مولاناحاجی علیم اللہ قادری ایک مثالی شخصیت
شان پریہار پروفیسر محمد گوہر صدیقی
سابق ضلع پارشد براہی بلاک پریہار
ضلع سیتامڑھی صوبہ بہار
9470038099
*بچپن سے سناکرتا تھا کسی گاؤں یا شہر کو کہا جاتا تھا مدینۃ العلماء یا پھر کسی گاؤں کے ساتھ لکھا جاتا تھا مدینۃ العلماء ،چونکہ یہ لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے "مدینة" کے معنی شہر ، اور "العلماء" کے معنی علم والے افراد۔ اس طرح "مدینۃ العلماء" کے معنی علم والوں کا شہرہوا۔
جی! پہلے سنتاتھا،اب جان بھی گیا،دیکھ بھی لیا،مشاہدہ بھی کیا اور اس کے معنی و مطلب کو بھی سمجھ گیا۔
ہمارے صوبہ بہار کے مشہور ضلع سیتامڑھی کی دو اہم بستی ( بوکھرا بلاک کےپوکھریرا شریف و پریہار بلاک کے باڑا شریف) کو مدینۃ العلماء ہونے کا شرف حاصل ہے,مگر تاریخ میں بہت کم ہی ایسی مثال ملتی ہوگی کہ جس کا پورا گھرانہ مثال مدینۃ العلماء ہو ،بلا شبہ نمونہ اسلاف،استاذ الاساتذہ حضرت مولانا الحاج علیم اللہ قادری علیہ الرحمہ کی ذات گرامی ایسی ہے جنہوں نے اپنی علمی بصیرت اور فکر و تدبر ،محنت و مشقت سےاپنے پورا کنبہ بیٹا بیٹی ،پوتا پوتی،نواسہ نواسی ،بھتیجوں کو علم دین کی دولت سے مالا مال فرمایاحتی کہ اپنی بچیوں کے رشتہ ازدواج کے لیے عالم دین لڑکے کو ہی ترجیح دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج حضرت کے گھرانہ کو مدینۃ العلماء ہونے کا فخر حاصل ہے۔ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا حاجی محمد علیم اللّہ قادری علیہ الرحمہ کی پیدائش 04 جمادی الآخرہ 1371ہجری مطابق
01 مارچ 1952ء کو مقام
سوتیہارا ٹولہ، تھانہ پریہار، بلاک پریہار ، ضلع سیتامڑھی، صوبہ بہار میں ہوئی تھی۔
ابتدائی تعلیم قرب و جوار کے مدارس میں حاصل کرنے کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مدرسہ اشرفیہ اظہار العلوم، ماچھی پور،بھاگل پور،بہار میں داخلہ لیا۔ وہاں کے اساتذہ کرام سے آپ نے خوب اکتساب فیض کیا،بالخصوص امام النحو و الصرف حضرت علامہ سلیمان بھاگل پوری علیہ الرحمۃ والرضوان کی بارگاہ سے خوب خوشہ چینی فرمائی اور نحو، صرف، کلام، فقہ، اصول فقہ، حدیث، اصول حدیث وغیرہ
علوم و فنون میں خاصا درک حاصل کیا۔ تعلیمی میدان میں آپ کے ذوق و شوق اور محنت و لگن کو دیکھ کر استاذ مکرم علامہ سلیمان بھاگل پوری علیہ الرحمہ نے آپ کو اپنا خاص اور چہیتا شاگرد بنالیا۔آپ استاذ مکرم کے اس قدر معتمد تھے کہ استاذ مکرم نے گھرسے لےکر مدرسہ کے آرام گاہ تک کی ساری ذمہ داریاں آپ کے سپرد کردیں۔ استاذ مکرم کے شب وروز کے اوراد و وظائف اور معمولات و مصروفیات آپ کی نگاہوں کے سامنے تھے اور آپ بڑی دل چسپی سے ان احوال و کوائف کو بیان فرماتے تھے۔
حضرت علامہ سلیمان بھاگل پوری علیہ الرحمہ آپ کے علمی ذوق اور آپ سے محبت وشفقت کی بنا پر ان مناظروں میں بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے، جن میں حضور حافظ ملت اور مجاہد ملت علیہما الرحمۃ جیسی عظیم شخصیات کی شرکت ہوا کرتی تھی۔ آپ ان اکابر علما کی زیارت و لقا کے ساتھ ان کے علمی افادات سے بھی مستفید ہوتے اور ان کی نیک دعاؤں سے بہرہ مند ہوتے۔
آپ کو حضور تاج الشریعہ علامہ محمد اختر رضا خان قادری ازہری قدس سرہ العزیز سے بیعت و ارادت کا شرف حاصل تھا۔
اکابر علما اور اساتذہ کرام سے آپ نے علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی خوب سیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی اسلاف و اکابر کی آئینہ دار تھی۔ کردار و عمل، گفتار و رفتار اور عادات و اطوار سے اسلاف کی صاف جھلک نظر آتی تھی۔ مزاج میں سادگی اور نرمی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔کبر و نخوت، نام و نمود اور دنیا داری سے کوسوں دور تھے۔۔کم گوئی آپ کا شیوہ تھا۔ علم دوستی اور اصاغر نوازی آپ کا نمایاں وصف تھا۔
عربی، فارسی، اردو، ہندی، ریاضی وغیرہ میں دسترس حاصل تھا۔
بعد فراغت آپ نے مختلف مدارس میں بحیثیتِ مدرس و صدر المدرسین تدریسی خدمات انجام دیے۔ پھر اخیر میں مدرسہ انوار العلوم، کما سوتیہارا، سیتامڑھی میں آپ کا تقرر عمل میں آیا اور آپ نے یہاں سینیر استاذ کی حیثیت سے ایک طویل مدت تک تشنگانِ علم و فضل کی تشنہ لبی کا خوب درماں کیا۔ علاقے کے اکثر علما کا سلسلۂ تلمذ کسی نا کسی طرح آپ تک پہنچتا ہے۔آپ کے شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔تدریسی،تبلیغی اور تقریری ذمہ داریوں کے باوجود اپنی بستی سوتیہارا ٹولہ کی مسجد میں منصبِ امامت کے اہم فریضہ کو فی سبیل اللّٰہ بحسن وخوبی انجام دیا اور تاحین حیات اس منصب پر فائز رہے۔ ساتھ ہی اپنے ادارہ جامعۃ الصالحات، قادری نگر سوتیہارا کے سربراہ اعلیٰ بھی تھے۔ آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی انتھک کاوشوں سے اپنے گھر کو ایک علمی گلشن بنا دیا۔ تمام صاحب زادے، پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں سب علم دین کی عظیم دولت سے آراستہ
ہیں۔ نئے رشتوں کے انتخاب میں بھی ہمیشہ علم و فضل کو ترجیح دیتے تھے۔ یہی وجہ سے آپ کا پورا گھرانا اور سارے رشتہ دار سب علمی و دینی ماحول سے وابستہ ہیں۔
آپ کے جس نمایاں وصف نے فقیر کو حد درجہ متاثر کیا وہ ہے نماز کو ان کے وقت پر ادا کرنا۔ نماز کی ایسی پابندی تھی کہ موسم کی کوئی حدت، شدت، سردی اور گرمی دخل انداز نہیں ہوتی اور نہ ہی مرض وضعف و نقاہت ہی مخل و مانع ہو پاتی۔ سخت کڑاکے کی سردی ہو یا تیز تپش والی گرمی، سخت آندھی چلے یا موسلادھار مسلسل بارش ہو،کثیر کاموں کی پریشان کن مصروفیات ہوں یا اعراس و تقریبات کی ہنگامہ خیز بھیڑ بھاڑ، ہر حال میں نمازوں کو ان کے وقتوں پر ادا کرتے اور ہر صبح بلا ناغہ تلاوتِ قرآنِ مجید کیا کرتے۔
آپ کی اولادوں ورشتہ داروں میں حضرت مولانا حافظ وقاری محمد غلام جیلانی قادری ، حضرت حافظ وقاری غلام صمدانی قادری ،حضرت علامہ مفتی محمد غلام زرقانی قادری ازہری پرنسپل الجامعۃ الاسلامیہ رضا العلوم کنہواں ، مولانا حافظ وقاری محمد محمود اشرف قادری مصباحی ،مولانا حافظ وقاری محبوب اشرف امجدی، حافظ وقاری قمر الزماں ،مولانا نور الزماں زمن مرکزی دہلی یونیورسٹی، مسعود اشرف قادری، مخدوم اشرف قادری، ابو ہریرہ قادری، ابو حذیفہ قادری،حافظ و قاری غلام محمد رضوی ،حافظ وقاری صدر الزماں ،حافظ و قاری أحمد رضا ،مولانا نوشاد عالم مںظری،حافظ و قاری کلام الدین ،مولانا عالم گیر مصباحی صاحبان اس وقت خدمت دین متین و تحصیل علم دین میں کافی سرگرم عمل ہیں -
12 رمضان المبارک 1446ھ/ مطابق 13 مارچ 2025ء بروز جمعرات صبح تقریباً 07 بج کر 15 منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہااور 12 رمضان المبارک 1446ھ/ مطابق 13 مارچ 2025ء شبِ جمعہ بعد نماز تراویح تقریباً 10 بجے شب میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ نمازِ جنازہ آپ کے بڑے صاحب زادے طبیب ملت حضرت حافظ و قاری مولانا غلام جیلانی قادری صاحب نے پڑھائی۔ جنازے میں علما و مشائخ اور عوام الناس کی ایک بڑی تعداد تھی، جو ان کی مقبولیت کو واضح کرتی ہے۔
آپ کو اپنے گاؤں کے ہی قبرستان میں سپردخاک کیا گیا -
حضور سے میرے گہرے روابط تھے اور آج ان کی اولادوں سے بھی بڑی محبت اور لگاؤ قائم ہے؛ ان شاءاللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہےگا۔
میں حضور کی تربت پر گلہائے عقیدت و محبت پیش کرتا ہوں۔