Oct 23, 2025 02:07 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
سیلاب اور نیپال

سیلاب اور نیپال

09 Oct 2025
1 min read

اداریہ

سیلاب اور نیپال

ایڈیٹر کے قلم سے ۔۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ جل شانہ کی عطا کردہ بےشمار نعمتوں میں سے پانی بھی ایک بڑی نعمت ہے جس سے نہ صرف انسان بلکہ خدا کی بیشتر مخلوقات متعدد طریقوں سے مستفید ہوتی رہتی ہیں اور تاقیامت ہوتی رہیں گی۔

مگر وہیں پانی جب سیلاب کی شکل اختیار کرلیتا ہےتو مخلوقات خدا کے لئے عذاب بن جاتاہے جیساکہ  زمانے سے دیکھتے اور سنتے آرہے ہیں، کچھ ایسا ہی نظارہ حالیہ چند دنوں نیپال اور بہار کے کے اندر دیکھنے کو ملا ، متعدد ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق مسلسل کئی روز سے ہورہی موسلادھار بارش نے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ ملک نیپال میں بھی قہر برپا کر رہی ہے، مسلسل ہورہی بارش سے انسانی زندگی بہت متاثر نظر آرہی ہے، یوں تو نیپال میں بارش کا ہونا اور سیلاب کا آنا کوئی نئی بات نہیں ہے، کیونکہ ہمارا ملک ہمالیہ کے آغوش میں واقع ہے جہاں بارش اور سیلاب کے خطرات ہمیشہ لگے رہتے ہیں، مگر حالیہ سیلاب نے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ کر ایک نئی تاریخ رقم کیا ہے، اس سے قبل 1968 میں ایک سیلاب آیا تھا جس وقت کوسی ندی کے دروازوں کو کھولا گیا تھا، اس کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئےتھے، غربت و افلاس کی چکی میں پورا ملک پس گیا تھا، ہمالیہ کی چوٹیوں سے ہوکر گذرنے والی بارش کا قہر ہمیشہ سے خوفناک رہاہے ، اس کی تاریخ دیکھیں تو1977 میں سیلاب کی وجہ سے 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ،1981 نیپال کے مشرقی حصے میں سیلاب کے قہر سے تقریباً 500 لوگوں کو اپنی جان گنوائی پڑی، 1993 میں کوسی ندی میں آنے والے بھیانک سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، 2002 ء مغربی نیپال میں سیلاب اور طوفان سے 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے،

2007 میں سیلاب ہی کی وجہ سے 500 سے زائد افراد کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا، 2014 میں نیپال کے مختلف اضلاع میں سیلاب کے قہر سے سیکڑوں مکانات زمین بوس ہوگئے۔2017 کا سیلاب انتہائی شدید تھا جس نے ملک کے کئی صوبوں میں تباہی مچائی، تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے ک نیپال میں سیلاب ایک مستقل مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک نیپال میں طوفانی بارش کی وجہ سے ہندوستان کے صوبہ بہار اور اتر پردیش میں بھی اس کے اثرات نظر آتے ہیں، ہندوستان کی معیشت کو بھی نیپال میں آنے والے سیلاب سے ہمیشہ خطرہ لاحق رہتاہے خاص طور پر وہ کسان جن کی کھیتیوں کا انحصار نیپال سے گذرنے والی ندیوں پر ہوتا ہے، جس کے سبب ہزاروں ایکڑ زمین سیلاب کی نذر ہوجاتی ہیں، لوگوں کو ہر سال اپنے گھر بار چھوڑ اونچے ٹیلوں کے سہارے زندگی گزارنی پڑتی ہے ، کوسی ندی جو نیپال اور ہندوستان کی مختلف ندیوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے وہ اپنی برق رفتار پانی کے بہاؤ سے دونوں ملکوں میں مسلسل تباہی مچاتی رہتی ہے۔

لہذا دونوں ملکوں کی حکومتوں کو اس طرف اپنی خاص توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے، تازہ ترین خبروں کے مطابق اس وقت کاٹھمانڈو کے شہر للت پور سمیت مختلف اضلاع کو جانی اور مالی بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے، جو کہ بےحد افسوسناک ہے، کوسی ندی نے اپنے سابقہ سارے ریکارڈ کو توڑ دیا اس سے پہلے 1977 یا 1978 میں یا تو اس کے سارے دروازے کھولے گئے تھے یا 2024 میں حالیہ سیلاب کی وجہ سے تمام دروازے کھولنے کی نوبت آن پہونچی تھی۔ ہر سال سیلاب سے پورا ملک پریشان اور تباہ و برباد ہوجاتاہے، تجارتی معیشت پر ہمیشہ خطرات منڈلاتے رہتے ہیں، مگر اب تک دونوں حکومتوں کی جانب سے مذکورہ سیلاب اور اس سے ہونے والے خطرات سے نمٹنے کےلئے کوئی مضبوط لائحۂ عمل تیار نہیں کیا گیا، لہذا ہم نیپال اردو ٹامز کے حوالے سے دونوں ملکوں کے سربراہان سے مضبوط لائحۂ عمل تیار کرنے کی پرزور اپیل کرتے ہیں تاکہ ہزاروں،لاکھوں جان و مال کی قربانی کے تحفظ کو یقینی بناجاسکے۔

نیپال اور بہار کی حکومتیں اس پروجیکٹ پر سنجیدگی سے کام کریں تو اس قدر کثیر پانی کے سبب پورا خطہ خوشحال ہوسکتا ہے، وہ یوں کہ پانی کو اسٹور کرنے کے لیے نیپال اور بہار دونوں حکومتیں اپنی اپنی سطح پر ڈیمز تعمیر کریں ، ڈیمز کی تعمیر کے بعد بھیانک سیلاب اور قیامت خیزتباہی کا جو سلسلہ ہے وہ روکا جاسکتا ہے ، نیز اس سے دونوں حکومتیں بڑے پیمانے پر بجلی تیار کرکے اپنے ہم سایہ ملکوں اور ہمسایہ ریاستوں کو فروخت بھی کرسکتی ہیں۔ 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383