شارحِ بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ: حدیث، فقہ کا روشن مینار
✍️ از: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم:دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤ شریف
،باڑمیر(راجستھان)
جب برصغیر کی علمی تاریخ، فقہی عظمت، حدیث کی شرح و تدریس، فتاویٰ نویسی، تصنیف و تحقیق اور روحانی تربیت کا تذکرہ ہوگا تو ایک ایسا درخشندہ نام ضرور روشن نظر آئے گا جس نے علم، فقہ اور بصیرت کے سنگم سے اہلِ سنت کے قلوب و اذہان کو منور کیا...اور وہ نام ہے حضرت شارحِ بخاری، فقیہِ اعظم ہند،حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کا، جنہوں نے نصف صدی سے زائد دینِ متین کی بے مثال خدمت انجام دی۔
پیدائش اور خاندانی پس منظر:
یہ تابندہ ستارہ ۱۱؍ شعبان المعظم ۱۳۳۹ھ مطابق ۲۰؍ اپریل ۱۹۲۱ء کو قصبہ گھوسی کے علمی و روحانی محلہ کریم الدین پور (ضلع مئو) میں طلوع ہوا۔ آپ کا نسب نامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی بن عبدالصمد بن ثناء اللہ بن لعل محمد بن مولانا خیرالدین اعظمی جن کے متعلق روایت ہے کہ وہ اپنے وقت کے صاحبِ کشف و کرامت بزرگ اور جلیل القدر عالم تھے۔
تعلیم و تربیت کا درخشاں سفر:
آپ کی ابتدائی تعلیم گھوسی میں ہوئی، اور پھر ۱۹۳۴ء میں جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رخ کیا، جہاں آٹھ سال تک حافظِ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد درسِ حدیث کی تکمیل ۱۹۴۲ء میں بریلی شریف کے مدرسہ مظہرِ اسلام میں محدثِ اعظم پاکستان حضرت علامہ سردار احمد قادری کے زیرِ سایہ ہوئی۔ یوں صحاحِ ستہ کی مکمل تعلیم حاصل کرکے ۱۵؍ شعبان ۱۳۶۲ھ کو فراغت پائی۔
آپ کے علمی سفر میں جن جلیل القدر اساتذہ کا نمایاں کردار رہا، ان میں حضور صدرالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، حضورمفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان، حضور حافظ ملت مرادآبادی اور محدث اعظم پاکستان جیسے بلند پایہ اکابر علما شامل ہیں۔
فقہ و فتاویٰ کا بے تاج بادشاہ:
درس نظامی کی فراغت کے بعد آپ نے حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے فتویٰ نویسی میں خصوصی تربیت حاصل کی، اور پھر گیارہ سال تک حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ کی صحبتِ فیض سے فیض یاب ہوتے ہوئے فتویٰ نویسی میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ اس علمی ریاضت کا نچوڑ وہ پچتر ہزار سے زائد فتاویٰ ہیں جو آپ نے تحریر فرمائے، اور جو آج "فتاویٰ شارح بخاری" کے نام سے علمائے اہلِ سنت کی آنکھوں کا تارا ہیں۔
تدریس کی عظیم خدمات:
تقریباً ۳۵ سال آپ نے تدریسی خدمات انجام دیں اور علمِ دین کے بحرِ ذخار سے تشنگانِ علوم کو سیراب فرمایا۔ آپ نے ہند کے مختلف علمی مراکز میں اپنی تدریس سے چراغاں کیا، جن میں مدرسہ بحر العلوم مئو، شمس العلوم گھوسی، خیرالعلوم پلاموں، حنفیہ مالیگاؤں، فضل رحمانیہ پچپڑوا ، عین العلوم گیا، انوار القرآن بلرام پور، ندائے حق فیض آباد، مظہر اسلام بریلی شریف، اور الجامعہ الاشرفیہ مبارک پور شامل ہیں۔ تربیت یافتہ شاگرد: آپ کی بارگاہِ علم سے فیض حاصل کرنے والوں کی فہرست بہت ہی طویل ہے، جن میں خواجۂ علم و فن حضرت علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی ،اشرف الفقہاء حضرت علامہ مفتی مجیب اشرف اعظمی ثم ناگپوری ،حضرت مفتی قاضی عبدالرحیم بستوی،مولانا رحمت حسین کلیمی،مولانا محمد کوثر خان نعیمی، مولانا قمرالدین اشرفی اعظمی علیہمالرحمہ، محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی، مفتی معراج القادری، مفتی عبدالحق رضوی، مولانا حفیظ اللہ اعظمی،مفتی عبدالحکیم نوری،مولانا محمد عمر بہرائچی وغیرہم شامل ہیں۔ آپ کے شاگردانِ رشید بلکہ آپ کے تلامذہ کے تلامذہ بھی آج دنیا کے گوشے گوشے میں دین کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔
قلمی خدمات و تصانیف:
حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ کی قلمی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں۔ ماہنامہ "اشرفیہ" مبارک پور،دبدۂ سکندری رام پور،نوری کرن وماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف،پاسبان الہ آباد،جام کوثر کلکتہ،استقامت کانپور،رفاقت پٹنہ،ماہنامہ حجاز جدید دہلی اور دیگر دینی رسائل میں آپ کے مضامین، فتاویٰ اور علمی مقالات شائع ہوتے رہے۔ آپ کی بعض مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:
نزہۃ القاری شرح صحیح البخاری: نو جلدوں پر مشتمل پانچ ہزار صفحات کی ایک شاندار اردو شرح، جو آج بھی اہل علم کے لیے علمی میراث ہے۔
اشرف السیر: سیرتِ نبوی ﷺ کے بارے میں مغرب اور مشرق کے اعتراضات کا علمی و مدلل جواب۔
اشک رواں: آزادی ہند و تقسیم کے پس منظر میں مسلمانوں کی سیاسی و سماجی حالت کا دردناک مگر بصیرت افروز تجزیہ۔
اسلام اور چاند کا سفر: اسلامیات و فلکیات کی روشنی میں ایک محققانہ و دقیق علمی مقالہ۔
التحقیقات (۲ جلدیں): وہابی و دیوبندی اعتراضات کا مدلل و علمی جواب۔
سنی دیوبندی اختلاف کا منصفانہ جائزہ: ایک غیر جانب دار مگر محققانہ تحقیقی شاہکار۔
اثبات ایصال ثواب: میلاد، فاتحہ، قیام جیسے مسائل پر مدلل رسالہ۔
مقالات شارح بخاری (۳ جلدیں): متنوع علمی و اصلاحی موضوعات پر سینکڑوں قیمتی مضامین کا ذخیرہ۔
مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا: تکفیر کے اصول اور امام احمد رضا قادری کی معتدل حکمت کا دفاع۔
روحانیت و سلوک ۱۳۵۹ھ میں آپ نے حضور صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ سے سلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت کی اور اجازت و خلافت حاصل کی۔ بعد ازاں حضور مفتی اعظم ہند اور حضور احسن العلما حضرت سید مصطفی حسن حیدر مارہروی نے بھی اجازت و خلافت سے نوازا۔ حرمین شریفین کی زیارت: آپ نے دو مرتبہ حج اور دو مرتبہ عمرہ ادا کیا۔ پہلا حج ۱۹۸۵ء میں اور دوسرا ۱۹۹۸ء میں ادا کیا، جبکہ ۱۹۹۶ء و ۱۹۹۷ء میں عمرہ کی سعادت حاصل کی۔
وصال
:٦؍ صفر المظفر ۱۴۲۱ھ مطابق ۱۱؍ مئی ۲۰۰۰ء بروز جمعرات حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک گھوسی، ضلع مئو میں واقع ہے جو آج مرجعِ خلائق ہے۔ حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ بلاشبہ علم و عرفان، فقہ و فتویٰ، تحقیق و تصنیف، تقویٰ و طہارت، خطابت و بصیرت، اور استقامت و جرأت کا ایک حسین امتزاج تھے۔ آپ کی زندگی اہلِ سنت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے، اور آپ کا علمی سرمایہ تا قیامت اُمت کو روشنی بخشتا رہے گا۔
اللہ تعالیٰ آپ کے مزار کو انوارِ رحمت سے منور فرمائے، اور ہمیں ان کے علمی و فکری نقوش پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔