Oct 23, 2025 07:51 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
نمک کا حق (افسانہ)

نمک کا حق (افسانہ)

28 Aug 2025
1 min read

نمک کا حق (افسانہ)

غلام جیلانی قمر 

 خیرا،بانکا(بہار)

رابطہ:7067612419

گاؤں کے سرے پر ایک پرانا گھر تھا، جس کے صحن میں نیم کا درخت اپنی شاخیں جھکائے یوں کھڑا رہتا جیسے کسی بچے کو سایہ دے رہا ہو۔ گرمیوں میں اس کے پتے سرسراتے تو سلیم کو لگتا جیسے کوئی ماں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہی ہو۔ اسی درخت کے نیچے وہ اکثر بیٹھا رہتا... خاموش، مگر اندر سوچوں کا ایک طوفان مچا ہوتا۔ وہ ابھی اتنا ننھا تھا کہ اسے پوری طرح معلوم بھی نہیں کہ اس کے باپ کی لاش کو ایک مہلک بیماری نے زمین میں دفن کر دیا ہے۔

کچھ عرصے بعد اس کی ماں بھی غربت اور رنج کے بوجھ تلے بیمار پڑی اور سلیم کو اکیلا چھوڑ گئی۔ اس کے ماں باپ کی چھوڑی ہوئی وراثت میں صرف ایک ٹوٹا ہوا کچا مکان، چند پرانے برتن اور کچھ یادیں تھیں۔ شروع کے چند دن گاؤں کے چولہے اس کے لیے جلتے رہے۔ کبھی کوئی عورت ایک پلیٹ میں گرم روٹی رکھ کر چلی جاتی، کبھی کوئی بزرگ اپنے پرانے کپڑوں میں سے اس کے ناپ کے کپڑے نکال کر دے جاتا۔ ان کی آنکھوں میں ترس اور دل میں ہمدردی جھلکتی تھی، اور سلیم کو لگتا کہ دنیا

شاید اب بھی خالی نہیں ہے۔ مگر وقت کے بہتے دھارے میں یادیں دھندلا جاتی ہیں۔ ایک روز جب وہ شام کو گھر لوٹا تو کمرے کی دیواروں پر اندھیرا ناچ کر رہا تھا اور نہ کوئی روٹی دینے آیا نہ خیریت دریافت کرنے۔ اس دن اس نے بھوک اور تنہائی کا ایک نیا مطلب سمجھا۔۔۔ وہ تنہائی جو جسم کو ہی نہیں، روح کو بھی کھا جاتی ہے۔ بھوک اس کا پیچھا کرتی، اور سردی اسے راتوں کو جگاتی۔ بس نیم کا درخت تھا جو اسے سایہ دیتا، اور ہوا کی خالی سسکی جو اس کے کانوں میں گونجتی۔

ایک شام یوسف چاچا جن کی شرافت اور پرہیزگاری کی مثالیں گاؤں میں دی جاتی تھیں، مسجد سے لوٹتے ہوئے رک گئے۔ ان کا چہرہ ہمیشہ نورانی رہتا اور زبان پر شکوہ نہیں آتا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ دکاندار کی بوری سے چاول کا تھیلا گرا، اور سلیم، جو پاس ہی مٹی سے کھیل رہا تھا، دوڑ کر تھیلا اٹھاتا ہے اور دکاندار کو سونپ دیتا ہے۔ دکاندار نے بس سر ہلایا، مگر یوسف چاچا کی نگاہوں میں سلیم کی وہ ایمانداری نقش ہو گئی۔ وہ گھر پہنچ کر اپنی بیوی رشیدہ سے کہنے لگے، “رشیدہ، وہ یتیم لڑکا سلیم… اس کی آنکھوں میں پاکیزگی ایسی ہے کہ دل بھر آیا۔ ایسی شرافت آج کل نظر نہیں آتی۔” رشیدہ نے چولہے پر روٹی پکاتے ہوئے سر اٹھایا، “تمہارا دل پھر پگھل گیا؟ ارے، پہلے اسے کھانا تو کھلا دو، پھر سوچنا۔”

اگلے دن رشیدہ نے سلیم کو آنگن کے باہر بیٹھا دیکھا۔ اس کے پاؤں مٹی سے اٹے تھے، کپڑے پھٹے، مگر آنکھیں صاف جھیل سی تھیں۔ رشیدہ نے پکارا، “بیٹا، یہاں آ، بھوک لگی ہے نا؟” سلیم نے سر جھکا کر ہاں کی۔ رشیدہ نے اسے اندر بلا کر دال اور روٹی دی۔ کھاتے ہوئے سلیم کی نظریں جھکی رہیں، جیسے وہ احسان کے بوجھ تلے دبا ہو۔ یوسف چاچا نے رشیدہ سے کہا، “ہم نے عمران کے بعد ایک اور بیٹے کی دعا مانگی تھی۔ شاید خدا نے اسے ہماری دہلیز پر بھیج دیا۔ اس کی آنکھوں کی حیا اور اس کا باوفا پن دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنا گھر دے کر ہمیں اس کی خدمت کرنی چاہیے۔” رشیدہ نے مسکرا کر کہا، “دیکھو یوسف، یہ بچہ ہمارے گھر کا حصہ بنے تو کیا برا ہے؟ اس کی سادگی دیکھ کر دل بھر آتا ہے۔”

وہیں صحن میں بیٹھے دونوں نے یہ فیصلہ کر لیا۔ دلوں کا فیصلہ جو عقل سے بھی زیادہ مضبوط تھا۔ رات گہری ہو چکی تھی اور سلیم اپنے کچے مکان کی طرف جا رہا تھا کہ رشیدہ نے اسے پکارا، "بیٹا، رک جاؤ!" سلیم پلٹا۔ رشیدہ اس کے قریب آئیں اور اس کے ننھے سے کانپتے ہوئے ہاتھ کو اپنے گرم ہاتھوں میں لے کر بولیں، "آج کے بعد تم اس گھر سے کہیں نہیں جاؤ گے۔" سلیم کی آنکھوں میں ایک سوال سا ابھرا۔ رشیدہ کی آواز میں ممتا کی پناہ تھی، "تمہارا وہ ٹوٹا ہوا گھر تمہاری یادوں کے لیے ٹھیک ہے، مگر رات گزارنے کے لیے تمہیں یہیں رہنا ہے۔ یہ گھر تمہارا ہے، ہم تمہارے یہ کہہ کر انہوں نے سلیم کو اپنے گلے سے لگا لیا۔ سلیم نے اپنی ماں کی موت کے کئی ماہ بعد پہلی بار کسی آغوش کی گرمی محسوس

اس کے برسوں کے تھمے آنسو چھلک پڑے اور اس نے رشیدہ کی قمیص بھگو دی۔ یوسف چاچا پاس آکر کھڑے ہوئے اور اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر بس اتنا کہا، "بیٹا، آج سے تم ہماری امانت ہو۔" اس رات، سلیم کو گرم کھانا ملا جو اس کی روح تک اتر گیا، اور اس نے ایک نرم بستر پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں۔ وہ پہلی بار ایسی چھت کے نیچے سو رہا تھا جو ٹوٹ کر گرنے کا خوف نہیں دیتی تھی۔ رات کے سناٹے میں اسے نیم کے درخت کی سسکی نہیں، بلکہ رشیدہ اور یوسف کی نرم آوازوں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ یہ شور اس کے دل میں سکون اتار رہا تھا۔ اگلی صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو کمرے میں سورج کی مدھم روشنی پھیلی تھی اور باہر سے عمران کی ہنسی کی آواز آ رہی تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ اب اس کی دنیا ویران نہیں رہی، اور نہ ہی اسے ہر صبح بھوک کے ڈر سے اٹھنا پڑے گا۔ اسے لگا جیسے اس کے دل میں برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل گئی ہو۔ اب وہ خالی ہاتھ، خالی پیٹ اور خالی دل نہیں تھا۔ اس نے صبح اٹھتے ہی اپنے آپ کو اسی گھر کا حصہ سمجھ لیا اور اس کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں خوشی اور اپنائیت ڈھونڈنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سلیم اور عمران کی دوستی سگے بھائیوں سے بھی بڑھ گئی۔ دونوں روزانہ ایک ساتھ گاؤں کے مکتب میں پڑھنے جاتے تھے۔ عمران شرارتی تھا، مگر سلیم کی طبیعت میں ٹھہراؤ اور ذہانت تھی۔ وہ سبق کو جلدی سمجھ لیتا اور مکتب سے لوٹنے کے بعد اپنے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتا۔ وہ عمران کے بستے کو سیدھا کرتا، رشیدہ اماں کے لیے پانی لاتا، اور شام کو یوسف چاچا کے مویشیوں کو چارہ ڈالتا۔ سال پہ سال گزرتے گئے۔ سلیم کا قد بڑھا، کندھے چوڑے ہوئے اور اس کی آنکھوں میں بچپن کی بے بسی کی جگہ خودداری کا نور آ گیا۔ وہ اب صرف ایک یتیم نہیں تھا، بلکہ یوسف چاچا کے گھر کا ایک مضبوط ستون تھا۔ صبح وہ کھیتوں میں ابا کے ساتھ ہل چلاتا، اور شام کو گھر کے کاموں میں رشیدہ اماں کا ہاتھ بٹاتا۔ گاؤں کے بوڑھے اکثر سرگوشیوں میں کہتے: "یوسف نے ایک یتیم کو سہارا نہیں دیا، بلکہ اپنے لیے ایک فرشتہ پال لیا ہے۔" رشیدہ اور یوسف اسے یوں محنت کرتے دیکھتے تو ان کی آنکھوں میں فخر اور محبت کا سمندر امڈ آتا۔ انہیں لگتا، وہ ایک نہیں، بلکہ دو بیٹوں کے ماں باپ ہیں۔ پھر جوانی کا دھوپ بھرا دن آیا تو حالات بدلے۔ ایک شام سلیم یوسف چاچا کے قدموں کے پاس بیٹھا تھا، جس طرح کبھی بچپن میں ان کے قدموں میں کھیلتا تھا۔ وہ بولا، "ابا، آپ لوگوں نے بہت کیا۔" اس کی آواز میں ایک ٹھہراؤ تھا۔ "اب میں شہر جا کر کماؤں گا۔ آپ نے مجھے اپنا بیٹا بنایا، اب یہ میرا فرض ہے کہ میں بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہو کر اپنا اور اس گھر کا نام روشن کروں۔" یوسف چاچا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا: "جا بیٹا، مگر یہ نہ سمجھنا کہ تو پرایا ہے۔ اس گھر کا در ہمیشہ کھلا رہے گا۔" شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے اسے ہر طرف صرف دھول، شور اور گمنامی ملی۔ وہ شہر میں شفیق چاچا نامی ایک ٹھیکیدار کے پاس مزدوری کرنے لگا۔ شفیق چاچا نے جلد ہی اس لڑکے کو پہچان لیا۔ سلیم جب کام پر ہوتا تو اس کے ہاتھ ہتھوڑے اور کدال میں ہوتے، مگر اس کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک اطمینان اور دل میں ایک باوقار سکون رہتا تھا۔ وہ کبھی اپنے کام سے جی نہیں چراتا، اور نہ ہی اپنی زبان سے کسی کے لیے کوئی غلط لفظ نکالتا تھا۔ دوسرے مزدور جب کام کے دوران سست پڑتے تو سلیم خاموشی سے اپنے کام میں لگا رہتا۔ شفیق چاچا کئی مہینوں سے سلیم کی محنت، شرافت اور ایمانداری کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ ایک شام جب کام ختم ہوا اور تمام مزدور جا چکے تھے، شفیق چاچا نے سلیم کو اپنے پاس بلایا۔ وہ چائے کے ڈھابے پر بیٹھے اور شفیق چاچا نے سلیم کو ایک کپ چائے پیش کی۔ انہوں نے اپنے لہجے کو ہلکا رکھتے ہوئے کہا، "سلیم، میں تمہیں پچھلے کئی مہینوں سے دیکھ رہا ہوں۔ تم نے نہ کبھی کام سے جی چرایا، نہ تمہاری زبان سے کوئی گلہ سنا۔ میرے ایک دوست ہیں، استاد نعیم۔ وہ بھی تمہاری طرح محنتی اور صاف دل انسان ہیں۔ ان کی ایک بیٹی ہے، حلیمہ۔ شریف اور سلیقہ مند۔ وہ بھی ایک ایسے لڑکے کی تلاش میں ہیں جو ہاتھ کا سچا ہو، اور جس کے دل میں خدا کا خوف ہو۔ میں نے ان کے لیے بہت سے رشتے دیکھے، مگر جو پاکیزگی اور محنت تمہارے اندر ہے، وہ مجھے کہیں اور نہیں ملی۔ اگر تم چاہو تو... میں یہ بات آگے بڑھاؤں؟" سلیم کا دل ایک لمحے کے لیے دھڑکا، اس نے سر جھکا لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس اپنا کچھ بھی نہیں ہے، مگر اس کے دل میں اپنے گھر کا خواب جاگا۔ اس نے سوچا کہ یہ قدم بڑھانے سے پہلے اپنے والدین سے مشورہ کرنا ضروری ہے۔ اگلی صبح وہ گاؤں لوٹ آیا۔ یوسف چاچا اور رشیدہ بیگم نے اسے دیکھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ کھانے کے بعد سلیم نے ہمت کر کے اپنا دل کھولا۔ “ابا، اماں، میں شہر میں مزدوری کرتا ہوں، مگر میں چاہتا ہوں کہ میری اپنی بھی ایک چھت ہو۔ ہمارے ٹھکیدار شفیق چچا نے ایک نیک لڑکی کا رشتہ بتایا ہے۔” سلیم نے نظریں جھکا کر بات جاری رکھی، “اگر آپ لوگ اجازت دیں، تو میں اس بات کو آگے بڑھاؤں۔” یوسف چاچا اور رشیدہ بیگم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ان کی آنکھوں میں فخر اور محبت تھی۔ رشیدہ بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا، “جا بیٹا، ہماری دعا تیرے ساتھ ہے۔ تیری رضا میں ہماری رضا ہے۔” یوسف چاچا اور رشیدہ بیگم نے اس رشتے کو نہ صرف قبول کیا بلکہ سلیم کے ساتھ مل کر لڑکی دیکھنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اگلے دن وہ تینوں شہر گئے، تاکہ اپنی آنکھوں سے وہ لڑکی دیکھ سکیں جس سے سلیم اپنی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا تھا۔ رشتہ دیکھنے کا دن آیا۔ استاد نعیم کے چھوٹے سے مکان میں سفید چادر بچھی تھی، کونے میں سلائی مشین پر آدھی سلی قمیص ٹنگی تھی۔ یوسف چاچا نے استاد نعیم اور شفیق چچا سے بات چیت شروع کی۔ سلیم ایک طرف خاموشی سے کھڑا تھا، اس نے یوسف چاچا کی باتوں کو غور سے سنا۔ جب کوئی سوال اس سے کیا جاتا تو وہ صرف اشاروں میں جواب دیتا، اس کی نظریں جھکی رہتیں، مگر اس کی آنکھوں میں امید کی ایک نئی کرن دکھائی دیتی تھی۔ یوسف چاچا نے لڑکی دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس رشتے کے لیے بالکل راضی ہیں۔ اس کے بعد وہ تینوں گاؤں واپس لوٹ آئے۔ یوسف چاچا اور رشیدہ بیگم نے دھوم دھام سے شادی کروانے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں میں خوشیاں منائی گئیں اور سب نے کہا کہ یوسف نے اس یتیم کو صرف گھر نہیں دیا بلکہ اس کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنا گھر بسا سکے۔ اس سے گاؤں والوں کے دل میں یوسف چاچا اور رشیدہ بیگم کی عزت اور بھی بڑھ گئی۔ شادی کے بعد سلیم نے اپنے والدین سے اجازت لی اور اپنی بیوی حلیمہ کے ساتھ شہر میں رہنے لگا، تاکہ وہ اپنی نئی زندگی کی شروعات کر سکے۔ شروع کے دن بہت سادہ مگر خوشی سے بھرپور تھے۔ وہ ایک دوسرے کو چائے کا کپ دیتے، کبھی حلیمہ اس کے تھکے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرتی تو کبھی سلیم اسے کام سے لوٹتے ہوئے پھول تھما دیتا۔ وہ دن رات محنت کرتے تاکہ جلد ہی اتنا پیسہ اکٹھا کر لیں کہ ذاتی مکان خرید سکیں اور ایک بہتر زندگی شروع کر سکیں۔ چھ ماہ، پھر ایک سال، اور پھر کئی سال گزر گئے۔ ان کا گھر محبت اور قناعت سے بھرا تھا، مگر اس گھر کی دیواروں میں ایک عجیب سی خالی جگہ محسوس ہوتی تھی۔ سلیم شام کو جب کام سے لوٹتا تو حلیمہ دروازے پر منتظر ہوتی، لیکن ان کی آنکھوں میں ایک ہی سوال ہوتا، ایک ہی خالی پن ہوتا۔ وہ ہر ماہ دل میں امید کا ایک چراغ جلاتے، اور پھر وہ بجھ جاتا۔ وہ ہر درگاہ پر گئے، ہر بزرگ سے ملے، اور ہر حکیم کی دوا آزمائی۔ حکیموں کے دیے ہوئے کڑوے سفوف، پنساری کی دکانوں سے لائی ہوئی جڑی بوٹیاں اور لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا سب کچھ انہوں نے کیا، مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ جب کوئی امید نظر نہ آئی تو وہ شہر کے بڑے ہسپتالوں میں بھی گئے، جہاں ڈاکٹروں نے بھی کئی طرح کے ٹیسٹ کیے۔ ہر ٹیسٹ کے بعد ان کے دل میں ایک نئی کرن جاگتی، مگر رپورٹ آنے پر وہ کرن بجھ جاتی۔ ان کی یہ بھاگ دوڑ اور کشمکش ان کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔ ایک دن اسپتال کے سرد کمرے میں ڈاکٹر نے چیئر کے پچھلے حصے پر ہاتھ رکھ کر کہا، “سلیم، تم میں بانجھ پن ہے… قدرت نے تمہیں باپ بننے کی صلاحیت نہیں دی۔” لفظ کانچ کے ٹکڑوں کی طرح سلیم کے اندر اترے۔ حلیمہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، مگر اس کی انگلیاں بھی لرز رہی تھیں۔ اس دن کے بعد سے ان کے کمرے میں روشنی کم ہو گئی، اور ان کے خوابوں کا گھر دھیرے دھیرے ویران ہونے لگا۔ وہ دیوار جس پر ان کے بچوں کی ہنسی کا نشان لگنے کا خواب تھا، اب خالی اور بے جان لگتی تھی۔ کچھ دنوں میں گھر میں خاموشی نے جگہ بنا لی۔ کھانا بنتا، مگر ذائقہ کھو گیا۔ ایک رات حلیمہ باورچی خانے میں کھڑی کھانا بناتے ہوئے رک گئی۔ اس کی ہتھیلیوں پر مہندی کے نقش دھندلے پڑ چکے تھے۔ اس نے اپنی ہتھیلیوں کو دیکھا، اسے ایسا لگا کہ اس کے ہاتھوں کی مہندی کے رنگ بھی اس کی قسمت کی طرح پھیکے پڑ گئے ہیں۔ اس کی آنکھوں میں نمی تھی، مگر وہ اپنے آنسو پونچھنے کی بجائے سر جھکائے بولی، “سلیم… میں نے بہت سوچا ہے۔ میں شاید کمزور ہوں، مگر یہ خلا… یہ گھر، یہ خاموشی، میں اسے بھر نہیں پا رہی۔ عورت کے حصے کی خوشی اگر نہ ملے تو وہ اندر سے ٹوٹ جاتی ہے۔” اس کی آواز لرزی، جیسے وہ اپنے الفاظ سے ڈر رہی تھی۔ “مجھے معاف کر دو، سلیم… میں اپنی ماں کے گھر جا رہی ہوں۔” سلیم نے یہ سنا تو اس کے دل کو جھٹکا لگا۔ وہ دوڑ کر آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “حلیمہ، میری جان… کہاں جا رہی ہو؟ کیا میں تمہیں پیار نہیں دیتا؟ کیا میں نے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی؟” اس کی آنکھیں التجا کر رہی تھیں۔ “ہم اس دکھ میں ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔ اگر تم بھی چلی گئیں تو میں تو جیتے جی مر جاؤں گا۔” حلیمہ نے نظریں جھکائے رکھیں، اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ “میں جانتی ہوں سلیم، تم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر یہ خالی پن مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میرا دل خالی، گود خالی…” اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ سلیم کی گرفت سے چھڑایا۔ “مجھے معاف کر دو، سلیم… یہ رشتہ ہماری خوشیوں کا نہیں، صرف دکھ کا ساتھی بن گیا ہے۔” وہ چند کپڑے باندھ کر نکل گئی۔ سلیم چوکھٹ پکڑے کھڑا رہا... نہ سوال، نہ شکوہ... بس ایک لمبی سانس میں خالی پن سمایا۔ اس کی آنکھوں میں ایک امید کی کرن تھی جو اب بجھ چکی تھی۔ حلیمہ کے قدموں کی چاپ گلی کے موڑ پر غائب ہوئی تو سلیم کے ارد گرد کی دیواریں اچانک بڑی اور بے جان لگنے لگیں۔ خالی کمرے میں اس کا اپنا سایہ بھی اسے اجنبی محسوس ہونے لگا۔ جس گھر میں محبتوں اور ارمانوں کے چراغ جلتے تھے، وہ اچانک ایک خالی کھنڈر بن گیا۔ وہ رات بھر بستر کے ایک کونے میں سسکتا رہا، جہاں حلیمہ کے بستر کا خالی حصہ اس کے وجود پر طنز کر رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا جیسے ایک بار پھر اس کے ماں باپ اس دنیا سے چلے گئے ہوں، اور وہ ایک بار پھر یتیم ہو گیا ہو۔ بھوک اور نیند اس سے روٹھ گئیں۔ اس کی ہنسی اس کے ہونٹوں کو بھول چکی تھی۔ وہ ہر روز کام پر جاتا، مگر اس کے ہاتھ ہتھوڑے اور کدال کی بجائے دل میں اٹھنے والے درد کو محسوس کرتے۔ مزدوری کے دوران اس کا ذہن کہیں اور بھٹکتا رہتا۔ وہ ان بچوں کے چہروں کو یاد کرتا جن کا خواب وہ اپنی ویران آنکھوں میں لیے پھرتا تھا۔ رفتہ رفتہ، اس کا جسم بھی اس کے دکھ کا ساتھ دینے لگا۔ بخار اس کی ہڈیوں میں اتر گیا اور سردی میں بھی اسے پسینہ آتا تھا۔ اس کی ہڈیوں کا ڈھانچہ واضح ہونے لگا۔ بیماری اور رنج نے اسے تھکا دیا۔ مزدوری کے ہاتھ رکنے لگے، کرائے کے پیسے جمع نہ ہوئے۔ ایک صبح اس نے صندوق میں دو جوڑے کپڑے رکھے، تالا لگایا، اور شہر کی سڑکوں سے گزر گیا۔ اسے معلوم تھا کہ ایک دروازہ اب بھی کھلا ہے۔ جب گاؤں کی حد شروع ہوئی تو سلیم کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ برسوں بعد اپنی مٹی پر قدم رکھتے ہی اسے لگا جیسے اس کے وجود کی تھکن پاؤں سے نکل کر زمین میں جذب ہو گئی ہو۔ گاؤں کے موڑ پر برسوں پرانا نیم کا درخت نظر آیا تو اس کے دل میں وہ تمام یادیں تازہ ہو گئیں جو کبھی اس کی سب سے بڑی پناہ گاہ تھیں۔ اس کی آنکھوں کے کونے بھیگ گئے، اسے لگا جیسے یہ درخت نہیں، بلکہ اس کا اپنا بچپن اپنی شاخیں پھیلائے اس کا انتظار کر رہا ہو۔ وہ اپنے آنسو پونچھتا ہوا قدم بڑھانے لگا۔ اس وقت تک یوسف چاچا اور رشیدہ بیگم اس فانی دنیا سے کوچ کر چکے تھے، مگر ان کے دیے ہوئے گھر اور تربیت کی چھاؤں سلیم کے لیے اب بھی موجود تھی۔ عمران اپنے صحن میں بیٹھا چارہ کاٹ رہا تھا کہ اس کی نگاہ دروازے پر پڑی۔ اس نے جب سلیم کو دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اس کے ہاتھ سے درانتی چھوٹ گئی۔ وقت کا دھارا جیسے تھم سا گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک دم بچپن کی بے فکری، بھاگ دوڑ اور محبت کے منظر ابھرنے لگے۔ برسوں کی جدائی کے بعد اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر اس کا دل پگھل گیا۔ اس نے دوڑ کر سلیم کو گلے لگا لیا اور اس کے کندھے پر سر رکھ کر رو پڑا۔ “سلیم! او میرے بھائی!” اس کی آواز گلوگیر تھی۔ یہ صرف ایک گلے ملنا نہیں تھا، بلکہ دو روحوں کا برسوں بعد پھر سے ایک ہونا تھا۔ سلیم کی آنکھوں میں برسوں کے تھکے آنسو اتر آئے۔ کھانے پر بیٹھے تو عمران کی بیوی نسرین چولہے کے پاس کھڑی اوٹ سے دیکھتی رہی۔ شروع میں اس کے دل میں ہچکچاہٹ تھی، اسے محسوس ہوا کہ ایک اور فرد کا بوجھ ان پر بڑھ جائے گا۔ رات کو جب بچے سو گئے، اس نے نسرین کو پاس بلاکر دھیرے سے کہا، “نسرین، وہ میرا بچپن ہے۔ میں نے تمہیں کبھی اس کی کہانی نہیں بتائی۔ وہ بچپن میں اکیلا تھا، ہمارے ماں باپ نے اسے سہارا دیا۔ آج زندگی نے اس کے ساتھ کیسا مذاق کیا ہے کہ اس کا گھر ویران ہو گیا ہے۔ جب تک ہمارے ماں باپ تھے، انہوں نے اسے اپنا بیٹا سمجھا۔ اور میں اسے اپنا بڑا بھائی اور مخلص دوست مانتا ہوں۔ وہ اتنا باوفا ہے کہ اگر ہماری خاطر مر بھی جائے تو اسے غم نہیں ہوگا۔” یہ سن کر نسرین کا دل پگھل گیا اور اس کی آنکھوں میں رحم جاگ اٹھا۔ اس نے شرمندگی سے نظریں جھکائیں اور کہا، “میں برا نہیں چاہتی، بس… ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی۔” عمران نے مسکرا کر کہا، “میں ہوں نا۔ اور دیکھنا، وہ خود بھی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹائے گا۔” اگلی صبح سے سلیم نے اپنے غموں کو رب کی رضا سمجھ کر قبول کرنا شروع کر دیا۔ وہ نیم کے تنے سے کمر لگائے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتا، ان کی کلکاریوں میں اسے وہ ہنسی سنائی دیتی جو کبھی اس کے اپنے گھر میں گونجنے کا خواب تھا۔ دھیرے دھیرے، اس کی تنہائی بچوں کے شور میں گھلنے لگی اور ویران دل میں سکون کی روشنی اترنے لگی۔ اس نے خود کو عمران کے گھر اور خاندان کی خدمت میں لگا دیا۔ وہ کھیتوں کے کاموں میں عمران کا ہاتھ بٹاتا، بچوں کو صبح اسکول چھوڑنے جاتا اور شام کو ان کا ہوم ورک بھی کراتا۔ اس کی موجودگی سے عمران اور نسرین کو ایک غیر معمولی راحت ملی۔ یوں عمران کی زندگی میں بھی ایک نئی امید جاگنے لگی اور اسے یہ اطمینان ہونے لگا کہ اس کے گھر کا ہر بوجھ بانٹنے والا کوئی موجود ہے۔ کچھ ماہ گزرے، گھر میں ہنسی لوٹ آئی۔ سلیم صبح کھیتوں میں ہل چلاتا، شام کو بچوں کے ساتھ چبوترے پر کہانیاں سناتا۔ ایک شام عمران بازار سے سبزیوں کا تھیلا اٹھائے لوٹ رہا تھا کہ تقدیر نے پلٹا کھایا۔ بستی کے موڑ پر ٹرک کی بریکیں چیخیں، لوگ دوڑے، اور عمران سڑک پر زخمی پڑا تھا۔ عمران کی خبر ملتے ہی سلیم ننگے پاؤں دوڑا۔ عمران کو خون میں لت پت دیکھ کر اس کا دل دہل گیا۔ وہ بھیڑ کو چیرتا ہوا، ٹیکسی کا انتظام کر کے، اسے قریبی اسپتال لے گیا۔ ہسپتال کی سرد راہداری میں سلیم بے بسی سے چلتا رہا، بار بار ڈاکٹروں سے التجا کرتا، "ڈاکٹر صاحب، اس کی جان بچا لیں، یہ میرا بھائی ہے۔" مگر ڈاکٹروں کی خاموشی اور سرد چہرے اس کے دل میں مایوسی کا خوف پیدا کر رہے تھے۔ اسپتال کے سفید کمرے میں سلیم اس کے سرہانے کھڑا تھا۔ عمران کی سانسیں چھوٹی ہو رہی تھیں۔ “سلیم… قریب آ…” اس کی آواز مدھم تھی۔ سلیم جھکا تو عمران نے ہاتھ تھاما، “میرے بچوں کی پڑھائی، ان کی پرورش، نسرین کی عزت، اور کھیتوں کی دیکھ بھال… سب تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں، تم سے بہتر کون؟ وعدہ؟” سلیم کی آنکھوں کے کنارے جلنے لگے تھے۔ “تم نے مجھے بچپن میں گھر دیا، عمران… اب میری زندگی تمہاری امانت ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں...نمک کا حق ادا کروں گا۔” چند دن بعد اذان کے ساتھ گاؤں میں بین کی آواز گونجی۔ عمران چلا گیا۔ صحن میں چیخیں تھمیں تو خاموشی نے سب کو مضبوط کیا۔۔۔ یا شاید کمزور۔ رات کے سناٹے میں سلیم نیم کے نیچے بیٹھا۔ اس کے ہاتھ میں عمران کا پرانا رومال تھا، جو اسپتال کے بستر پر ملا تھا۔ وہ رومال کو دیکھتا رہا، جیسے اس کے دھاگوں میں عمران کی ہنسی قید ہو۔ “تو نے کہا تھا ہم دونوں کا گھر ایک ہے،” سلیم نے دل ہی دل میں کہا، “اب میں اس گھر کو سنبھال لوں گا۔” سلیم نے آنسو اندر رکھے۔ وہ کھیت سنبھالتا، بچوں کی فیسیں دیتا، نسرین کے لیے حکیم کی دوا اور ڈاکٹر کی پرچی لاتا۔ رات کو وہ علی کے ریاضی کے سوال کرواتا، زینب کی خطاطی درست کرتا، حمزہ کے لیے کہانی سناتے سناتے خاموش ہو جاتا... کیونکہ کہانی میں عمران کی آواز کی جگہ خالی تھی۔ نسرین نے ایک دن آٹے کی چھلنی دھوتے ہوئے کہا، “سلیم بھائی… ایک بات کہوں؟” سلیم نے چونک کر دیکھا۔ “جب آپ آئے تھے، دل میں کھٹکا تھا… خرچ، ذمہ داریاں… مجھے معاف کر دیجیے گا۔ آپ نہ ہوتے تو یہ گھر بکھر جاتا۔” سلیم نے نظریں جھکائیں، “نسرین بھابی، آپ نے چولہا جلتا رکھا، میں نے بس لکڑیاں ڈالیں۔” سال گھلتے گئے۔ علی نے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا، زینب اسکول میں پڑھانے لگی، حمزہ نے پولیس سروس کا امتحان پاس کیا۔ ایک دن تینوں بہن بھائی نئے کپڑوں میں سلیم کے قدموں کے پاس بیٹھے۔ زینب نے کہا، “چچا، ہمیں بابا کی کمی محسوس ہوئی، مگر آپ نے کبھی خالی نہیں ہونے دیا۔” علی نے سلیم کا جھریوں والا ہاتھ تھاما، “آپ ہمارے بابا ہی ہیں، بس نام الگ ہے۔” شام ڈھل رہی تھی۔ نیم کے سائے لمبے ہو گئے تھے۔ سلیم اسی پرانی چوکی پر بیٹھا تھا جہاں کبھی وہ یتیم بچہ بیٹھتا تھا۔ نسرین نے چائے لائی اور درخت کے تنے کے پاس رکھ دی۔ “سلیم بھائی، چائے ٹھنڈی ہو جائے گی۔” سلیم نے پیالی اٹھائی، لبوں سے لگائی، اور آسمان کی طرف دیکھا۔ اسے یقین تھا کہ جہاں کہیں عمران ہے، وہاں تک یہ بھاپ پہنچتی ہوگی... اور اس بھاپ میں وہ عہد بھی جو اسپتال کے بستر پر کیا گیا تھا۔ گاؤں کے بوڑھے چبوترے پر سرگوشی کرتے، “سلیم نے تو سچ میں نمک کا حق ادا کیا۔” نیم کے پتے ہر جھونکے میں تھوڑا اور جھک جاتے، جیسے خاموش گواہی دے رہے ہوں۔ سلیم نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے چائے کی پیالی تھامی، اور اس کی نظریں اپنے سامنے کھیلتے ہوئے بچوں پر جم گئیں۔ اسے محسوس ہوا کہ اب اس کے خالی ہاتھ بھر چکے ہیں، اور اس کے ویران دل میں اب ایک ایسا خاندان بسا ہے جو خون کے رشتوں سے نہیں، وفا کے انمول رشتے سے جڑا ہے

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383