Oct 23, 2025 04:38 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
شفافیت کی آڑ میں حق رائے دہی پر سوالیہ نشان

شفافیت کی آڑ میں حق رائے دہی پر سوالیہ نشان

02 Oct 2025
1 min read

  شفافیت کی آڑ میں حق رائے دہی پر سوالیہ نشان

سرحدوں پر بہت تناؤ ہے کیا؟

 کچھ پتا کرو، چناؤ ہے کیا ؟ 

جب بھی ہندوستان میں الیکشن کا وقت قریب آتا ہے تو حکومت کی جانب سے کسی نہ کسی نئی سازش یا اقدام کا اعلان ضرور کیا جاتا ہے۔ عوام کو الجھانے اور ان کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے نت نئے جال بچھائے جاتے ہیں۔ کبھی نوٹ بندی کے نام پر عوام کو پریشان کیا جاتا ہے، کبھی CAA اور NRC کے نام پر، اور اب SIR کے نام پر۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان سب غیر ضروری اور پیچیده اقدامات کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ کیا ان سے حکومت یا عوام کو کوئی حقیقی فائدہ پہنچا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے اقدامات صرف حکومت کے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے اور اقتدار کی کرسی بچانے کے لیے کیے جاتے ہیں، جبکہ عوامی مسائل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

 حال ہی میں ریاست بہار میں ووٹر لسٹ کی غیر معمولی مشق، جسے (Special Intensive Revision (SIR  کا نام دیا گیا ہے، اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتی ہے۔ ریاست میں چند ماہ بعد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، اور الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ کی نظر ثانی کا پروگرام 25 جون سے شروع کر کے 26 جولائی تک مکمل کرنے کیہدایت دی۔ سوال یہ ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے پیمانے پر نظر ثانی کیسے ممکن ہے؟ 

الیکشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جس کی اولین ذمہ داری صاف و شفاف انتخابات کرانا ہے۔ لیکن موجودہ اقدام اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر عوام کو بلاوجہ زحمت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ایسی تیاری پہلے سے کی جاتی تا که شہریوں کو گھبراہٹ اور دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑتا؟ مزید یه کہ 22 سال بعد ووٹر لسٹ پر خصوصی نظر ثانی کی کیا فوری ضرورت پیش آگئی؟

 2011ء کی مردم شماری کے مطابق بہار کی آبادی 10 کروڑ سے زائد ہے۔ اتنی بڑی آبادی کے لیے چند ہفتوں میں ووٹر لسٹ کی مکمل اور درستگی پر مبنی نظر ثانی ایک ناقابلِ فہم بات ہے۔ اس سے قبل جب 2002ء میں ووٹر لسٹ کی نظر ثانی کی گئی تھی تو تقریباً دو سال سے زیادہ کا وقت لگا تھا، حالانکہ اس وقت ریاست کی آبادی موجودہ نسبت سے کہیں کم تھی۔ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ میں شامل رہنے کے لیے چند دستاویزات کو لازمی قرار دیا ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر آدھار کارڈ، پین کارڈ، راشن کارڈ، منریگا جاب کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس کو قابلِ قبول نہیں مانا

گیا۔ اس کے برعکس  پیدائش کا سرٹیفکیٹ، اسکول سرٹیفکیٹ یا دیگر ایسے دستاویز مانگے گئے ہیں جو عوام کی بڑی تعداد کے پاس موجود ہی نہیں۔ 

اعداد و شمار کے مطابق بہار میں محض 8.2 فیصد افراد کے پاس پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہے، جبکہ اسکول کے سرٹیفکیٹ صرف 12 سے 13 فیصد لوگوں کے پاس ہیں۔ ایسے حالات میں لاکھوں افراد ووٹر لسٹ سے باہر ہو جائیں گے اور اپنا حقِ رائے دہی استعمال نہیں کر سکیں گے۔  مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ چند برس قبل الیکشن کمیشن نے آدھار کارڈ کو ووٹر آئی ڈی سے جوڑنے کی بھرپور مہم چلائی تھی، مگر آج اسی آدھار کارڈ کو ناقابلِ قبول قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ تضاد بذاتِ خود شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے نئے قواعد بالخصوص غریب، دیہی اور پسمانده طبقے کے لیے نهایت پریشان کن ہیں۔ جن کے پاس ایک وقت کی روٹی کا بندوبست مشکل ہو، وہ اپنے کاغذات کہاں سے لائیں گے؟ کسان طبقہ کھیتی باڑی میں مصروف ہے، ان کے لیے چند دنوں میں ایسے نایاب دستاویزات جمع کرنا کیسے ممکن ہوگا؟ 

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ووٹر لسٹ کی اس خصوصی نظر ثانی کے پردے میں دراصل NRC جیسے متنازع اقدامات کو نافذ کرنے کیتیاری کی جا رہی ہے۔ یہ بھی بعید از امکان نہیں کہ اس عمل کے ذریعے لاکھوں افراد کو ووٹر لسٹ سے باہر کر کے بہار کے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جائے۔ 

یہ طرزِ عمل صرف عوام کو پریشان کرنے کا نہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت کو کمزور کرنے کا بھی خطرناک منصوبہ ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن کو استعمال کر کے عوامی حقِ رائے دہی پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔ یہ جمہوریت کو محدود کر کے چند طبقات کے ہاتھوں میں اقتدار دینے کی کھلی سازش ہے۔نتیجہ اور تجویز ہماری رائے یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ عوام کو مناسب وقت دے تاکہ وہ ضروری دستاویزات تیار کر سکیں۔ اس کے علاوہ بنیادی اور عام دستاویزات، جیسے آدھار اور راشن کارڈ، کو لازمی تسلیم کیا جائے۔ اگر نظر ثانی کا عمل واقعی ناگزیر ہے تو اسے آئندہ سال تک مؤخر کیا جائے تاکہ انتخابی ماحول میں بدنظمی اور بدامنی پیدا نہ ہو۔ بہار کے عوام کے حقِ رائے دہی کی حفاظت کرنا صرف ایک ریاستی ضرورت نہیں، بلکہ یہ ہندوستانی جمہوریت کے مستقبل کی بقا کا مسئلہ ہے۔ 

زین العابدین قرطبہ انسٹٹیوٹ آف اکیڈمک ایکسیلینس روحیا،کشنگنج، بہار

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383