے قبضہ کو شرط ٹھہرایا، علامہ قاری الہدایہ کا فتوی اسی پر ہے ، حضرت عمر بن نجیم حنفی نے ان کے اس فتوی کی تاویل اس طور پر کی کہ اس سے اختلاف رفع ہو جاتا ہے ، اور علامہ شامی نے یہ کہ کر ان سے اختلاف کیا کہ علامہ قاری الہدایہ کا قول رحما تعال عليه اس معنی پر محمول کیا جائے گا جس پر جامع صغیر میں امام محمد اللہ علیہ کا کلام دلالت کرتا ہے، اور وہ کلام یہ ہے کہ تقابض جانبین شرط ہے ، ان تمام باتوں کی تفصیل رد المحتار میں ہے۔
مذکورہ بالا تحریر سے دو باتیں سامنے آئیں اول بیع الفلوس بالدراہم میں فقہاے کرام کا اختلاف ہے، کہ تقابض شرط ہے یا قبضہ من احد الجانبین کافی ہے دوم یہ کہ علامہ قاری الہدایہ کے فتوی کو علامہ شامی نے امام محمد کے اس کلام پر محمول فرمایا جس کی دلالت اس پر ہو رہی ہے کہ جانبین سے قبضہ شرط ہے۔
علامہ رحم شامی حا الله عا علیہ کے اس میلان پرا پر اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے ادب کے پیرایے میں شدید گرفت فرمائی ہے اور اس میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جامع صغیر جو امام محمد کی کتاب ہے میں نے اس کی طرف مراجعت کی تو اس میں کوئی ایسی عبارت نہیں ملی جس سے تقابض کا شرط ہونا مستفاد ہوتا ہو، فرمایا:
قال العبد الضعيف غفر الله له : وما جنح إليه الفاضل الشامي سيدي محمد بن أمين الدين أفندى ابن عابدين رحمة الله تعالى عليه من دلالة كلام الجامع الصغير على ذلك الاشتراط فقد تبع فيه صاحب البحر والعلامة زين الدين عول على ما وقع في الذخيرة كما هو مذكور فى الحاشية الشامية ، ولكن لى فيه تامل بعد، فإنى راجعت الجامع فوجدت نصه هكذا عن محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة رضى الله تعالى عنهم : رجل باع رطلين من شحم البطن برطل من ألية أو باع رطلين من اللحم برطل من شحم البطن أو بيضة ببيضتين أو جوزة بجوزتين أو فلسا بفلسين أوتمرا بتمرتين يدا بيد بأعيانهما يجوز وهو قول أبي يوسف رحمه الله وقال محمد رحمه الله لا يجوز فلس بفلسين ويجوز تمرة بتمرتين انتهى كلامه الشريف. .( فتاوی رضویہ ، ج: ۷، ص: 257- 258 مطبوعہ ، رضا اکیڈمی)
ترجمہ: بندہ ضعیف غفرلہ کہتا ہے علامہ شامی رحمتہ اللہ علیہ جس طرف مائل ہوئے یعنی یہ کہ جامع صغیر کا کلام اس شرط پر دلالت کر رہا ہے اس میں انھوں نے صاحب بحر کی پیروی کی ہے اور علامہ زین الدین نے اس پر اعتماد کیا جو ذخیرہ میں ہے جیسا کہ حاشیہ شامی میں مذکور ہے لیکن مجھے اس میں ابھی بھی شامل ہے میں نے جامع صغیر کی طرف رجوع کیا تو اس کے نص کو یوں پایا، امام محمد نے امام ابو یوسف سے انھوں نے امام اعظم سے روایت کیا، ریلی ام ، ایک شخص نے دور طل پیٹ کی چربی ایک رطل شرین کی چربی کے عوض ، یا دور طل گوشت ایک رطل پیٹ کی چربی کے عوض بیچا، یا ایک انڈا دو انڈوں کے عوض، یا ایک اخروٹ دو اخروٹ کے عوض، یا ایک پیسہ دو پیسوں کے عوض یا ایک کھجور ، دو کھجوروں کے بدلے فروخت کیا تو جائز ہے جب کہ ان چیزوں کالین دین دست بدست، تعیین کے ساتھ ہو۔ انتہی
یہاں تک اصل عبارت کا ترجمہ تھا اس کے بعد اس عبارت سے حضرت علامہ شامی نے تقابض پر کیسے استدلال فرمایا اس کو ملاحظہ فرمائیں۔ حضرت امام اعظم رضی الله عنه سے منقول اس عبارت میں محل استنباط آپ کا قول یدا بید“ ہے ، جس کا مفہوم علامہ شامی نے دست بدست اور تقابض جانبین لیا ہے ، علامہ شامی کے مذکورہ استدلالوں پر امام احمد رضا قدس سرہ نے جو بصیرت افروز کلام فرمایا ہے وہ یقینا دل کی آنکھوں سے پڑھنے کے لائق ہے ، ہم اس کا حاصل ذیل کی سطور میں نذر قارئین کرتے ہیں۔
لیکن فقہی مہارت رکھنے والا یہ جانتا ہے کہ یدا بید کا لفظ تقابض بالبراجم کے بارے میں نص صریح نہیں ، یعنی صراحہ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انگلی کے پوروں کے ساتھ قبضہ کرنا
ضروری ہے، بلکہ یدا بید سے عینیت مراد ہے کہ لین دین کی وہ اشیا معین ہوں ، کیا نہیں دیکھتے کہ ہمارے علماے کرام نے حدیث معروف میں اس کی تفسیر عینیت سے فرمائی ہے جیسا کہ ہدایہ میں علامہ برہان الدین مرغینانی نے فرمایا: ومعنى قوله عليه الصلاة والسلام يدا بيد عينا بعين كذا رواه عبادة بن الصامت رضى الله عنه .(الهداية كتاب البيوع باب الربا، مطبع يوسفي لكهنو ، 3/83) حضور ﷺکے قول يداً بيد کا معنی عیناً بعین ہے یوں ہی اس کو حضرت عبادہ بن الصامت رضى الله عنہنے روایت کیا ہے۔ ،اس کے بعد رقم طراز ہیں:
كيف و قد قال أصحابنا رضى الله تعالى عنهم إن التقابض إنما يشترط في الصرف وأما ما سواه مما يجرى فيه الربا فإنما يعتبر فيه التعيين. یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قول امام میں یدا بید کا معنی دست بدست ہو جب کہ ائمہ احناف رضی الامام نے فرمایا ہے کہ تقابض صرف بیع صرف میں شرط ہے اور اس کے علاوہ جس میں سود جاری ہوتا ہے یعنی سود کا تحقق ہوتا ہے تو وہاں فقط تعیین معتبر ہےپس ہماری ذکر کردہ عبارت میں قول امام کو تقابض ( دو طرفہ قبضہ) پر محمول کیا جائے اور اس سے ایک پیسہ کی دو پیسوں کے عوض بیچ میں تقابض کا شرط ہونا اخذ کیا جائے تو پھر ایک کھجور کی دو کھجوروں کے عوض، ایک انڈے کی دو انڈوں کے عوض اور ایک اخروٹ کی دو اخروٹوں کے عوض بیچ میں بھی تقابض شرط ہو گا، اس لیے کہ یہ تمام مسائل ایک سیاق کے تحت لائے گئے ہیں ، لہذا حکم بھی ایک ہی ہونا چاہیے حالاں کہ ہمارے ائمہ کرام اس کے قائل نہیں ، لہذا اس کا اشتراط تعیین پر محمول کرنا واجب ہوا، اور یہ ماننا پڑے گا کہ امام اعظم ریلی كا قول بأعيانها " یدا بید“ کی تفسیر ہے ورنہ یہ قول لغو اور بلا ضرورت ہو گا کیوں کہ اگر ”یداً بیدٍ“ کے معنی ”تقابض “ ہوں تو اس کے بعد با عیانها“ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ، اس لیے کہ ” تقابض “ میں تعیین کا معنی کچھ اضافے کے ساتھ موجود ہے اور جب تقابض کے اندر تعیین کا معنی کچھ اضافے کے ساتھ پایا جا رہا ہے تو پھر اس تعیین کو تقابض کے بعد ” با عیانها“ کے ذریعہ ذکر کرنے کا کیا فائدہ رہ جائے گا۔
یہی وجہ ہے کہ صاحب ہے کہ صاحب ہدایہ نے جب اس مسئلہ کو جامع صغیر سے نقل کیا تو اس میں سے یہ کلمہ ”یدا بید“ ساقط کر کے فقط عینیت کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ( یعنی امام محمد رحمة الله عليه نے كما صرح به العلامة العيني في البناية ) فرمايا:
يجوز بيع البيضة بالبيضتين والتمرة بالتمرتين والجوزة بالجوزتين ويجوز بيع الفلس بالفلسين بأعيانهما . اهـ . (الفتاوي الرضوية 7/258 رضا اکڈمی ممبئ)
ایک انڈے کو دو انڈوں ، ایک کھجور کو دو کھجوروں ، ایک اخروٹ کو دو اخروٹوں، اور ایک پیسہ کو دو معین پیسوں کے عوض میں بیچنا جائز ہے۔ (راقم)
اس نفیس گفتگو اور چشم کشا تحریر کے بعد امام احمد رضا قدس سرہ القوی بڑی خود اعتمادی کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں فرماتے ہیں:
فليس فى الجامع إن شاء الله تعالى دليل على ما ذكر هؤلاء الأعلام الخ.پس جامع صغیر میں ان فقہائے کرام کی مذکورہ باتوں پر کوئی دلیل نہیں اور اگر ہو تب بھی غیر کا احتمال بین ہوتے ہوئے اس کا ارادہ نہیں کیا جائے گا ، بر خلاف اصل یعنی مبسوط کی عبارت کے کہ وہ تقابض کے شرط نہ ہونے پر نص ہے ، جیسا کہ آگے آرہا ہے چناں چہ اسی پر اعتماد کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ ہی مالک توفیق ہے۔ اس قدر محققانہ گفتگو اور عقدہ لانچل کو سلجھانے کے بعد تواضع تو دیکھیے فرماتے ہیں:
هذاماسنح للعبد القاصر فتامله فإن وجدته حقاً فعليك به وإلا فارم به الجدار.
یہ حقیقت ہے جو اس کو تاہ بندے پر منکشف ہوئی پس آپ بھی اس میں غور کریں اگر اسے حق پائیں تو اسے لے لیں ورنہ اسے دیوار سے دے ماریں ۔ (راقم )
بالجملہ مذہب راج پر بیع الفلوس بالدراهم والد نا نیر میں ایک ہی جانب کا قبضہ کافی ہے۔
امام اہل سنت جمان اللہ نے ماقبل میں جس موقف کی تائید
واثبات میں پر زور دلائل پیش کیے اسی موقف کی ترجیح میں اب چند فقہی جزئیات بھی نقل فرماتے ہیں ، جن میں امام محمد علی احمنہ کی مبسوط سر فہرست ہے۔
في المبسوط إذا اشترى الرجل فلوسا بدراهم ونقد الثمن ولم تكن الفلوس عند البائع فالبيع جائز. اهـ . كذا في الهندية –
مبسوط میں ہے کہ جب کسی نے درہموں کے عوض پیسے خریدے اور شمن نقد ادا کر دیا مگر بائع کے پاس اس وقت پیسے موجود نہیں تھے تو بیع جائز ہے ایسا ہی ہندیہ میں ہے۔ (ر)
وفيها عن الحاوى وغيره لو اشترى مائة فلس بدرهم فقبض الدرهم ولم يقبض الفلوس حتى كسدت لم يبطل البيع قياسا ولو قبض خمسين فلسا فكسدت بطل البيع فى النصف ولولم تكسد لم يفسد وللمشترى ما بقى من الفلوس. اهـ. ملتقطا. (الفتاوي الرضوية 7/258 باب الصرف)
ترجمہ: ہندیہ میں حاوی وغیرہ سے منقول ہے ، اگر کسی نے ایک درہم کے عوض میں سو پیسے خریدے، اور بائع نے درہم پر قبضہ کر لیا مگر مشتری نے ابھی پیسوں پر قبضہ نہیں کیا تھا کہ اس کا چلن بند ہو گیا تو قیاس کی رو سے وہ بیع باطل نہ ہوئی ہاں ! اگر پچاس پیسوں پر قبضہ کر لیا تھا کہ چلن بند ہو گیا تو نصف میں بیع باطل ہو گئی اور اگر بند نہ ہوتا تو باطل نہ ہوتی اور مشتری باقی پیسے لینے کا حق دار ہوتا۔ اھ۔ ملتقطا ۔ وفي التنوير وشرحه باع فلوسا بمثلها أو بدراهم أو بدنانير فإن نقد أحدهما جاز وإن تفرقا بلا قبض أحد هما لم يجز.اهـ . (الفتاوي الرضوية 7/258 باب الصرف) تنویر اور اس کی شرح میں ہے ، کسی نے پیسوں کو ان کے مثل یا
درہموں کے عوض یا دیناروں کے بدلے بیچا تو اگر ان دونوں میں سے کسی ایک نے نقد ادایگی کر دی تو جائز ہے ، اور اگر وہ دونوں بغیر قبضہ کیے ہوئے جدا ہو گئے تو نا جائز ہے ۔ اھ۔
اکثر فقہا نے جس موقف کو اختیار فرمایا ہے اس کی تائید مبسوط کی مذکورہ عبارت سے بھی ہو رہی ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ جب کوئی شخص درہموں کے عوض پیسوں کو خریدے اور ثمن نقد ادا کر دے اور بائع کے پاس اس وقت پیسے موجود نہ ہوں تو بیع جائز ہے۔ کیا یہ اس پر نص صریح نہیں کہ تقابض شرط نہیں ، ورنہ جواز بیع کا کیا معنی؟ اسی طرح حاوی قدسی وغیرہ میں ہے کہ ایک درہم کے عوض کسی نے سو پیسے خریدے پھر پیسوں کا چلن بند ہو گیا اور مشتری نے ابھی قبضہ نہیں کیا تھا ، اور بائع درہم پر قبضہ کر چکا ہے تو از روے قیاس وہ بیع باطل نہ ہوئی، غور کریں، یہاں صرف بائع نے درہم پر قبضہ کیا ہے اور مشتری نے پیسوں پر قبضہ نہیں کیا ہے پھر بھی بیع باطل نہ ہوئی تو اگر بیع الفلوس بالدراہم میں تقابض شرط ہوتا تو ہر گز بیع تصحیح نہ ہوتی ، یوں ہی تنویر اور در مختار کی عبارت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بیچ مذکورہ میں جانبین میں سے کسی ایک نے قبضہ کر لیا تو بیع صحیح ہے اور بلا قبضہ دونوں جدا ہو گئے تو صحیح نہیں ۔
یہ تھے وہ روشن نصوص جن کی روشنی میں امام احمد رضا قدس سرہ نے پہلے قول کو راجح قرار دیا اور علامہ شامی اللہ علیہ نے علامہ قاری الہدایہ کے قول کو جس معنی پر محمول کیا اس کا بطلان نصوص فقہا کی روشنی میں واضح فرمایا اور نقض بھی وارد کیا کہ اگر یدا بید سے مراد دست بدست تقابض کے ساتھ بیع کرنا ہے تو اس میں صرف پیسوں ہی کی کیا تخصیص کھجور ، اخروٹ اور انڈوں میں بھی یہی حکم جاری ہوگا اس لیے کہ یہ سب ایک سیاق کے تحت لائے گئے ہیں حالاں کہ آپ بھی اس کے قائل نہیں ہیں۔ اور اگر اس سے بھی اصرح واوضح نص آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو خود علامہ شامی کی حانوتی سے نقل کردہ عبارت ملاحظہ کریں:قال ابن عابدين سئل الحانوتى عن بيع الذهب بالفلوس نسيئة فأجاب بأنه يجوز إذا قبض أحد البدلين لما في البزازية لو اشترى مائة فلس بدرهم يكفى التقابض من أحد الجانبين قال ومثله مالو باع فضة أو ذهبا بفلوس كما في البحر عن المحيط . الخ.
سید محمد امین الدین بن عابدین شامی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : امام حانوتی سے سے پیسوں کے عوض سونا ادھار بیچنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا جائز ہے بشرطے کہ بدلین میں سے ایک پر قبضہ کر لیا گیا ہو جیسا کہ بزازیہ میں ہے اگر ایک درہم کے بدلے سو پیسوں کو خریدا تو صرف ایک جانب سے قبضہ کافی ہے اور کہا اگر کسی نے چاندی یا سونے کو پیسوں کے عوض فروخت کیا تو اس کا حکم بھی یہی ہے ۔ بحر میں محیط سے یہی منقول ہے ۔ الخ۔ (الفتاوي الرضوية 7/256)
یہ تھیں وہ روشن تصریحات جن سے وہم کا غبار چھٹ گیا اور حق کا چہرہ صبح روشن کی طرح نکھر گیا۔