نیپال کے نوجوانوں نے حیرت انگیز تاریخ رقم کردی
اداریہ
ایڈیٹر کے قلم سے ۔۔
دنیا کی سیاست میں پچھلے چند سالوں میں جو بڑے انقلابی اور غیر متوقع واقعات رونما ہوئے ہیں ان میں جنوبی ایشیا کے ممالک خاص طور پرنمایاں ہیں ، کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ بنگلہ دیش کی تاریخ لکھنے والے مجیب الرحمٰن کی بیٹی جو تقریباً چودہ سالوں سے وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر حکومت کی باگ ڈور سنبھالتی رہی اچانک سے ان کو بنگلہ دیش میں رہنا مشکل ہو جائے گا، انہیں کے کارندے انہیں ملک بدر کردیں گے، سری لنکا کی سرزمین پر رونما ہونے والے واقعات نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، اور اب نیپال کی سرزمین پر نوجوانوں کےسخت ترین مظاہرے نے انقلاب پیدا کرکے تاریخ رقم کردی،
نیپال کی اس تازہ تبدیلی کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہاں کی سیاست ہمیشہ خارجی دباؤ اور داخلی کمزوریوں کے درمیان پھنسی رہی ہے۔ معیشت کمزور ہے، روزگار کے مواقع محدود ہیں، کرپشن عام ہے اور سیاسی جماعتیں آپسی اختلافات میں الجھی رہتی ہیں۔ ایسے میں جب عوام کو لگا کہ حکومت ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی
ہے، تو انہوں نے سڑکوں پر نکل کر اقتدار کو ہلا ڈالا۔ نیپال میں یہ تبدیلی محض ایک سیاسی بحران نہیں بلکہ ایک سماجی بیداری کا اظہار ہے، جہاں نوجوان طبقہ پرانی نسل کے سیاستدانوں کے خلاف آواز اٹھا رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں ہوئے عوامی مظاہروں نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیوں کہ ایک ایسی حکومت جسے دنیا میں مستحکم مانا جاتا تھا، اچانک عوامی دباؤ کے سامنے کمزور ہوگئی، بنگلہ دیش میں رونما واقعات کے بعد پورے جنوبی ایشیا میں یہ بات گردش کرنے لگی کی اب کسی بھی ملک کی عوام جب چاہے حکومت کو کمزور کرسکتی ہے، جیسا کہ ہمارے ملک نیپال میں زین جی مظاہروں کے ذریعے سامنے آیا نیپال کی سیاست میں 2008۔ کے بعد سے وزیر اعظم کی کرسی تین سیاسی لیڈران کے درمیان گھومتی رہی ، سابق وزیراعظم کے پی شرما اولی، پشپ کمل دہل، شیر بہادر دیوبا، ان کی اپنی حکومتیں کبھی بھی کسی بھی وقت اتحاد کرلیتی تھیں،کبھی ماؤنوازوں کے سرکار تو کبھی گانگریس کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تو کبھی ماؤنوازوں کا اتحاد کانگریس کے ساتھ اس طرح سے پورا ملک کرپشن اور بے روزگاری سے پریشان مجبور ہوکر اپنے آپ کو ان کے حوالے کربیٹھاتھا ، لیکن زین جی ( یعنی نئی جنریشن ) نے اپنے احتجاج سے یہ بتایا کہ ہمیں ایسی حکومت قبول نہیں جہاں اپنے ہی ملک کے شہریوں کو نظر انداز کیا جاتا رہے، پورا ملک مہنگائی سے پریشان ہے، غریب اپنی گاڑھی کمائی سے ٹیکس تو ادا کر رہا ہے لیکن اس سے اس کا حق نہیں مل رہا ہے، آج تقریباً ملک کے سترہ لاکھ نوجوان بیرون ملک مختصر سی اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں، یہی وہ وجوہات تھیں جس کی بنیاد پر ملک کے نوجوانوں نے حکومت وقت کے ساتھ ساتھ ملک کی تمام موجودہ سیاسی پارٹیوں سے اعلان جنگ کردیا، اپنا خون بہاکر ملک کی موجودہ صورت حال سے نجات کی راہ نکالی ۔
جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ گذشتہ 8 ستمبر کو کٹھمنڈو سے شروع ہوئے مظاہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک کو اپنی گرفت میں لے لیا اور صرف ڈیڑھ دن کے اندر حکومت گرا کر ایک نئی تاریخ رقم کردی،حتی کہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی کو 24 گھنٹے کے اندر ہی استعفی دینا پڑا ، حکومت کے وزرا کو ذلیل و رسواء کیا گیا۔ نوجوانوں کے اجتماعی اتحاد کی ایک اہم وجہ یہ بھی رہی کہ وہ حالات سے مجبور ہوچکے تھے، ایک طرف جہاں غریب مزدور اپنی گاڑھی کمائی سے بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی جٹا پارہا تھا وہیں دوسری جانب سیاسی لیڈروں کے بچوں کی زندگی عیاشی اور لگزری طور پر گزر رہی تھی، حالات یہاں تک ٹھیک تھے، اسی درمیان جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی تو یہ آگ مزید شعلہ بن کر بھڑک اٹھی اور حالات قابومیں نہ رہے درجنوں نے اپنی جان قربان کردی، سینکڑوں زخمی ہوئے، لیکن ہمت نہیں ہاری اور اس جنریشن نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کا عزم مصمم کیا اور پھر کیا تھا حالات نے کروٹ بدلا اور دو دن کے مظاہرے نے دنیا کو پیغام دے دیا ک ظلم کے آگے جھکنے والی قوم ہم نہیں ہیں بلکہ اپنے حق کو لینا ہے تو جانیں قربان کرکے لیں گے ۔
البتہ اس مظاہرے سے زین جی کے نام پر بڑی بد معاشی ہوئی ہماری تاریخ کو مٹانے کی کوشش کی گئی شاپنگ مال حکومتی دفاتر پولیس اسٹیشن وغیرہ میں آگ لگا دی گئی جس سے ہزاروں کروڑ کا نقصان ہوا ۔
اس درمیان ملک میں نئی عبوری حکومت کا انتخاب عمل میں آیا اور سوشیلا کارکی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ نے یہ عہدہ سنبھالا لیکن ان کے لیے بڑا چیلنج ہوگا اس وقت ملک کو سنبھالنا، اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا وہ نئی جنریشن کے خوابوں پر کھرا اتر سکتی ہیں؟.