پردے کے سائے میں بگڑتی روح
انیس الرحمن حنفی رضوی بہرائچ شریف
استاذ و ناظم تعلیمات جامعہ خوشتر رضائے فاطمہ گرلس اسکول سوار ضلع رامپور یوپی
اسلام ایک ایسا کامل و اکمل دین ہے جو نہ صرف عبادات کا جامع نظام دیتا ہے بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کے لیے مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ اس کا پیغام صرف ظاہری اصلاح تک محدود نہیں بلکہ قلب و روح کی پاکیزگی، ذہنی بالیدگی، اور معاشرتی ہم آہنگی تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی نظامِ حیات کا ایک اہم جزو "پردہ" ہے، جسے قرآن و سنت نے عورت و مرد کی عفت و عصمت کے تحفظ، معاشرتی پاکیزگی کے قیام، اور فتنہ و فساد کے انسداد کے لیے لازم قرار دیا ہے۔ پردہ محض لباس کا نام نہیں، بلکہ ایک جامع تصور ہے جس میں نظریں، الفاظ، حرکات، میل جول، اور نیتیں سب شامل ہیں۔تاہم آج کے دور میں، جب ہر طرف مادیت، لادینیت، اور مغربی ثقافت کی یلغار ہے، پردہ ایک ایسی علامت بن چکا ہے جس پر مذہبی، سیاسی، اور سماجی سطح پر بحث چھڑ چکی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی مسلم معاشروں میں پردے کی ظاہری موجودگی کے باوجود وہ روحانی تطہیر، وہ فکری بالیدگی، اور وہ ایمان کی حرارت باقی نہیں رہی جس کے لیے پردہ مشروع کیا گیا تھا۔ نتیجتاً ہم ایک ایسے المیے کا سامنا کر رہے ہیں جسے ہم نے یوں بیان کیا: "پردے کے سائے میں بگڑتی روح۔"
پردے کا حکم شریعتِ اسلامیہ میں قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں پردے کے احکام بڑی وضاحت اور تاکید کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ شریعتِ اسلامیہ میں پردہ فرض، واجب اور لازم ہے۔ یہ حکم صرف عورت کے لیے نہیں بلکہ مرد کے لیے بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ..." (سورۃ النور، آیت 31)
ترجمہ (کنز الایمان)اور مسلمان عورتوں سے فرماؤ کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا خود ظاہر ہے، اور اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں۔"اس آیت سے واضح ہے کہ پردہ عورت کے لیے محض ایک انتخاب نہیں، بلکہ اس کی عزت، وقار، اور روحانی تحفظ کا خدائی ضابطہ ہے۔اسی طرح مردوں کو بھی حکم دیا گیا:قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغْضُضُوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ... (سورۃ النور، آیت 30)ترجمہ (کنز الایمان): "مسلمان مردوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں کچھ نیچیرکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظتکریں۔"حدیث مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشیطان۔" (سنن الترمذی ترجمہ: عورت ستر ہے، جب وہ گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے دیکھتا ہے۔یہ سب دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ پردہ اسلامی معاشرت کا بنیادی ستون ہے اور شریعت میں اس کی حیثیت فرض کے درجہ کی ہے۔مسلم معاشروں میں موجودہ صورتحال آج جب ہم مسلم دنیا کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمیں پردے کے حوالے سے تین بڑی انتہائیں نظر آتی ہیں:
مکمل انکار: کچھ حلقے پردے کو فرسودہ، دقیانوسی، اور عورت کی ترقی میں رکاوٹ قرار دے کر اس کی مکمل نفی کر رہے ہیں۔ یہ طبقہ مغربی تہذیب سے اس قدر متاثر ہے کہ وہ اسلامی احکام کو شخصی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔ مسلط شدہ پردہ: کچھ معاشروں میں پردہ زبردستی، جبر، اور خوف کے تحت کروایا جاتا ہے۔ اس میں عورت کی مرضی اور شعور کو نظر انداز کیا جاتا ہے، نتیجتاً وہ پردہ کو بوجھ سمجھتی ہے نہ کہ عزت کا ذریعہ۔ظاہری پردہ، باطنی بگاڑ: یہ سب سے زیادہ تشویشناک صورت ہے، جہاں عورت نقاب میں ہے مگر سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر لگا رہی ہے، وہ حجاب میں ہے مگر گفتگو، انداز، اور فیشن سے حیا کا جنازہ نکال رہی ہے۔
یہی وہ کیفیت ہے جسے ہم نے کہا: "پردے کے سائے میں بگڑتی روح۔" اس بگاڑ کی بنیادی وجہ پردے کی اصل روح سے ناواقفیت، والدین و علماء کی تربیتی کمزوری، اور میڈیا کا منفی کردار ہے۔
پردہ اگر محض چادر یا نقاب تک محدود ہو اور اس کے پیچھے علم، شعور، اور روحانی تعلق نہ ہو تو وہ بگاڑ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ:علماء اور والدین، پردے کی حکمت کو نہایت حکمت و محبت سے نئی نسل کو سمجھائیں۔
نصاب میں حیا، عفت، اور شعور کے موضوعات کو شامل کیا جائے۔ریاستیں نہ زبردستی کریں نہ غفلت، بلکہ فکری اصلاح اور ترغیب کے ذریعے اسلامی معاشرت کو مضبوط کریں۔
پردہ اگر شعور سے ہو تو روح کو پروان چڑھاتا ہے، لیکن اگر صرف رواج اور دباؤ سے ہو، تو یہ بگاڑ اور نفاق کا باعث بنتا ہے۔ پردے کے سائے میں روح کی بقا اسی وقت ممکن ہے جب وہ سائے دل سے قبول کیے گئے ہوں، نہ کہ صرف جسم پر اوڑھے گئے ہوں۔