امام احمد رضا نے عشق مصطفی ٰ ﷺ کا حقیقی مفہوم بتایا ہے
داؤد شیخ
متعلم شمس العلماء عربی کالج، کرناٹک
اعلی حضرت امام احمد رضا ا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تبارک و تعالی نے بہت سے خوبیوں اور کمالات سے نوازا انہں خوبیوں میں سے عمدہ اور نمایاں طرۂ امتیاز اپ کا بے پناہ عشق رسول سے بے حد وارفتگی اور شفیتگی ہے۔ آپ ایک سچے عاشق رسول ہیں اپ کے جیسا عاشق رسول اس دور میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ان کے عشق اور محبت رسول کی گواہی دیتے ہیں نہ اپ کے عشق کا جواب نہ اپ کی دیوانگی کی مثال وہ عاشق رسول میں تنہا نظر اتے ہیں ان کی محبت اور دیوانی کا عالم یہ تھا کہ وہ نبی کے خلاف ادنیٰ سا بھی لفظ سننا گوارا نہیں کرتے تھے ۔اگر کوئی حضور کی شان رفعت میں کمی کرتا تو آپ اس کے خلاف برسر پیکار ہو جاتے آپ منکر اور گستاخ نبی کے لیے شمشیر برہنہ اور ذوالفقار حیدری تھے۔ جب عرب کی سرزمین پر حضور کے علم غیب پر انگلیاں اٹھائی جا رہی تھی تو اپ نے صرف آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں ایک عظیم الشان کتاب لکھ کر عرب کے علماء کے سامنے پیش کر دی جس کا اعتراف خود عرب کے علماء بھی کرتے ہیں اس کتاب کا نام الدولة المكية بالمادة الغيبية جیسی شاندار کتاب عشق مصطفی میں لکھی ۔اپ کا ہر لمحہ دین کی خدمت میں گزرتا تھا اور اپ ہر وقت محبت رسول کے جام میں مدہوش رہتے تھے
اعلی حضرت مجدد ملت کی بارگاہ میں روزانہ بے شمار خطوط آتے تھے۔اپ کے خدام آپ کو خط پڑھ کر سناتے تھے ایک دن اپ کے خادم نے عرض کیا کہ کسی بدبخت دیوبندی گستاخ رسول نے اپ کو گالیاں لکھ کر بھیجی ہیں اتنا سننا تھا کہ امام عشق کو محبت کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی ۔خوشی اور شادمانی سے اپ کا چہرہ چمک اٹھا یہ دیکھ کر آپ کا خادم حیران ہو گیا اور عرض کیا حضور اپ کیوں خوش ہو رہے ہیں بدبخت دیوبندی نے اپ کی تعریف نہیں کررہاتھا بلکہ اپ کو گالی دے رہا تھا تو اعلی حضرت کہتے ہیں میں اس لیے خوش ہوں کہ جب وہ مجھے گالی دے رہا تھا تو اس کی زبان میرے محبوب کی برائی سے رک گئی ہوگی۔ اعلی حضرت کا عشق رسول دیکھیے گالی سن کر بھی خوش ہو رہے ہیں محبت رسول میں خود کی پرواہ نہیں ہے ۔جو نبی کی محبت میں ڈوب جاتا ہے اسے دنیا کی کسی چیز سے محبت نہیں ہوتی۔ اسے عشق میں ہی تسلی و تسکین ملتی ہے اعلی حضرت نے جو کچھ لکھا عشق رسول میں لکھا اپ نے جو کچھ کیا عشق رسول میں کیا۔ اپ نے امت مسلمہ کے لیے مضبوط ڈھال کا کام کیا اپنے باطل قوم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا باطل قوم کی سازش و فریب کی وجہ سے اہل سنت والجماعت کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی تھی آپ نے ان جڑوں کو مضبوط کیا آپ نے اپنی زندگی دین کے خدمت اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم
کے لیے وقف کر دی اپ کو دنیا کی آرائش و زیبائش میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اپ کو دولت و ثروت سے کبھی الفت نہ تھی آپ نے ہمیشہ اپنی زبان کو دولت و ثروت کی خوبی اور مدح بیان کرنے سے ناساز رکھا۔ ایک نان پارہ کے نواب نے آپ سے فرمائش کی کے آپ ان کے متعلق اشعار لکھیں۔ آپ نے صاف صاف انکار کر دیا کہ میرے قلم چلے گی تو صرف اور صرف خدا اور اس کے رسول کے لیے اور اپ کا عشق جھوم اٹھا اور اپ نے عشق ومحبت میں برجستہ کہا
کروح مدح اہل دول رضا پڑھے اس بلا میں میری بلا
میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارہ نان نہیں
ہمیں اس سے صاف صافہ پتہ چلتا ہے کہ اعلی حضرت امام احمد رضا کا ہر لمحہ عشق محمدی میں گزرتا تھا اپ نے تقریبا چھوٹی اور بڑی ایک ہزار کتابیں لکھی بالفرض اگر کسی کی عمر پچاس یا ساٹھ سال ہو اور وہ انتہائی شوق کے ساتھ کتابیں لکھے مگر وہ زیادہ سے زیادہ پانچ سو کتاب لکھ سکے گا مگر اعلی حضرت کو دیکھیے انہوں نے عشق میں ایسا لکھا کہ اس دور میں کوئی لکھ نہیں سکتا اس دور میں کوئی اعلی حضرت تک پہنچنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا محققین آپ کے متعلق کہتے ہیں کہ اپ نے اپنی عمر کے حساب سے بہت زیادہ لکھا یہ سب ممکن ہوا تو صرف حضور ہی کے صدقے جو کچھ حاصل ہوا عشق رسول ہی میں ہوا ۔اعلی حضرت حضور کی محبت میں اس قدر سرشار رہتے تھے اپ ہمیشہ مدینے کے تصورات میں کھوئے رہتے تھے اور اپ ہمہ وقت مدینے کو یاد کرتے رہتے اور اپنی زبان حال سے یہ کہتے
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
اعلی حضرت عشق و محبت اپنے دور کے مجدد تھے اس دور میں آپ جیسا کوئی پیدا نہیں ہو سکتا۔ زمین دوسرا ارسطو اور سقراط تو پیدا کر سکتی ہے مگر اس بات سے قاصر ھے کہ دوسرا امام احمد رضا پیدا کر سکے ۔ اعلی حضرت اپنے دور کے مفکر و عظیم فقیہ تھے ۔ سنیت اعلی حضرت ہی کی بدولت سلامت ہے جب ہر طرف باطلیت کے بادل امنڈ رہے تھے تو آپ نے سنیت کو ان باطل فرقوں کی زد سے دور رکھا۔ اگر اعلی حضرت نہ ہوتے تو باطل فرقے کب کا سنیت کو ڈھا دیتے ۔ آپ نے ہمارا ایمان بچایا ہمیں حضور سے محبت کرنے کا طریقہ بتایا اعلی حضرت کی فکر و فن کا آسمان اتنا فراخ ہے کہ ہم زمین کے پیمانے سے شمار نہیں کر سکتے۔ اسی لیے ایک شاعر کیا ہی خوب کہتا ہے
وادی رضا کی ہے کوہ ہمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیے وہ علاقہ رضا کاہے
اوروں نے بھی بہت کچھ لکھا ہے علم دین پر
جو کچھ اس صدی میں ہے وہ تنہا رضا کا ہے