Oct 23, 2025 11:27 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
نیپال کی نئی سیاسی صورتحال: نوجوانوں کی تحریک اور سوشیلا کارکی کی قیادت :

نیپال کی نئی سیاسی صورتحال: نوجوانوں کی تحریک اور سوشیلا کارکی کی قیادت :

13 Sep 2025
1 min read

نیپال کی نئی سیاسی صورتحال: نوجوانوں کی تحریک اور سوشیلا کارکی کی قیادت : 

ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی عفی عنہ

نیپال آج ایک نازک اور تاریخی موڑ پر کھڑا ہے۔ ملک کی فضاؤں میں نوجوانوں کی آواز ایک نیا حوصلہ لے کر گونج رہی ہے — وہی نسلِ نو جو اپنی حقِ حیات اور انصاف کے تقاضوں کے لیے سڑکوں پر اتر آئی ہے۔ یہ احتجاجات، جنہیں عالمی ذرائع میں "Gen Z protests" کہا جا رہا ہے، محض شور و غل نہیں بلکہ بدعنوانی، بیروزگاری، حکومتی سنسرشپ اور شفافیت کے فقدان کے خلاف ایک پراثر اور بیدار کن پیغام ہیں۔

 یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہی خاموش و صابر نسل جو صبر و تحمل کی مثال سمجھی جاتی تھی، اب خاموشی توڑ کر حقِ عامہ کے لیے قوتِ اظہار رکھتی ہے — اور یہ تحریک بلاشبہ ملک کی تاریخ میں سنہرے ابواب میں درج ہو جائے گی۔ شاید یہ وہ لمحہ ہے جب نظامِ سیاست کے کچھ ایسے شکنجے پھٹے جنہوں نے برسوں تک کرپشن اور اثرورسوخ کے ذریعے اپنی برتری قائم رکھی؛ ایسے لیڈران اب نہ صرف عوامی نفرت کا شکار ہیں بلکہ اُن کی حکمرانی کی ساکھ بھی کچلے جانے لگی ہے — ایک عبرت انگیز منظر جو آنے والی نسلوں کے لیے سبقِ عبرت بن سکتا ہے۔ اس عمل میں مظاہروں کے دوران عوام کا ردِعمل بعض اوقات نہایت شدت اختیار کر گیا۔ برسوں سے کرپشن اور دھونس کے ذریعے اقتدار پر قابض رہنے والے نیتا ذلت و رسوائی کا وہ منظر دیکھنے پر مجبور ہوئے جو شاید سیاست کی تاریخ میں کم ہی نظر آیا ہو۔ دوڑا دوڑا کر مارنا، طمانچوں، لاتوں اور لاٹھیوں کی بارش، زبان کی تیز تلوار سے کاٹ دار جملے، اور یہاں تک کہ ندی نالوں میں دھکیل کر ذلیل کرنا — یہ سب کچھ اس قدر ہوا کہ اقتدار کی رعونت رکھنے والے لیڈران بے بسی کی تصویر بن گئے۔

 اگرچہ کسی پر تشدد یا اہانت کا منظر خوش آئند نہیں ہوتا، مگر بعض اوقات تاریخ اپنے سفر میں ایسے تلخ ابواب بھی رقم کر دیتی ہے جو نہ صرف عبرت کا سامان ہوں بلکہ آنے والی قیادت کو ہزار بار سوچنے پر مجبور کریں کہ عوامی اعتماد کے ساتھ دھوکہ اور بدعنوانی کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہی وہ کڑوی حقیقت ہے جس نے اس تحریک کی گہرائی اور نوجوانوں کے عزم کو مزید اجاگر کر دیا۔ نیپال کے موجودہ دن آئندہ نسلوں کے لیے ایک امتحانِ ضمیر ثابت ہوگا: آیا ریاست اور معاشرہ اس پکار کو سن کر اصلاحِ نظام کی راہ اپناتے ہیں، یا وہی رونقیں دوبارہ عہدوں کی زینت بن کر عوامی اعتماد کو مزید مجروح کرتی رہیں گی۔

 نئی وزیر اعظم: 

سوشیلا کارکی صدر رام چندر پاوڈل نے سابق چیف جسٹس سوشیلا کارکی کو عارضی وزیر اعظم مقرر کیا۔ سوشیلا کارکی نیپال کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہیں، اور ان کی تقرری ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے جب ملک میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ پارلیمنٹ تحلیل ہو چکی ہے اور چھ ماہ کے اندر نئے عام انتخابات متوقع ہیں، اس لیے ان کے پاس محدود وقت میں عوام کے اعتماد کو بحال کرنے اور ملک میں شفافیت قائم کرنے کا بڑا چیلنج موجود ہے۔ یہاں یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ نئی وزیرِاعظم کو مسلم حلقوں کے بااثر افراد، تنظیموں اور مدارس کے ذمہ داران کی جانب سے گلہائے تبریک اور کلماتِ تحسین ضرور پیش کیے جائیں۔ یہ وقت خاموش تماشائی بنے رہنے یا محض حالات کا دور سے مشاہدہ کرنے کا نہیں ہے، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ امتِ مسلمہ اپنی نیک خواہشات اور تعمیری جذبات کو برملا اظہار کے ساتھ سامنے لائے۔ آج صومِ سکوت اختیار کرنا دانائی نہیں بلکہ کمزوری شمار ہوگی؛ اس موقع پر حوصلہ افزا پیغام، دعائیہ کلمات اور مبارکباد کے ذریعے نہ صرف خیر سگالی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے بلکہ قومی وحدت و ملی اخوت کا ایک روشن باب بھی رقم کیا جا سکتا ہے۔

 Gen Z احتجاجات اور تشدد:

 نوجوانوں نے سڑکوں پر نکل کر انصاف، شفافیت، روزگار، اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے آواز بلند کی۔ تحریک کا مقصد واضح اور جائز تھا، لیکن افسوس کے ساتھ بعض عناصر نے تشدد اور تخریب کاری کو جنم دیا۔سرکاری عمارتیں، بینک اور دکانیں جلائی یا لوٹی گئیں،سرکاری گوداموں پر عوام نے دھاوا بول دیا جس کو جتنا میسر ہوا اناج لوٹ کر لے گئے،مولز میں بھی لوٹ مار ہوئی قیمتی سامان اٹھا کر لوگ لے گئے،نگر پالیکا کی الماریاں اور گیس سلنڈر یونہی انورٹر تک اٹھا کر لے گئے جو کہ کسی طرح درست نہیں تھے۔اس تحریک نوجوانوں کو اس جانب توجہ دینی چاہئے اور لوٹے گئے سامان کی تفتیش کرکے واپس کروانی چاہئے تاکہ تحریک کی پیشانی پر بدنامی کا داغ نہ لگنے پائے۔ 

شہری املاک کو نقصان پہنچا:

 یہاں سب سے زیادہ تنقیدی پہلو فوج اور پولیس کی ابتدائی کارروائی کی تاخیر ہے۔ اگر فوج نے ابتدائی مرحلے میں سخت اور بروقت کمان سنبھالی ہوتی،جس طرح بعد میں فعالیت دکھائی ہے تو یہ سرکاری املاک و مکانات کو نذر آتش کرنے اور مسمار کرنے جیسی تخریب کاری روکی جا سکتی تھی۔ نگر پالیکا، کورٹ، مالپوت ،سینھ دربار اور پولیس اسٹیشن جیسی اہم اور حساس عمارتیں عام طور پر محفوظ رہتی ہیں، لیکن ابتدائی غیر سنجیدگی نے احتجاج کو انتشار اور تباہی کی طرف دھکیل دیا۔ 

یہ سوال اٹھتا ہے کہ فوج کی تاخیر کی وجہ کیا تھی؟ کیا سیاسی دباؤ، احکامات کی الجھن، یا انتظامیہ کی غفلت اس کے پیچھے تھی یا کوئی اور سازش؟ ابتدائی فیصلہ نہ لینے کی قیمت صرف سرکاری املاک بلکہ عوام کی حفاظت پر بھی پڑی، اور اس نے تحریک کی پرامن روح کو نقصان پہنچایا۔ یہ ایک سبق ہے کہ کسی بھی ملک میں احتجاجات کے دوران فوج اور انتظامیہ کی بروقت اور متوازن کارروائی نہ صرف املاک بلکہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔

 سوشیلا کارکی کے سامنے چیلنجز: 

گذشتہ شب نئی وزیر اعظم کے طور پر سوشیلا کارکی حلف اٹھا چکی ہیں اور اب ان سامنے کئی نازک مسائل ہیں، جو فوری توجہ کے مستحق ہیں: نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنا: یہ دکھانا کہ حکومت ان کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے عمل کر رہی ہے۔ سیاسی استحکام قائم رکھنا: چھ ماہ کے محدود وقت میں ثابت کرنا کہ حکومت مؤثر اور غیرجانبدار ہے۔ معاشی بحران پر قابو پانا: بیروزگاری اور افراطِ زر کے بڑھتے رجحانات ملک کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ سفارتی توازن قائم کرنا: بھارت اور چین کے درمیان محتاط اور متوازن پالیسی اختیار کرنا تاکہ نیپال کی خودمختاری برقرار رہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی: فوری اصلاحات اور بدعنوانی کے خلاف اقدامات عوام کے دلوں میں یقین پیدا کر سکتے ہیں۔

 مذہبی طورپر غیر جانبدارانہ رویہ: یہ وقت اس امر کا بھی ہے کہ نئی قیادت عملی طور پر اپنے غیر جانبدارانہ رویے کا مظاہرہ کرے۔ صرف بیان یا دعوے سے کام نہیں چلے گا، بلکہ یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ہر مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ یکساں کھڑی ہیں، اور کسی بھی قسم کی مذہبی منافرت یا تفریق کو جنم نہیں دیں گی۔ معاشرہ میں مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینا لازمی ہے، تاکہ ہر عقیدے اور مذہب کے ماننے والے امن، تحفظ اور وقار کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ عمل نہ صرف حکومتی ذمہ داری ہے بلکہ ایک قومی فریضہ بھی ہے۔ ہر فرد، چاہے کسی بھی عقیدے، فرقے یا مذہبی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو، اسے یہ یقین دلایا جائے کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں، ان کی عبادات اور ثقافتی اقدار کا احترام کیا جائے گا، اور انہیں مساوی احترام اور عدل و انصاف کا حصہ ملے گا۔

 ایسی حکمت عملی سے معاشرتی فضا میں نہ صرف سکون قائم ہوگا بلکہ ایک مثبت مثال بھی سامنے آئے گی کہ مذہبی رواداری اور ہم آہنگی ریاستی رویے کا لازمی حصہ ہے۔ جب ہر شہری یہ دیکھے گا کہ مذہبی امتیاز کے بجائے انصاف اور مساوات کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں، تو نہ صرف امن کی فضا مضبوط ہوگی بلکہ عوام کا حکومتی اعتماد بھی بڑھے گا۔

 مستقبل کی امید:

 اگرچہ احتجاجات کے دوران تشدد ہوا، نوجوانوں کی اکثریت کا اصل مقصد ایک شفاف اور ذمہ دار حکومت قائم کرنا تھا۔ پرامن احتجاج اور اپنے مطالبات کی منطقی وضاحت کے ذریعے تحریک اپنی روحانی طاقت برقرار رکھ سکتی ہے۔ سوشیلا کارکی کی قیادت میں امید کی جا سکتی ہے کہ نیپال میں شفافیت، انصاف اور عوامی اعتماد کے ساتھ ایک نیا دور شروع ہوگا۔ یہ وقت صرف احتجاج کا نہیں، بلکہ نوجوانوں کے حوصلے، عوامی شعور اور سیاسی بصیرت کے امتحان کا بھی ہے۔ اگر نوجوان اپنی تحریک کو پرامن اور منظم رکھیں، تو یہ نہ صرف کامیاب ہوگی بلکہ ملک میں ایک مضبوط، شفاف اور ترقی یافتہ نظام کی بنیاد بھی رکھے گی۔تحریک کے متحرک و فعال افراد کو اس بات پر بھی توجہ دینی ہوگی کہ ملک بھر میں ذیلی کمیٹیاں ہوں جو اپنے اپنے علاقہ میں فعال رہیں اور کسی بھی طرح نفرتوں کے بازار گرم کرنے والی سرگرمیوں کو پنپنے نہ دیں،بلکہ بروقت اس کی گوشمالی کی جائے۔ شعلے بھڑکیں، مگر دلوں میں امن کی روشنی جلے یہ نوجوان ہی ہیں جو کل کا نیپال روشن کریں گے 

ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی عفی عنہ 13/ستمبر 2025

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383