Oct 23, 2025 07:41 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
مدارس اسلامیہ نیپال اور معیار تعلیم! ایک نظرمیں

مدارس اسلامیہ نیپال اور معیار تعلیم! ایک نظرمیں

31 Jul 2025
1 min read

مدارس اسلامیہ نیپال اور معیار تعلیم! ایک نظرمیں 

محمد حسنین رضابرکاتی علیمی مصباحی

            کسی بھی قوم و مذہب کی تعمیر و ترقی کی بنا اس کی مضبوط اور مستحکم تعلیم پر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر بنظر غائر ترقی یافتہ قوموں کا جائزہ لیا جائے تو کہیں نہ کہیں اس کی بنیادی وجہ بلندی معیار تعلیم ہوگی، تقریبا تمام ممالک میں مذہب اسلام کے ماننے والے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد اپنے تئیں زندگی گزارنے میں مصروف ہے، لیکن وہ ممالک جہاں تعلیمی ماحول خوشگوار ہے اور عمدہ فکر کے حامل افراد کی کثرت ہے وہ بہر صورت کسی نہ کسی جہت سے آگے بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں، یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ تعلیمی معیار کے بلند ہونے سے معاشرہ میں علم و فکر و ہنر کی خوش گوار فضا قائم ہوتی ہے اور نظافت و پاکیزگی کی شاندار تاریخ رقم ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنے اور غیروں کے حقوق کے سلسلے میں کافی حد تک معلومات حاصل ہوتی ہے، لیکن اس تحریر کا مقصود اصلی اینکہ کوہ ہمالیہ کی آغوش میں اپنی تمام تر خوبصورتی اور دلفریب،دلکش مناظر کے ساتھ شاد و آباد ملک نیپال کے مدارس اور ان کے تعلیمی معیار سے متعلق کچھ اہم باتیں پیش کر کے قارئین کے ذہن میں مدارس اسلامیہ کی ضرورت، اہمیت و افادیت کو ڈال کر اس کی طرف توجہ دلانا ہے، چنانچہ اگر بنظر انصاف پورے نیپال کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ پورے ملک(نیپال) میں اہل سنت والجماعت کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو پڑوسی ملک ہندوستان کے بڑے اداروں سے مطابقت رکھتا ہو، اور اس میں بہترین نظم و نسق کے ساتھ اعلی تعلیم کا حسن انتظام ہو، یا ہے بھی تو اس میں بہت معیاری تعلیم کا بندوبست نہیں،  جب کہ نیپال جیسے پس ماندہ ملک میں بھی علم و فن کے ایسے ایسے ہیرے، جواہرات موجود ہیں جن کا علمی قد اتنا بلند ہے کہ اگر وہ کوشش کر دیں تو میرا ایقان و وجدان کہتا ہے کہ وہ اپنی بلند فکری، تبحر علمی، حکمت و و دانائی سے نیپالی مسلمانوں کے ایمان و عقیدے کے تحفظ و بقا کے لیے ایسا ادارہ قائم کر سکتے ہیں جن سے ایک عالم فائدہ اٹھانے کے لائق ہو سکے گا، ہاں یہ اور بات ہے کہ علماء اپنی قابلیت و صلاحیت کے تئیں دیگر ذرائع سے خدمت دین کے لیے کوشاں ہیں، خیر اللہ تعالی توفیق بخشے!!البتہ کسی معیاری دارالعلوم کے قیام کی طرف ہماری نظریں نہیں جا پا رہی ہیں، آئے دن حالات بدل رہے ہیں، دن بدن سیاست کا بازار خوب گرم ہو رہا ہے، غیر حکومت سے اپنے حقوق کے لیے ہر ممکن راستے اپنانے میں کافی حد تک کامیاب نظر آ رہے ہیں، لیکن شاید ہم خواب غلفت کے شکار ہیں، یا اگر بیداری ہے بھی تو کسی مضبوط پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں، پڑوسی ملک کو دیکھ کر کافی احساس ہوتا ہے کہ خدا نا خواستہ اگر کسی وجہ سے ہمارے طلبہ ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنے سے روک دیے جائیں، تو یقینا ہمارے پاس کوئی ایسا معیاری ادارہ نہیں ہے کہ جہاں یہ طالبان علوم نبویہ اپنی علمی تشنگی بجھا سکیں، ہاں اگر مدارس نسواں کا جائزہ لیا جائے تو تقریبا ہر علاقے میں بکثرت نسواں اداروں کا قیام ہو چکا ہے یا ہو رہا ہے، الغرض مدارس نسواں بکثرت ہیں، ہاں تعلیمی اعتبار سے ضرور کمزوری ہے، جس میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے، یاد رہے 'صرف بلڈنگ کا نام مدرسہ یا جامعہ نہیں ہوتا ہے، ادارے معیاری تعلیم اور حسن تربیت سے پہچانے جاتے ہیں' میرا ذاتی نظریہ یہ ہے کہ معیاری ادارے جن میں اعلی تعلیم اور حسن تربیت کا حسین انتظام ہو تو اگر وہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہوں تو وہ کبھی طلبہ کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ طلبہ اس ادارے کے محتاج ہوتے ہیں اور کسی بھی طریقے سے وہاں پہنچ کر اپنی علمی تشنگی بجھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، آپ محسوس کر سکتے ہیں، ہمارے سامنے اس کی کئی نظیریں موجود ہیں، جبکہ فقدان تعلیم سے نتیجہ اس کے برعکس ہوتا ہے، خیر! مقصد تنقید نہیں بلکہ احساس دلانا ہے کہ اگر ہماری غیرت اب بھی نہیں جاگی تو ہماری نسلوں کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے، اور اگر ہم اس اہم ذمہ کو محسوس کرتے ہوئے بھی اپنی قوم کے مستقبل کی خاطر کچھ نہ کر سکے تو یقینا کل ہم سے اس کے متعلق سوال ہوگا، ہماری نسلیں ہم پر ملامت کریں گی، پورے ملک میں مسلمانوں کی اتنی اچھی تعداد ہے کہ جن کے ذریعہ ہمیں کامیابی کی بلند چوٹیوں سے ہم کلامی کرنی چاہیے، لیکن شاید ہم تساہلی کے شکار ہیں یا ہمارے اندر سے اسلاف کا وہ جذبہ ایثار ختم ہو چکا ہے جو وہ دین و سنیت کے لیے پیش کر کے ملت اسلامیہ کی قیادت میں نمایاں خدمات انجام دیتے تھے، ایسا نہیں ہے کہ ہمارے علماء کام نہیں کیے ہیں، ضرور کیے ہیں اور کر رہے ہیں لیکن وقت اور حالات جس کام کے متقاضی ہیں شاید وہ کرنے میں ہم تساہلی یا غفلت کا شکار ہیں، میرے خیال سے اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے، اور آپسی اختلاف و انتشار میں الجھ کر اپنے مستقبل کی فکر کو پس پشت ڈال دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی نسلوں کے لیے وہ کارنامہ نہیں انجام دے پا رہے ہیں جو مستقل میں ان کے فلاح و بہبود کا بہترین سامان ہو اور ان کے لیے نمونہ عمل اور لائق تقلید ہو، لیکن یاد رہے آدمی کام کرنے سے ہی معزز ہوتا ہے، زمانہ کام کرنے والوںکی قدر کرتا ہے، ماضی کی تاریخیں اس کی روشن دلیل ہیں، آج ہمیں احساس کرنے کی ضرورت ہے اور خود کو قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے پیش کرنے، نیز قوم و ملت کے لیے کچھ کر گزرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یاد رہے بہت بڑے بڑے نامور اس خاک دان گیتی پر آئے اور چلے گئے، ان کا نام و نشان بھی نہ باقی رہا لیکن جنہوں نے دین و سنیت کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر دیا، دنیا آج بھی انہیں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اور تاریخ کے پنے بھی ان کی عظمت کے خطبے پڑھ رہے ہیں، اخیر میں اس بات کی طرف اشارہ کر دینا مناسب ہے کہ اگر آج بھی ہم بیدار ہو کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور اپنی قوم کے روشن مستقبل کی خاطر کچھ کر گزرنے کا عزم مصمم کر لیں، تو مجھے یقین ہے کہ ان شاء اللہ پورے ملک میں بہترین انقلاب آ جائے گا، اور علوم دینیہ کے فروغ کا ایک مستحکم پلیٹ فارم مل جائے گا۔ خیر اللہ تعالی ہمیں خدمت دین کا بہترین جذبہ عطا فرمائے اور اور ہمیں اپنی قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

کرشنا نگر کپل وستو نیپال 

27 جولائی 2025 اتوار

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383