Oct 23, 2025 04:47 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
ملتِ اسلامیہ اور قیادت کا خلا زوال کی کہانی اور عروج کی امید:

ملتِ اسلامیہ اور قیادت کا خلا زوال کی کہانی اور عروج کی امید:

16 Oct 2025
1 min read

ملتِ اسلامیہ اور قیادت کا خلا زوال کی کہانی اور عروج کی امید:

ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی

(تاراپٹی،دھنوشا،نیپال)

خیز  و  بیدار شواے غافل دلا

وقتِ فرصت می‌رود چون آبِ لا

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی قوم کی زندگی کا اصل سرمایہ اس کی قیادت ہے۔ قیادت کے بغیر قوم ایسا قافلہ ہے جو صحرا میں بھٹک جائے، ایسا جسم ہے جس سے روح نکل گئی ہو، یا ایسی کشتی ہے جس کا ناخدا ڈوب گیا ہو۔ ملتِ اسلامیہ کا حال بھی آج کچھ ایسا ہی ہے۔ تعداد میں کروڑوں ہونے کے باوجود، ہم بکھرے ہوئے ریت کے ذروں کی مانند ہیں کیونکہ ہمارے درمیان وہ ایک نڈر اور بے باک قائد موجود نہیں جو ظلم کی آندھی کے سامنے ڈٹ جائے اور امت کے لیے ڈھال بن سکے۔ یہ قیادت کا فقدان ہی ہے جس نے مسلمانوں کو کمزور کیا، ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا اور دشمن کو موقع دیا کہ وہ ان پر ہر محاذ پر غالب آ سکے۔ نہ ہمارے پاس حقیقی مذہبی قیادت ہے اور نہ سیاسی۔ مذہبی قیادت کا حال یہ ہے کہ اہلِ سنت خانقاہوں اور اداروں میں بٹے ہوئے ہیں، ہر کوئی مرکزیت کا دعویدار ہے اور فتویٰ بازی کی کثرت نے امت کو مزید منتشر کر دیا ہے۔ سیاسی قیادت کا تو اللہ ہی حافظ ہے؛ اکثر مسلم رہنما قومی مفاد کے بجائے ذاتی منفعت اور دوسروں کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں۔ اہلِ علم سیاست کو گناہ سمجھتے ہیں اور میدان خالی چھوڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ملت ایک ایسے خلا میں گرفتار ہے جس نے اس کی طاقت کو زوال میں بدل دیا ہے۔

ماضی کے روشن چراغ:

ہمارا ماضی ایسے روشن چراغوں سے بھرا ہوا ہے جنہوں نے ظلم کے مقابلے میں ڈٹ کر قیادت کا حق ادا کیا۔ مفتی اعظم ہند، مجاہدِ ملت، مجاہدِ دوراں اور ان جیسے بے شمار رہنما امت کے ماتھے کا جھومر تھے۔ ان کے عزم و استقلال نے ملت کو جرات دی، غلامی کی زنجیریں توڑیں اور ظالم طاقتوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا۔ مگر آج ملت انہی چراغوں کو ترس رہی ہے، گویا اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن ڈھونڈ رہی ہو۔

قرآن کا رہنما اصول اور طالوت کا واقعہ:

اسلام میں قیادت کا معیار دولت و جاگیر اور مال و زر کی کثرت نہیں بلکہ جسمانی و دماغی صلاحیت اور روحانی و اخلاقی صالحیت ہے۔ قرآن کریم میں حضرت سموئیل نبی علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ اس اصول کی بہترین مثال ہے۔ بنی اسرائیل نے جب ایک بادشاہ کی تقرری کا مطالبہ کیا تو اللہ نے طالوت کو چنا، حالانکہ وہ کسی بڑے قبیلے یا مالدار گھرانے سے نہ تھے۔ ان کا انتخاب ان کی صلاحیت، عزم اور استقلال کی بنیاد پر ہوا۔طالوت نے اپنی قوم کو جالوت کے خلاف جہاد پر ابھارا۔ ابتدا میں کمزور دل افراد نے کہا: "لَا طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ"، مگر باہمت مومنین نے بلند آواز سے اعلان کیا: "کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ"۔ پھر انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی: "رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ"۔ یہی وہ دعا تھی جس نے کمزور لشکر کو طاقتور فوج پر غالب کر دیا۔ یہ واقعہ قیامت تک آنے والی امتوں کو سبق دیتا ہے کہ قیادت کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو ذاتی مفاد سے بلند، قربانی کے جذبے سے معمور اور اللہ پر توکل کرنے والا ہو۔

عالمی مفکرین اور قیادت کی معنویت:

دنیا کے بڑے مفکرین، فلسفی اور دانشور اس حقیقت پر متفق ہیں کہ قوموں کی زندگی اور موت کا دار و مدار ان کی قیادت پر ہوتا ہے۔ قیادت ہی وہ قوتِ محرکہ ہے جو اقوام کو بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے یا زوال کے گڑھے میں دھکیل دیتی ہے۔ تاریخِ انسانی اس امر کی گواہ ہے کہ جب کسی قوم کو بصیرت، اخلاص، اور دوراندیشی رکھنے والی قیادت میسر آئی تو اس نے اندھیروں میں بھی راستے روشن کیے، مگر جب قیادت کمزور، خودغرض اور مصلحت پسند ثابت ہوئی تو وہی قوم اپنی قوت کے باوجود بکھر گئی۔آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ قیادت ہی وہ چراغ ہے جو قوموں کے شعور کو منور کرتا ہے اور جب یہ چراغ بجھ جاتا ہے تو قومیں تاریکی میں بھٹکنے لگتی ہیں۔قیادت کے موضوع پر دنیا کے بڑے مفکرین اور دانشوروں نے ایسی صداقتیں بیان کی ہیں جو آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔

شعرا  اور قیادت:

شعراء ہمیشہ قوم کے ضمیر کی آواز رہے ہیں۔ جب قیادت کا بحران امت کو اندھیروں میں ڈبو دیتا ہے تو شاعر اپنی صدائے درد سے ملت کو جگاتے ہیں، امید کا دیا جلاتے ہیں اور آنےوالے کل کی کرن دکھاتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں ایسے نغمہ گر موجود ہیں جنہوں نے ملت کو خوابِ غفلت سے جھنجھوڑنے اور قیادت کی راہ دکھانے میں اپنی شاعری کو چراغِ راہ بنایا۔حالی و اقبال کو ان کےبہت سے اشعار کی روشنی میں اس باب میں پیش کیا جاسکتا ہے اور یہ ایسی صداقت ہے جسے اہل فکر و خرد جھٹلا نہیں سکتے ۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ جب ہم شعر و ادب کی قیادت ساز روایت کی بات کرتے ہیں تو اس میں ہر دور کے شاعر شامل نہیں ہو جاتے۔ افسوس کہ آج کے زمانے میں کچھ ایسے شعرا بھی ہیں جنہوں نے شاعری کے تقدس کو کھیل تماشہ بنا دیا ہے۔ وہ محفلوں میں کمر اور سینہ ہلا کر سامعین کو لبھانے کو ہی فن سمجھتے ہیں، رقاصائی کیفیت کے ساتھ محفلوں کے احترام کو پامال کرتے ہیں، اور ان کے اشعار میں نہ کوئی فکری جان ہوتی ہے نہ بیداری کا پیغام۔لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ آج بھی ہمارے پاس ایسے سنجیدہ اور فکری شعرا موجود ہیں جن کے کلام میں دلوں کو جھنجھوڑنے والی للکار ہے، قوم کو خوابِ غفلت سے جگانے کی صدا ہے، اور ملت کی بقا و بیداری کا پیغام ہے۔ یہی وہ شعرا ہیں جو حالی و اقبال کی روایت کو آگے بڑھاتے ہیں اور جن کی تحریریں آج بھی قیادت کے خلا کو پر کرنے کے لیے فکری رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

نیپال کی دینی قیادت کا منظرنامہ:

نیپال کی مذہبی و سماجی فضا پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو یہاں بھی ملتِ اسلامیہ کئی حصوں میں منقسم نظر آتی ہے۔ اہلِ سنت و جماعت کے علما و مشائخ اور عوام خود اپنے اندر متعدد گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں — ہر حلقہ اپنا الگ نظام رکھتا ہے؛ مفتی الگ، قاضی الگ، ادارۂ شرعیہ الگ۔ حتیٰ کہ صرف دھنوشا اور مہوتری اضلاع کی بات کی جائے تو  یہاں تین تین ’’قاضی نیپال‘‘ اور ’’قاضی القضاۃ‘‘ کے القاب رائج ہیں، جس سے نیچے کے قاضیوں کی کثرت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ صورتِ حال امت کے اتحاد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔

اگر ہمارے نوجوان علما منصفانہ مزاج اور غیر جانب دار فکر لے کر میدانِ عمل میں اتریں  اور گروہی و شخصی وابستگیوں سے بلند ہوکر ملت کے اجتماعی مفاد کے لیے سوچیں، تو نہ صرف اتحاد ممکن ہے بلکہ قیادت کا ایک نیا باب بھی رقم ہو سکتا ہے۔ لیکن افسوس کہ اکثر نوجوان علما بھی اختلافی موشگافیوں،گروہی جھگڑوں اور عقیدتی محاذ آرائیوں میں الجھ کر وہی روش اختیار کر چکے ہیں جس نے بڑوں کو جدا کر دیا تھا— بلکہ بعض تو انہی گروہی محلوں کے مکین بن چکے ہیں، اِلّا ما شاءَ اللہ۔

یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ یہاں مسلکی وابستگی سے مراد وہ حق پر مبنی وابستگی ہے جو مسلکِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کی راہِ اعتدال اور کتاب و سنت کی صحیح تعبیر سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر تمام اہلِ سنت اپنے قبلۂ فکر و عمل کو اسی مسلکِ اعلیٰ حضرت کے مطابق درست کر لیں اور اسی پر متحد ہو جائیں، تو بہت حد تک اتفاق، اتحاد اور قیادت کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔

علما و مشائخ نیپال کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ اپنی تحریر و تقریر میں توازن اور اعتدال کو شعار بنائیں۔ سلفِ صالحین کے وہ افکار و نظریات جن پر آج بھی بآسانی عمل ممکن ہے، انہیں عام کریں، نہ کہ ان کے مخالف بیانات دے کر علما و عوام میں انتشار پیدا کریں۔ ہر مسئلے کو غیر ضروری طور پر نہ چھیڑیں اور نہ اپنی طرف سے اس پر لیپا پوتی کریں۔ جدید فقہی مسائل میں اختلاف ممکن ہے، مگر اس کے لیے علم و تحقیق کا وافر ذخیرہ اور زمان و مکان کی گہری سمجھ درکار ہے۔ اس لیے ہر مقام پر ’’تحقیق‘‘ کے نام پر موشگافی نہ کی جائے اور نہ عوام و علما کو بے جا پیچیدگیوں میں الجھایا جائے۔ یہی طرزِ فکر نیپال کی ملت کو اتحاد و قیادت کی طرف لے جا سکتا ہے۔

لائحۂ عمل — ملت کے احیاء کا راستہ:

۱۔ کردار سازی اور عملی قیادت:     قیادت کی بنیاد محض تقریری جوش و خروش پر نہیں بلکہ کردار کی پختگی پر قائم ہوتی ہے۔ ہمارے مدارس، خانقاہیں اور جامعات ایسے افراد تیار کریں جو علم کے ساتھ کردار میں بھی بلند ہوں۔ زبان سے دین کی بات کرنے کے بجائے وہ اپنی عملی زندگی سے دین کی جھلک پیش کریں۔ سچائی، دیانت، اخلاص، قربانی اور خدمت کے وہ اوصاف جنہیں نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ میں پروان چڑھایا، آج کے نوجوانوں میں زندہ کرنا ہی اصل قیادت کی تیاری ہے۔

۲۔ اجتماعی بیداری اور اتحاد :امت کو بیداری کی ضرورت ہے کہ وہ آپسی و گروہی جھگڑوں، لسانی تعصبات اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ایک امت کے طور پر سوچے۔ قیادت کے بحران کا سب

سے بڑا سبب یہی ہے کہ ہم منتشر ہیں۔ اگر ہر خطیب، ہر امام، ہر دانشور اور ہر ادارہ یہ عہد کر لے کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں نہیں بلکہ امت کے حق میں کھڑا ہوگا، تو اتحاد کی فضا پیدا ہوگی۔ اتحاد کے بغیر قیادت کا خواب ادھورا ہے۔ قرآن نے بھی فرمایا: “وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوا” (سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو)۔

۳۔ علم و تربیت کا احیاء : ملت کو ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو صرف ڈگریاں نہ بانٹیں بلکہ کردار تراشیں۔ جہاں دینی اور عصری علوم ایک دوسرے کے معاون ہوں، جہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا نظام بھی مضبوط ہو۔ قیادت علم سے جنم لیتی ہے، مگر وہ علم جو حکمت اور بصیرت سے معمور ہو۔ اگر ہمارے نوجوان صرف ملازمت کی نیت سے پڑھتے رہیں گے اور کردار و بصیرت سے خالی ہوں گے تو قیادت کبھی جنم نہ لے گی۔ اس کے لیے نصاب، اساتذہ اور تعلیمی اداروں کو نئے سرے سے اس سوچ پر استوار کرنا ہوگا کہ وہ صرف عالم یا پروفیشنل نہ بنائیں بلکہ قائد بھی پیدا کریں۔

۴۔ اہلِ خانقاہ کا مثبت کردار:      اہلِ خانقاہ کا فریضہ صرف چلہ کشی اور ذکر و اذکار اور اعراس وتقریبات چادر و گاگر تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ خانقاہیں کبھی روحانی فیضان کے ساتھ ساتھ علمی و عملی قیادت کا گہوارہ بھی رہی ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نواز، حضرت نظام الدین اولیاءاور دیگر اکابرین نے خانقاہ کو سماجی خدمت، تعلیم و تربیت اور امت کی اصلاح کا مرکز بنایا۔ آج بھی اگر خانقاہیں مرکزیت کے دعووں، فتوٰی بازی اور رسومات بیجا کی نذر ہونے کے بجائے امت کے اتحاد، اصلاحِ معاشرہ اور قیادت سازی کا فریضہ انجام دیں، تو قیادت کے خلا کو پر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔

۵۔ خودی اور اعتماد کی بحالی:    ملت کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ اس نے اپنی طاقت کو بھلا دیا ہے۔ وہ اپنے ہی ماضی پر شرمندہ اور دوسروں کے سہارے پر مطمئن ہے۔ اقبال نے اسی کیفیت کے علاج کے لیے "خودی" کا پیغام دیا تھا۔ جب تک مسلمان اپنی عزت و وقار کے احساس سے خالی رہیں گے، ان پر قیادت مسلط کی جاتی رہے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر فرد اپنی انفرادی خودی کو پہچانے اور پھر اجتماعی خودی کی تعمیر کرے۔ خوداعتمادی کے بغیر کوئی قیادت کامیاب نہیں ہو سکتی۔۶۔ قربانی اور ایثار کی روش:

قیادت محض اقتدار یا شہرت کا نام نہیں، بلکہ ایک عظیم امتحان اور مسلسل قربانی کا مطالبہ کرتی ہے۔ سچی قیادت ہمیشہ ایثار، خلوص اور خدمت کے جذبے سے جنم لیتی ہے۔ جس کے دل میں اپنی قوم کے لیے درد نہ ہو، جو اپنے آرام، مال اور مفاد کو امت کی ضرورت پر قربان نہ کرے، وہ  قیادت کا اہل نہیں ہوسکتا ۔ تاریخ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ قیادت ہمیشہ قربانی کی کوکھ سے پیدا ہوئی ہے۔ جنہوں نے اپنی خواہشات کو امت کے مفاد پر قربان کیا، اللہ نے انہیں عزت و بقا عطا کی۔ یہی وہ جوہر ہے جس نے صحابۂ کرام کو دنیا کی کامیاب ترین جماعت بنا دیا۔ انہوں نے قیادت کو غنیمت نہیں بلکہ امانت سمجھا؛ اقتدار کو تسلط نہیں بلکہ خدمت کا وسیلہ بنایا۔

۷۔ جدید ذرائع اور میڈیا کا استعمال:

یہ دور ابلاغ کا ہے، جہاں میڈیا ہی قوموں کے بیانیے کو طے کرتا ہے۔ اگر قیادت جدید ذرائع ابلاغ سے محروم رہے تو اس کی آواز کبھی عوام تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے ملت کو میڈیا کے میدان میں اپنے باصلاحیت افراد کو آگے لانا ہوگا، تاکہ سچائی کا پیغام دنیا تک پہنچے اور امت کے مسائل دنیا کے سامنے مؤثر انداز میں رکھے جا سکیں۔

 امید کی کرن:

ملتِ اسلامیہ آج قیادت کے شدید بحران اور فکری انتشار سے دوچار ہے۔ ہر سمت بے سمتی اور بداعتمادی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مگر یہ محرومی دائمی نہیں، یہ صرف ایک آزمائش ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی امت نے اپنے اندر خلوص کو زندہ کیا، قربانی کو شعار بنایا اور اپنی صفوں کو متحد کیا، اللہ نے اسے پھر سے قیادت اور سیادت کے منصب پر فائز کیا۔بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے قلوب کو تقویٰ سے آراستہ کریں، اپنے کردار کو قرآن و سنت کی روشنی میں بلند کریں، خانقاہوں اور مدارس کو حقیقی معنوں میں تربیتِ روح و عقل اور اصلاحِ کردار کا مرکز بنائیں اور اپنی خودی کو اس درجے پر پہنچائیں کہ ہم ذاتی منفعت پر قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ جب یہ تبدیلی آئے گی تو امت کو وہ قائدین نصیب ہوں گے جن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی  جرات، نبی آخر الزماں کی بصیرت، فاروقی عدل، عثمانی حیا اور صدیقی اخلاص کی خوشبو ہوگی۔ ایسے قائد جو نہ صرف امت کے زخموں پر مرہم رکھیں گے بلکہ اسے ؎

ایک بار پھر دنیا کی قیادت کے مقام تک پہنچائیں گے۔اقبال کہتے ہیں             

نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

ایسا ہرگز نہیں کہ ہماری ملت میں ایسے رجالِ کار مفقود ہوں جن کے اندر قیادت کا وصف اور قوم و ملت کی باگ ڈور سنبھالنے کی صلاحیت نہ ہو۔ نہیں، بلکہ ہمارے پاس ایسے گوہرِ نایاب موجود ہیں جو اخلاص و وفا کے چراغ ہیں، جن کی فکری رفعت اور عملی بصیرت ملت کے سفینۂ حیات کو بھنور سے نکال کر منزلِ مقصود تک پہنچا سکتی ہے۔ ایسے افراد جن کی قیادت کو تسلیم کر لیا جائے تو ہماری منتشر قوم پھر سے صف بستہ ہو کر ایک جھنڈے تلے آ سکتی ہے؛ ہمیں نہ صرف چلنے کا سلیقہ مل سکتا ہے بلکہ دنیا کی دیگر قوموں کے سامنے ہم سر اٹھا کر، سینہ تان کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ نہیں کہ قیادت کے اہل موجود نہیں، بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ ہم میں قیادت کو تسلیم کرنے کا ظرف ناپید ہے۔ ہماری نگاہوں پر تعصب کی عینک چڑھی ہوئی ہے، دلوں میں کینہ و حسد کے کانٹے چبھ رہے ہیں اور خانقاہی و گروہی تقسیم نے ہمیں اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیا ہے۔ اگر ہم تعصب کی اس چادر خاردار کو چاک کر ڈالیں، دلوں کی کدورتوں کو محبت و اخوت کی خوشبو سے دھو ڈالیں اور باہمی ایثار و اتحاد کی دولت کو اپنا سرمایہ بنا لیں تو یقین جانیے کہ یہی ملت، جو آج منتشر اور پژمردہ نظر آتی ہے، کل پھر سے قیادت و سیادت کے تاج کی حقدار بن سکتی ہے۔

ملت کے یہ سپوت آج بھی موجود ہیں، مگر ان کی آواز صدا بہ صحرا بن کر رہ جاتی ہے، کیونکہ ہمارے دل قیادت کے انوار کو قبول کرنے کے لیے کشادگی نہیں رکھتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر وسعتِ قلب پیدا کریں، اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ملت کی اجتماعیت کے لیے سینے کھول دیں اور اپنے ان ہیرے نما افراد کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاکہ وہ ہماری تاریخ کے دھندلے اور پژمردہ اوراق پر پھر سے عزیمت و سربلندی کی روشن تحریریں ثبت کر سکیں۔

اے ربِ کائنات! ہماری ملت پر اپنی رحمتوں کی بارش فرما، ہمارے دلوں سے کینہ و حسد کو مٹا دے، ہمیں اخلاص و اتحاد کی دولت سے نواز۔اے اللہ! ہمیں اپنے دین کا سچا خادم، اپنی امت کا وفادار اور اپنی قیادت کا فرمانبردار بنا دے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383