سوشل میڈیا کی دنیا میں مسلم نوجوانوں کا کردار ایک اسلامی زاویہ
بقلم محمد عادل ارریاوی
قارئین کرام! ہر دور کی ایک پہچان ہوتی ہے کبھی قلم و کتاب کا زمانہ تھا کبھی ریڈیو اور ٹی وی کا دور آیا اور آج ہم ڈیجیٹل دور میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا انسان کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے خاص طور پر نوجوان نسل جو امتِ مسلمہ کا سرمایہ اور مستقبل ہے اس کے اثرات سے براہِ راست متاثر ہو رہی ہے ایسے میں یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ اسلام ہمیں اس تیزرفتار ڈیجیٹل دنیا میں رہتے ہوئے کیا رہنمائی دیتا ہے اور نوجوان کس طرح اپنی دینی و اخلاقی شناخت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔
اس وقت ایس آئی او کے وابستگان تمام کے تمام اُس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جسے ڈجیٹل نیوز کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ نسل جس نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ماحول میں آنکھ کھولی اور اس ماحول سے پیدائشی طور پر مانوس ہے۔ چنانچہ یہ فطری ہے کہ اُن کے وقت کا بڑا حصہ کمپیوٹر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔ اس طرح انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اب ہمارے تنظیمی کلچر کا ایک اہم جزو بن چکا ہے۔ سرگرمیوں کا بڑا حصہ سوشل میڈیا پر انجام پانے لگا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ ہم ایک دوسرے سے بھی جڑتے ہیں اور سماج سے بھی تعلق قائم کرتے ہیں۔ ہماری فکری دینی اور تنظیمی تربیت میں بھی اس کا رول ہے اور ہماری دعوت اور پیغام کی اشاعت میں بھی علمی و فکری کاموں کے لیے بھی ہم اسے استعمال کرتے ہیں اور جہد کاری احتجاج اور رائے عامہ کی ہمواری کے لیے بھی ۔
سوشل میڈیا بلاشبہ اسلام کے داعیوں کے لیے ایک بڑی نعمت بھی ہے۔ ایک داعی حق کی سب سے بڑی آرزو یہی ہو سکتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے۔ اس کے پیغام کی اللہ کے ہر بندہ تک رسائی ہو۔ وہ جو کہنا چاہتا ہے اسے دنیا کا ہر آدمی سنے۔ سوشل میڈیا نے داعی حق کی اس آرزو کی تکمیل کر دی ہے۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے اہل اسلام کو یہ شکوہ تھا کہ ماس میڈیا پر بڑے بڑے سرمایہ دار قابض ہیں۔ سرمایہ دارانہ استعمار ساری دنیا میں اسلام کو اپنے لیے رکاوٹ سمجھتا ہے چنانچہ دنیا ٹی وی کے اسکرین پر اسلام کے مخالفین کو ہی دیکھتی ہے۔ اخباروں میں انہی کو پڑھتی ہے۔
جہاں سوشل میڈیا سماجی تبدیلی سماج میں بیداری لانے اور لوگوں کو کسی بڑے مقصد کے لیے متحرک و مجتمع کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے وہیں بعض ماہرین اس کو سماج میں رکاوٹ بھی قرار دیتے ہیں ۔ آج بھی کتنے لوگ ہیں جو کسی احتجاجی جلسہ میں آنے پر جلسہ کی لائیو اسٹریمنگ دیکھ لینے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ آن لائن پیٹیشن کو سائن کر کے ان کا ضمیر مطمئن ہو جاتا ہے کہ احتجاج کا حق ادا ہو گیا۔ بہت سے لوگوں کے لیے سماجی کاز بھی سوشل میڈیا پر اپنی سماجی پوزیشن بہتر بنانے کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ سچ پوسٹ کرنے والے کی دلچسپی اس بات سے کم ہوتی ہے کہ کتنے لوگ اس کے مقصد اور اس کی دعوت سے متفق ہوئے دلچسپی کا مرکز یہ ہوتا ہے کہ کتنے لوگوں نے اس کی پوسٹ کو لائک کیا؟ کتنے کمنٹ آئے کتنے شیر ہوئے۔ آج فیس بک کے استعمال کرنے والوں کی تعداد دو بلین ہو چکی ہے۔ یعنی فیس بک اگر کوئی ملک ہوتا تو دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوتا ۔ گویا انسانیت کے بہت بڑے حصہ تک اپنی بات پہنچانا انتہائی آسان ہو گیا ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا نے بے آوازوں کو آواز بخشی ۔ اس بات کو ممکن بنایا کہ اگر پیغام میں طاقت اور کشش ہے تو وہ وسائل اور دولت کے سہارے کے بغیر محض اپنی اندرونی کشش اورطاقت کے بل پر پھیلے اور اثر انداز ہو۔ یہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ اہل اسلام کی اصل طاقت پیغام کی طاقت ہے۔ ان کے پاس خدا کا پیغام ہے جو بے پناہ کشش اپنے اندر رکھتا ہے۔ اس طرح سوشل میڈیا نے اس اصل طاقت کو بروئے کار لانے کے مواقع کئی گنا بڑھا دیے ہیں اور امکانات کی ایک وسیع دنیا کےدروازے کھول دیے ہیں لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے تصویر کا دوسرا رخ کیا ہے؟ اس کی وضاحت درج ذیل حقائق سے ہوتی ہے۔
انٹرنیٹ کے شروع کے سالوں میں مسلمانوں نے انٹرنیٹ پر تیزی سے اچھی جگہ بنالی تھی۔ گزشتہ دہے کے ختم تک بھی کئی اسلامی سائٹس دس مقبول ترین مذہبی سائٹس میں شامل ہوتی رہیں۔ اسلامی تحریک سے وابستہ نوجوانوں نے بھی انٹرنیٹ پر فعال سرگرمی شروع کردی تھی ۔ لیکن پھر اس کے بعد منظر نامہ تیزی سے بدلنے لگا۔ انٹرنیٹ پر نہایت متعصب اسلام دشمن سائٹس بڑے وسائل کے ساتھ سر گرم ہونے لگیں ۔ آج صورت حال یہ ہے کہ اسلام سے متعلق کسی بھی موضوع کو آپ سرچ کرتے ہیں تو بڑی تعداد میں پہلے صفحہ پر اسلاموفو بک سائٹس ہی نظر آتی ہیں۔ نیوز پیپرز ڈسکشن فورم یا سوشل میڈیا میں اسلام سے متعلق کوئی بھی موضوع چھڑتا ہے تو آنا فانا شدید مخالفانہ پوسٹوں کا سیلاب آجاتا ہے۔ مغلظات اور گالی گلوچ سے لے کر سنجیدہ لیکن سخت تنقیدوں تک ہر سطح کی مخالفانہ پوسٹ آنے لگتی ہیں۔ یہ صورتحال عالمی سطح پر بھی ہے اور ہمارے ملک میں بھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کام کے لیے منظم نیٹ ورک لگے ہوئے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں اہل اسلام کی سوشل میڈیا سرگرمی کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تر درج ذیل اقسام سے متعلق ہے۔
نامحرم خواتین سے ضروری فاصلہ رکھیے۔ یا د رکھیے کہ نا مناسب اختلاط جس طرح حقیقی زندگی میں ممنوع ہے اسی طرح آن لائن زندگی میں بھی ممنوع ہے۔ مناسب حدود کا لحاظ رکھتے ہوئے علمی فکری تحریکی مقاصد کے لیے سنجیدہ تبادلہ خیال و تبادلہ معلومات یقینا غلط نہیں ہے لیکن اگر یہ سلسلہ آگے بڑھ کر بے تکلف بات چیت ہنسی مذاق چھیڑ چھاڑ تبادلہ تصاویر خانگی امور و معاملات پر غیر ضروری گفتگو وغیرہ کی حدود میں داخل ہونے لگے تو سمجھ لیجئے کہ شیطانی چالیں کامیاب ہونے لگی ہیں۔جو بات بھی لکھئے یا کسی اور کو فارورڈ کیجئے تو تحقیق کر لیجئے ۔ حدیث میں ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے دوسروں تک پہنچادے۔ یاد رکھئے کہ سوشل میڈیا ایک طاقتور ذریعہ ابلاغ ہے۔ اس پر لکھے اور بولے جانے والے لفظ لفظ کا جتنا بڑا اثر ہے اتنی ہی زیادہ جواب دہی ہے۔ ہمیں ہر لفظ کا خدا کے حضور جواب پیش کرنا ہے۔مش کیجئے کہ سوشل میڈیا پر بھی کوئی آپ کا مربی ہو جو آپ کی پوسٹ اور آن لائن سرگرمی پر نظر رکھے۔ بروقت ٹو کے بہتری کے لیے ضروری مشورے دے۔ خود جس کی سرگرمی کو آپ اپنے لیے ماڈل بنائیں اور جہاں بھی کوئی الجھن در پیش ہو اس سے بے تکلف مشورہ کر سکیں۔ اسی طرح ہمیں ایک دوسرے کے لیے تو امی بالحق کا فریضہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر بھی انجام دینا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کی کمزوریوں پر بروقت ذاتی طور پر متوجہ کرتے رہیں اور انجام دیتا ہے۔ الزام ایک دوسرے کی تر صالح لی سرگرمیوں اور اس کے مواقع کی طرف ایک دوسرے کی نشاندہی کریں تو اس طرح کی باہمی تعاون سے بھی بہت سی غلطیوں سے اور غلط رویوں سے بچنا ممکن ہو جاتا ہے
