Oct 23, 2025 07:38 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
دین و شریعت پرستی… یا شخصیت پرستی؟ قوم کس راہ پرجائے؟

دین و شریعت پرستی… یا شخصیت پرستی؟ قوم کس راہ پرجائے؟

29 Jul 2025
1 min read

 دین و شریعت پرستی… یا شخصیت پرستی؟ قوم کس راہ پرجائے؟

 تحریر: جمال اختر خان نظامی اشرفی

 سربراہِ اعلیٰ: جامعہ امام اعظم ابو حنیفہ،

 پیپرمل روڈ، یوسف نگر، ڈونگرا، واپی، گجرات 9918584292 

امتِ مسلمہ ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ جس امت کو قیادت و ہدایت کا مینار بننا تھا، وہ آج فکری انتشار، باہمی رنجشوں، اور خودساختہ رہبروں کے چنگل میں جکڑی ہوئی ہے۔ دینی اداروں، خانقاہوں، اور مجالسِ وعظ کا منظر نامہ دیکھیں تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔

آج دین کی اصل روح، یعنی شریعت پرستی، قرآن و سنت کی پیروی، نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا اتباع — کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ اس کی جگہ شخصیت پرستی، گروہ پرستی، اور آج کی بگڑی ہوئی پیر پرستی نے لے لی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف افسوسناک ہے، بلکہ امت کے لیے زوال اور ذلت کا سبب بھی بنتی جا رہی ہے۔

دین و شریعت پرستی: اصل کامیابی کا راستہ

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں واضح فرمایا: > "فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ" (آل عمران: 31) ترجمہ: ’’تم کہو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘ یعنی نجات، محبتِ الٰہی اور کامیابی صرف اور صرف نبی اکرم ﷺ کی اتباع اور دینِ خالص پر چلنے میں ہے۔ شریعت وہ معیار ہے جو حق و باطل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ جو چیز قرآن و سنت کے مطابق ہے، وہی حق ہے، اور جو اس کے خلاف ہے، وہ خواہ کسی بڑے عالم، پیر یا خطیب کی طرف منسوب ہو، وہ مردود ہے۔

شخصیت پرستی: ایک خطرناک فتنہ آج ہم جس المیے کا شکار ہیں وہ شخصیت پرستی ہے۔ کسی ایک بزرگ، خطیب یا پیر کی بات کو حرفِ آخر سمجھ لینا، چاہے وہ شریعت سے متصادم ہی کیوں نہ ہو، امت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا: > "اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ" (التوبہ: 31) ترجمہ: "انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔" جب حضرت عدی بن حاتمؓ نے عرض کیا کہ ہم نے تو انہیں رب نہیں بنایا تھا، تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

> "کیا وہ تمہارے لیے حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہیں کرتے تھے، اور تم ان کی بات مان لیتے تھے؟" عرض کیا: "جی ہاں!" فرمایا: "یہی تو ان کو رب بنانا ہے!" (ترمذی شریف) یہ حدیث آج کے ماحول پر صادق آتی ہے، جب کسی شخصیت کی ہر بات کو دین سمجھ کر مانا جاتا ہے، چاہے وہ قرآن و حدیث کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ شخصیت نہیں، اصول دیکھو!

اسلام کا اصول یہ ہے: >

 "الحق لا يعرف بالرجال، اعرف الحق تعرف أهله" ترجمہ: "حق لوگوں سے نہیں پہچانا جاتا، پہلے حق کو پہچانو، پھر اہلِ حق کو پہچانو۔" آج حال یہ ہے کہ ہم پہلے شخصیت کو دیکھتے ہیں، پھر اس کے مطابق حق و باطل کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارا "اپنا" ہے تو غلطی بھی کر لے تو اس کی تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اور اگر کوئی "دوسرے" گروہ کا ہے، تو حق بات بھی کہے تو ہم اسے رد کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔

خانقاہیں، مدارس اور منبر: مقصد کیا تھا؟ 

خانقاہیں روحانی تربیت کی جگہ تھیں، جہاں نفس کی اصلاح، اخلاق کی بلندی، اور اخلاص کی تعلیم دی جاتی تھی۔ مدارس علمِ دین کی نرسریاں تھیں، جو قرآن و سنت کا نور بانٹتی تھیں۔ منبرِ رسول ﷺ عدل، صداقت، اور خیرخواہی کا نشان تھا۔ لیکن آج ان سب میں مقصد کی جگہ مفاد نے، خدمت کی جگہ شہرت نے، اور تبلیغ کی جگہ سیاست نے لے لی ہے۔ نتیجہ؟ عوام بدظن ہو رہی ہے، نوجوان نسل دین سے دور ہو رہی ہے، اور اہلِ سنت کا وقار مجروح ہو رہا ہے۔

اصلاح کا راستہ: واپسی دین کی طرف اب بھی وقت ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ شخصیت پرستی ترک کر کے صرف شریعت پرستی کو اپنانا ہوگا۔ خانقاہوں اور مدارس کو تزکیہ و تعلیم کا گہوارہ بنانا ہوگا۔ ہر بات، ہر عمل، ہر فیصلہ قرآن و سنت کے میزان پر پرکھنا ہوگا، نہ کہ کسی فرد یا پیرکی محبت یا مخالفت کی بنیاد پر۔

اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی، تو اللہ تعالیٰ ہم سے وہ عزتیں، وہ مقبولیت اور وہ قیادت چھین لے گا، جن پر ہم فخر کرتے آئے ہیں۔ دعائیہ کلمات الٰہی! تو ہمیں اخلاص عطا فرما۔ ہمیں ہدایت دے کہ ہم دین کی اصل روح کو سمجھیں۔ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو شریعت کے سچے پیروکار ہیں۔ اور ہمیں شخصیت پرستی کے اس فتنہ سے محفوظ فرما جس نے امت کو بانٹ دیا ہے۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383