قربانی و استقامت کا مینارِ نور
(ابو خالد قاسمی)
غزہ کی سرزمین آج لہو میں نہائی ہوئی ہے۔ آسمان سے آگ کے گولے برس رہے ہیں، زمین پر غاصب دشمن نے اپنے ظلم کا جال بچھا دیا ہے، اور اس پر مزید ستم یہ کہ اہلِ غزہ کو خوراک و دوا سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جوان بھوک سے کراہ رہے ہیں، بچے دم توڑ رہے ہیں، بوڑھے بے بسی سے زمین پر گر رہے ہیں، اور ماؤں کی آغوشیں خالی ہو رہی ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ ان حالات میں بھی ان کے لبوں پر ناشکری کے شکوے نہیں بلکہ صبر و ایمان کی چمک نمایاں ہے۔ ساٹھ ہزار سے زائد شہداء اپنی جان قربان کر کے ابدی زندگی کی طرف جا چکے، ہزاروں بچے یتیم ہو گئے، بے شمار خواتین جوانی میں ہی بیوہ بن گئیں، ماؤں نے اپنی آنکھوں سے لختِ جگر کو شہادت کی وادی میں اترتے دیکھا، لیکن کوئی ایک بھی اہلِ غزہ ایسا نہیں جس نے مسجد اقصیٰ اور اپنے قبلۂ اول کے دفاع سے منہ موڑا ہو۔ کم وسائل، اسلحے کی قلت اور جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کے باوجود ان کے جذبے بلند ہیں۔ حماس کے رہنما ہوں یا قسام کے مجاہدین، ہر ایک نے زیرِ زمین سرنگوں اور اپنے عزمِ ایمانی سے دشمن کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ آج یہ حالت ہے کہ غاصب طاقتیں جنگ سے فرار کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہیں، جبکہ اہل غزہ اپنے سینے سپر کیے اعلان کر رہے ہیں کہ: یہ بازی حق کی بازی ہے، یہ بازی تم ہی ہارو گے ہر گھر سے مجاہد نکلے گا، تم کتنے مجاہد مارو گے یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا: مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللّٰهَ عَلَيْهِ (الأحزاب: 23) لیکن اس کے برعکس امت مسلمہ کی اکثریت اور نام نہاد حکمران خوابِ غفلت میں ہیں۔ اپنی خودمختاری پر ذرا سا حرف آئے تو شور مچانے والے، ساٹھ ہزار شہداء کی قربانی پر بھی خاموش ہیں۔ بیت المقدس صرف فلسطین کا نہیں بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے، لیکن ہماری کم ہمتی نے اسے چند افراد کا قضیہ بنا دیا ہے۔ یہی حالت علامہ اقبال کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے: ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے اہلِ غزہ کا پیغام یہ ہے کہ جنگ توپ و تفنگ سے نہیں بلکہ ایمان، غیرت اور شوقِ شہادت سے لڑی جاتی ہے۔ وہ موت کو فنا نہیں بلکہ عالمِ معنیٰ کا سفر سمجھتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا: نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غیور موت کیا شے ہے، فقط عالمِ معنیٰ کا سفر یقیناً وہ دن قریب ہے جب ظلم کے بادل چھٹیں گے، نور کی کرنیں بیت المقدس پر جگمگائیں گی، اور غاصب قوتیں رسوا ہو کر پسپا ہوں گی۔ ہماری دعاء ہے کہ اللہ وہ دن جلد دکھائے جس دن امتِ مسلمہ کا قلبِ اول یعنی مسجد اقصیٰ پھر سے آزاد ہو، اور ہم وہاں سجدہ گزار ہوں۔ حق پرستوں کی اگر کی تو نے دلجوئی نہیں طعنہ دیں گے بُت کہ مسلم کا خدا کوئی نہیں۔