ہندوستان کے ایک عظیم اسکالر و صحافی : علامہ ڈاکٹر مفتی ممتاز عالم مصباحی
شان پریہار پروفیسر محمد گوہر صدیقی
سابق ضلع پارشد براہی بلاک پریہار
ضلع سیتامڑھی صوبہ بہار
9470038099
کون جانتا تھا ،تھی کس کو خبر ،کسی کو کیا معلوم کہ عالی جناب عید محمد انصاری صاحب کے خاندان ،کھپڑے کی چھت ،مٹی کے مکان میں ایک ایسا ہونہار بیٹا پیدا ہوگا، جسے ایک وقت اجمیر مقدس میں سلطان القلم کے خطاب سے نوازا جائے گا۔جن کی قومی ،ملی، علمی ، مسلکی ،ادبی،تدریسی، تصنیفی ،صحافتی، تبلیغی ،تقریری،تحریکی اور تنظیمی خدمات کو دیکھ کر انہیں نازش قرطاس و قلم ،ماہر علم و فن ،مفکر قوم وملت ،تجربہ کار مدرس ،فکر رسافقیہ، کنہ مشق مفتی و محقق ،لاجواب مصنف ،صاحپ طرز ادیب ، نباض صحافی و ملک ہندستان کے عظیم اسکالر و مفکر ،تاریخ ساز شخصیت جیسے القاب وآداب سے یاد کیے جائیں گے ا
بالکل ،،،بالکل،،، یہ کرم نہیں تو اورکیا ہے ،،،یہ خاص عطا ئے الہی نہیں تو اور کیا ہے ؟ بےشک یہ تو کرم ہی ہے پروردگار عالم کا ، یہ تو بےشک عطا ئے الہی ہی ہے کہ آج ہمارے اور آپ کے مابین 38 سالہ سنجیدہ لب و لہجہ کا خطیب اور درجنوں علمی وتحقیقی کتابوں کے مصنف،انشا پرداز اور ترجمہ نگار،فقہی بصیرت ،سیاست و قیادت ، حکمت و دانائی ،علم وعمل ،تقوی و پرہیزگاری ،سادگی اور انکساری ،اخلاق کے دھنی و پاکیزہ کردار کے حامل ابوالحسنات حضرت علامہ مولانا مفتی ڈاکٹر محمد ممتاز عالم مصباحی جو نمونہ اسلاف کےبحیات رندہ مثال ہے
مفتی موصوف کی پیدائش 09 محرم الحرام 1405ھجری مطابق 03 مارچ 1987ء کو صوبہ بہار کے سیتا مڑھی ضلع کے ڈمرا ہیڈ کوارٹر سے 26 کیلومیٹر کے فاصلے پر معروف تجارتی قصبہ میجر گنج میں ہوی (میجر گنج تھانہ،بلاک بھی ہے) آپ کے والد محترم کا نام عالی جناب محمد حبیب انصاری صاحب اور امی جان کا نام محترمہ رقیہ خاتون صاحبہ ہے ۔اپ دو بھائی ہیں بڑے بھائی کا نام محمد انوارالحق ہے آپ نے ابتدائی تعلیم جامعہ حنفیہ رضویہ قصبہ جئے نگر ضلع روٹہٹ ملک نیپال میں حاصل کی پھر وہاں سے اعلی تعلیم کے لئے اپنے چچازاد بھائی حضرت مولانا عابد حسین امجدی ۔چیف خادم درگاہ حضرت
شاہ جلال شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نزد ہائی کورٹ پٹنہ کے ہمراہ طیبۃ العلماءجامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی صوبہ اتر پردیش تشریف لے گئے ،جہاں اپ نے عالمیت تک کی تعلیم حاصل کی ۔پھر وہاں سے ہندوستان کی عظیم علمی درسگاہ الجامعتہ الاشرفیہ مبارک پور تشریف لے گئے ،جہاں سنہ 2000عسوی میں بعد تکمیل تعلیم علمائےکرام و مشائخ عظام کے مقدس ہاتھوں سے آپ کے سر پر دستار فضیلت کا زریں تاج رکھا گیا -پھر وہاں سے جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء ذاکر نگر،اوکھلا نئی دہلی تشریف لے گئے اور وہاں سے امتیازی نمبرات کے ساتھ تخصص فی الفقہ والادب کا دو سالہ کورس مکمل کیا ۔یہ دور رئیس القلم ،قائد اہل سنت حضرت علامہ ارشد القادری نوراللہ تعالیٰ مرقدہ کی حیات پاک کا آخری دور تھا ۔موصوف کو وہاں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حضور رئیس القلم سے کچھ تحریری تربیت لینے کا بھی موقع نصیب ایا ،جس کی وجہ سے اپ کا قلم بہت مضبوط ہو گیا ۔حضور رئیس القلم آپ کے مضامین دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔ان کی تربیت اور دعاؤں کا ہی ثمرہ ہے کہ موصوف اس کم عمری ہی میں میدان تحریر وصحافت کے شہسوار بنے ہوئے ہیں اور حضور قائد اہل سنت کے فکرو تدبرکی ترجمانی فرما رہے ہیں ۔
فراغت کے بعدآپ اپنے استاذ ومرشدگرامی محدث کبیر ،سلطان الاساتذہ ،ممتازالفقہاحضرت علامہ ضیاءالمصطفے صاحب قادری بانی و سربراہ اعلی جامعہ امجدیہ گھوسی ،ضلع مئوکے حکم پر عمل کرتے ہوئے گھوسی تشریف لے گئے اوراستاذ محترم کی سرپرستی میں جامعہ جامعہ امجدیہ کے اندربحیثیت شیخ الادب کئی سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ 2009میں آپ جامعہ قادریہ صابریہ برکات رضا کلیر شریف میں ایک سال تک صدر مدرس رہے - پھر اس کے بعد جامعہ قادریہ رچھا بریلی شریف میں تدریسی خدمات، 2012ء میں مفتی شہر کی حیثیت سے جھانسی تشریف لے گئے جہاں درس و تدریس کے ساتھ فتویٰ نویسی کا کام انجام دے - سن 2014ء سے 2020 ء تک جامعہ رضویہ مناظر العلوم باپو پورہ کان پور میں بحیثیت شیخ الحدیث و صدرِ شعبہ افتاء کی خدمات انجام دیں - پھر اس کے بعد دارالعلوم شاہ اعلی قدرتیہ جاج مو کان پور میں دیا ،جس کاسلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جامعہ قادریہ رچھا ۔شہر کی انتہائی سرگرم تحریک تنظیم بریلوی علمائے اہل سنت کی سرپرستی بھی فرماتے ہیں۔جامعہ فاطمۃ الزہراء للبنات افتخارآباد ،کان پور کے بھی سرپرست ہیں ۔
آپ نے سن 2014میں مدھیہ پردیش کے معروف ضلع چھترپور کے اندر دارالعلوم احمدیہ کے نام سے اایک ادارہ بھی قائم فرمایا۔اس کے علاؤہ اترپردیش ، دہلی ،راجستھان ،اتراکھنڈ ،بہار اور نیپال کے کئی مدار س کے آپ ناظم تعلیمات بھی ہیں ۔مسلم بورڈ آف نیپال کے مشیر اعلی ہیں اور کئی تنظیموں وتحریکوں کے بانی رکن اور سرپرست بھی ہیں ۔
آپ بہت سے خوبیوں ساتھ ایک بالغ نظر صحافی بھی ہیں - سن2001ء سے سن 2010 ء تک ملک ہندستان کے ایک نمبر اردو اخبار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے لئے مستقل کالم کار کے طور پر گراں قدر مضامین تحریر فرمایا - سن 2003ء میں ماہ نامہ جام نور دہلی، 2004سے 2008ء تک جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی کے ترجمان سہ ماہی امجدیہ کی ادارت بھی فرمائی ،اس کے علاوہ نی دنیا ،عالمی سہارا ،ماہنامہ کنزالایمان دہلی ،ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور ،ماہنامہ افکار ملی ، ،ماہنامہ نئی شناخت دہلی ،ماہنامہ پیام حرم بستی،ماہنامہ دین فطرت بنگلور ،ماہنامہ اردو دنیا دہلی ،سہ ماہی پیام سیرت کلکتہ ،ششماہی الہادی نیپال ،ماہنامہ ماہ نور دہلی وغیرہ درجنوں رسالوں ،سالناموں میں سیاسی ،فکری،ٹعلیمی، اقتصادی ،ادبی اور اصلاحی موضوعات پر آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں اور فی الوقت ملک کے ایک اور مشہور ومعروف اخبار روزنامہ انقلاب کے آپ رجسٹرڈ کالم نگار کی حیثیت سے مستقل ہفتہ وارکالم تحریر فرما رہے ہیں جس کے لیے موصوف کو باضابطہ دینک جاگرن سموہ کی جانب سے وظیفہ بھی مقرر ہے۔
آپ کی معروف کتابیں ۔امہات المومنین ،نظام پردہ ،ہندوستانی مسلمان ،آج کا ہندوستان ،اسلام اور عالم اسلام ،سیرت غریب نواز ،اہل سنت کی شیرازہ بندی !کیوں اور کیسے ،اسلام کا سماجی نظام اور معین البلاغہ وغیرہ ایک عظیم شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔
آپ کی ایک اور کتاب اسلام کی خوبیاں جوساڑھے پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ جو عنقریب ہی برطانیہ سے شائع ہونے والی ہے۔
راقم الحروف کی مفتی موصوف سے ملاقات اب تک تو نہیں ہے ،البتہ بات چیت اکثر ہوتی رہتی ہے - میں انہیں داد تبریک وتحسین پیش کرتا ہوں - خدا کرے زور قلم اور زیادہ ،،،،،،،،، آ