نیپال اردو ٹائمز کے حوالے سے مختصر تأثر
ابو خالد قاسمی
فاضل دار العلوم دیوبند الھند
نیپال کی مجموعی آبادی کا قریب ۴.۲ فی صد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور ان کی ایک بڑی تعداد کی مادری زبان اردو ہے۔ بالخصوص نیپال گنج اس حوالے سے نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جہاں کی تقریباً ۲۸ فی صد آبادی مسلمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خطے میں اردو زبان و ادب کو تاریخی اور تہذیبی بنیاد حاصل رہی ہے۔
اردو کا زریں دور نیپال میں انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل میں دیکھا گیا۔ ہری پرساد تیمیلسینا اپنی کتاب "کیہی ٹپنی کیہی سمالوچنا" میں لکھتے ہیں کہ ۱۹۰۸ء سے ۱۹۲۸ء کے دوران نیپال گنج میں متعدد اردو کتابیں شائع ہوئیں، جس سے یہاں کی ادبی سرگرمیوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی روایت کا تسلسل ۱۹۵۷ء میں "بزمِ ادب" کے قیام سے مزید مضبوط ہوا۔
البتہ بعد کے ادوار میں اردو کے فروغ میں کچھ زوال کے آثار نمایاں ہوئے۔ نوجوانوں میں پڑھنے لکھنے کی روایت کمزور ہوئی، مگر بول چال میں اردو آج بھی زندہ اور مقبول ہے۔ اسی تناظر میں اردو صحافت نے زبان کو سہارا دینے کا اہم کردار ادا کیا۔
نیپال اردو ٹائمز اس سفر کی ایک نمایاں کڑی ہے۔ یہ جریدہ جہاں اردو بولنے والے طبقے کی ثقافتی اور ادبی شناخت کو اجاگر کرتا رہا وہیں نیپال کے اندر مسلمانوں کے سماجی و سیاسی مسائل کی ترجمانی بھی کرتا رہا۔ اخبارات اور رسائل نے ایک طرف اہلِ اردو کو فکری ربط دیا، دوسری طرف نیپال کے کثیر لسانی معاشرے میں اردو کے وجود کو ایک ادبی و تہذیبی حیثیت فراہم کی۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ نیپال میں اردو صحافت محض خبروں کی ترسیل کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ اس نے لسانی تحفظ، سماجی بیداری اور ادبی احیاء میں فعال کردار ادا کیا۔ اگرچہ جدید دور میں وسائل کی کمی اور تعلیمی زوال کے باعث اردو صحافت کو نئے چیلنجز درپیش ہیں، لیکن نیپال اردو ٹائمز جیسی کاوشیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ زبان کی بقا اور ترقی کے امکانات آج بھی باقی ہیں۔ بہر کیف نیپال اردو ٹائمز کے ممبران ، اراکین اور جملہ محرکین و مشارکین شکریے کے مستحق ہیں ، اللہ تعالیٰ ان حضرات کو بہترین صلہ عطا فرمائے ، اور نیپال اردو ٹائمز کو مزید تقویت ملے ۔
والسلام ۔