نیپال کا خونی آندولن!
لپکتے شعلے اور سسکتی زندگیاں
ایڈیٹر کے قلم سے ۔۔۔۔
نیپال کی فضاؤں پر موت کی ایک دبیز چادر تنی ہوئی ہے۔ ہوا میں جلتے گوشت کی بُو گھل گئی ہے اور دھواں آسمان کو یوں ڈھانپے ہوئے ہے جیسے کوئی سیاہ کفن زمین پر پھیلا دیا گیا ہو۔ ہر گلی، ہر کوچہ، ہر مکان اور ہر صحن ایک نوحہ بن گیا ہے۔ ایک طرف لپکتے شعلے مکانوں کو راکھ میں بدل رہے ہیں، دوسری طرف سسکتی زندگیوں کی چیخیں ہوا میں تحلیل ہو رہی ہیں۔ یہ وہ ساعت ہے جہاں وقت اپنی رفتار بھول گیا ہے، جہاں لمحے پتھرا گئے ہیں، جہاں سانس لینا بھی گناہ لگنے لگا ہے۔ ان سب کے بیچ میں ایک سوال ہر دل کو چیرتا ہوا نکلتا ہے کہ آخر یہ کیسا آندولن ہے جو احتجاج کے بجائے انسانیت کی قبروں پر کھڑا ہے؟
خون کی ندیوں میں بہتی ہوئی لاشیں، جلتے ہوئے درختوں کے سائے میں روتے ہوئے بچے، راکھ میں لپٹی ہوئی کتابیں اور کھلونوں کے ٹکڑے، یہ سب ایک ایسا منظرنامہ ہے جو کسی قیامت سے کم نہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے ملبے میں ہاتھ ڈالتے ہیں مگر ہاتھوں میں صرف خاک رہ جاتی ہے۔ ایک بوڑھی ماں اپنی جوان بیٹی کی لاش پر جھکی ہے، اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو بجھتے ہوئے شعلوں پر ٹپکتے ہیں مگر آگ نہیں بجھتی، زخم نہیں بھرتے، اور درد نہیں تھمتا۔ وہ ہر لمحہ اپنی بیٹی کو آواز دیتی ہے مگر جواب میں صرف خاموشی ہے، ایسی خاموشی جو کانوں کو بہرا اور دل کو چھلنی کر دے۔
نیپال کے شہروں اور دیہاتوں میں آج کوئی مکان محفوظ نہیں، کوئی صحن آباد نہیں، کوئی دل شاد نہیں۔ ہر طرف بے بسی کی تصویریں ہیں۔ ایک طرف نوجوان اپنے سروں میں پتھر باندھے سڑکوں پر گرتے ہیں، دوسری طرف بچے اپنے والدین کے لاشوں کے پاس بیٹھے آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جیسے کوئی فرشتہ آ کر ان کی بے کسی کا علاج کرے گا۔ لیکن فرشتے بھی خاموش ہیں، آسمان بھی اندھا ہے، زمین بھی بہری ہے۔ انسانیت روتی ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے لوگ اپنی زبانوں کو تالے لگا کر محض تماشا دیکھتے ہیں۔
یہ خونی آندولن صرف احتجاج کا نام نہیں، یہ تو وحشت کا دوسرا روپ ہے۔ یہ سیاست کے کھیت میں بہایا گیا لہو ہے، یہ اقتدار کے ایوانوں میں گونجنے والا سناٹا ہے، یہ اس قوم کی چیخ ہے جسے صدیوں تک دبایا گیا اور آج جب وہ اپنی زبان کھولنا چاہتی ہے تو اس کی زبان کاٹ دی گئی، اس کی آنکھیں پھوڑ دی گئیں، اس کے کان بند کر دیے گئے۔ نیپال کی گلیاں نوحہ خواں ہیں، کاٹھمانڈو کی فضائیں چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ یہاں انسانیت کو سولی پر لٹکایا گیا ہے۔
جلتے ہوئے مکانوں سے اٹھنے والا دھواں اب صرف لکڑی یا پتھر کا نہیں بلکہ امیدوں کا دھواں ہے۔ خواب جل گئے ہیں، امن جل گیا ہے، محبت جل گئی ہے۔ مائیں اپنے بچوں کو لپٹا کر بھاگتی ہیں مگر آگ کے شعلے ہر طرف سے ان کا تعاقب کرتے ہیں۔ باپ اپنی بیٹیوں کو بچانے کے لیے اپنی جان دیتا ہے مگر شعلے باپ اور بیٹی دونوں کو نگل جاتے ہیں۔ اس ملک کی گلیوں میں اب ہنسی نہیں سنائی دیتی، صرف سسکیاں ہیں۔ وہ بچے جو کبھی کھیل کے میدان میں دوڑتے تھے، آج ملبے میں کھلونے ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ لڑکیاں جو کبھی گیت گاتی تھیں، آج اپنی عصمت بچانے کے لیے سائے میں چھپ رہی ہیں۔
وقت کے اوراق پر خون سے لکھی جانے والی یہ کہانی آنے والی نسلوں کے دلوں کو دہلا دے گی۔ یہ آندولن کل کے بچوں کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ وہ بچے جو آج یتیم ہو گئے ہیں، کل اپنے دلوں میں انتقام کے بیج لے کر بڑے ہوں گے۔ وہ لڑکیاں جو آج جلتے مکانوں میں اپنی آنکھوں کے سامنے بھائیوں کو کھوتی ہیں، کل ان کی یادوں کے زخم کبھی نہیں بھر سکیں گے۔ یہ خون صرف آج نہیں بہا بلکہ یہ کل کے دنوں میں بھی بہے گا، یہ زخم صرف آج نہیں لگا بلکہ آنے والی نسلوں کے سینے میں بھی چھبے گا۔
دنیا کے بڑے بڑے دعوے دار ممالک جو امن کے نعرے لگاتے ہیں، جو انسانیت کے علمبردار کہلاتے ہیں، آج سب خاموش ہیں۔ ان کے کانوں تک چیخیں نہیں پہنچتیں، ان کی آنکھوں کو لاشیں نظر نہیں آتیں، ان کے دلوں کو بچوں کے آنسو نہیں چھوتے۔ وہ اپنے آرام دہ ایوانوں میں بیٹھ کر بیانات جاری کرتے ہیں اور نیپال کی جلتی گلیاں ان کے بیانوں پر ہنستی ہیں۔ انسانیت کی لاش جب کسی گلی میں پڑی ہو اور کوئی اسے دفن کرنے نہ آئے تو دنیا کی ترقی، دنیا کی تہذیب اور دنیا کی انسانیت سب جھوٹ بن جاتی ہے۔
نیپال کا خونی آندولن یہ بتا رہا ہے کہ جب سیاست انسان پر حاوی ہو جائے تو پھر صرف خون بہتا ہے۔ جب اقتدار انسانیت پر غالب آ جائے تو پھر معصوم زندگیاں مٹتی ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جسے دیکھنے کے بعد بھی دنیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ ہر گھر راکھ ہے، ہر دل زخمی ہے اور ہر آنکھ نم ہے۔ لوگ اب خواب دیکھنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ خواب بھی جل جاتے ہیں۔ وہ زمین جو کبھی ہریالی کے لیے پہچانی جاتی تھی، آج خون کے دھبوں سے سرخ ہو گئی ہے۔
ایک دن وقت کا قلم اس سب کو تاریخ میں لکھ دے گا۔ آنے والے سالوں میں جب کتابیں اس دور کا ذکر کریں گی تو ہر لفظ خون سے تر ہوگا۔ نیپال کی سرزمین پر بہنے والا ہر قطرہ ایک چیخ بن کر تاریخ کے اوراق پر درج ہوگا۔ اور جب کوئی بچہ وہ تاریخ پڑھے گا تو اس کے دل سے سوال نکلے گا کہ آخر یہ انسانیت کس جرم میں قتل کی گئی؟ مگر جواب دینے کے لیے کوئی باقی نہ ہوگا۔
آندولن کی لپکتی آگ سب کچھ کھا گئی ہے۔ مکان، کھیت، خواب، یادیں، محبتیں، سب کچھ۔ صرف مایوسی باقی رہ گئی ہے، صرف نوحہ باقی رہ گیا ہے، صرف ماتم باقی رہ گیا ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جسے لکھنے والے کے ہاتھ کانپتے ہیں، پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور سننے والے کے دل پر بوجھ اتر آتا ہے۔ یہ نیپال کی تاریخ کا سب سے بھیانک باب ہے۔
شعلے بجھ جائیں گے مگر ان کی تپش ہمیشہ رہے گی۔ دھواں چھٹ جائے گا مگر اس کی بُو ہمیشہ محسوس ہوگی۔ لاشیں دفن ہو جائیں گی مگر ان کی چیخیں صدیوں تک سنائی دیتی رہیں گی۔ یہ وہ المیہ ہے جسے کوئی وقت، کوئی تاریخ، کوئی نسل مٹا نہیں سکے گی۔ یہ آندولن ہمیشہ کے لیے انسانیت کی کتاب پر ایک سیاہ داغ رہے گا، ایک ایسا داغ جسے بارش بھی صاف نہیں کر سکتی، جسے وقت بھی دھو نہیں سکتا، جسے آنسو بھی مٹا نہیں سکتے۔
نیپال کا خونی آندولن ایک ایسا نوحہ ہے جس کی بازگشت پوری دنیا میں گونجنی چاہیے مگر افسوس کہ دنیا بہری ہو چکی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ہر دل کو لرز جانا چاہیے، ہر آنکھ کو بھر آنا چاہیے، ہر زبان کو چیخ اٹھنا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ لوگ محض تماشائی ہیں، اور تماشائیوں کے چہروں پر مسکراہٹ ہے جبکہ نیپال کی سرزمین پر ہر طرف موت کا رقص جاری ہے۔
یہی ہے وہ داستان جسے ہم سب کو سننا ہوگا، سمجھنا ہوگا اور یاد رکھنا ہوگا کہ جب انسانیت مر جائے تو پھر زمین پر صرف راکھ بچتی ہے، صرف خون بچتا ہے، صرف سسکیاں بچتی ہیں۔ اور یہی سب کچھ آج نیپال میں ہو رہا ہے --