جمعہ کا تقدس اور احتجاج کا لائحہ عمل
جمعہ کا دن اسلام میں ایک روحانی اجتماع ، اصلاحِ احوال و افکار اور اتحاد بین الامت کا دن ہے۔ یہ دن محض ایک نماز کی ادائیگی کا موقع نہیں بلکہ امت مسلمہ کے قلبی و اجتماعی ربط و ضبط کا مظہر ہےــــــــــــــــــــ
ایسے میں اگر یہی دن احتجاجی مظاہروں ، نعرہ بازی ، سڑکوں کی غیر قانونی بندش اور بعض اوقات تصادم کی نذر ہو جائے تو سوال پیدا ہوتا ہےــــــــــــــــــــ
کیا ہم اس دن کے تقدس کو سمجھ پائے ہیں؟
کیا ہمارے پاس دوسرے ایام نہیں جن میں ایسے امور انجام پائیں ؟
در اصل ہمارے معاشرے میں ایک قابلِ افسوس رواج بنتا جا رہا ہے کہ جیسے ہی کوئی مذہبی غیرت یا دینی جذبات سے جڑا واقعہ پیش آتا ہے ، ہمارے قائدین کی جانب سے احتجاج کی کال جمعہ کے دن دی جاتی ہےــــــــــــــــــــبلاشبہ مسلمان اپنے نبی کریم ﷺ سے شدید محبت رکھتے ہیں ، اور آپ سے عشق و محبت کے
اظہار و اقرار میں کسی قسم کی رکاوٹ یا کسی بھی گستاخی یا بے ادبی پر خاموش نہیں رہ سکتےـ
یہ غیرتِ ایمانی ہمارے ایمان و ایقان کا حصہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس غیرت کے اظہار کے لیے جمعہ ہی کے دن کا انتخاب ضروری ہے؟
کیا ہم جان کائنات ﷺ کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لیے ایسا طریقہ اختیار نہیں کر سکتے جو حبیب کائنات ﷺ کے دین کے دوسرے پہلوؤں کو متاثر نہ کرے؟ کیا بہتر نہیں کہ ایک منظم ، سنجیدہ ، اور نتیجہ خیز لائحہ عمل کے تحت کسی اور دن احتجاج کیا جائے ، تاکہ جمعہ کا دن مخصوص عبادات کے لیے مخصوص رہے؟ اور کسی بھی طرح اس مخصوص عبادت میں حکومت کی گندی نظر نہ پڑےــ
اور ہاں احتجاج اگر نبی کریم ﷺ کے لیے ہے ، تو اس کا طریقہ بھی حضور ﷺ کی سنت اور اسوہ حسنہ کے مطابق ہونا چاہیے ، بدر و احد سے لے کر صلح حدیبیہ جیسے واقعات پیش نظر رہنا چاہیے ، نبی رحمت ﷺ نے ہمیں تہذیب و تمدن ، تفکر و تدبر ، اور صبر و استقلال کے ساتھ آواز بلند کرنا سکھایا ہے۔ اگر ہم اُن کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو
ان کے طریقوں کو بھی اپنانا ہوگاـــ
جمعہ کے دن سڑکوں کا بند ہونا ، اور بعض اوقات پولیس یا مخالفین سے تصادم کے خطرات وہ مناظر ہیں جو احتجاج کی روح کو مجروح کر دیتے ہیں۔ نہ صرف ہمارے دین کا چہرہ بگڑتا ہے بلکہ اس کا فائدہ بھی دشمنانِ اسلام کو پہنچتا ہے ، جو ہمیں شدت پسند اور بدنظم قوم کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے ایجنڈے کی ترسیل میں کامیاب ہو جاتے ہیں ــــــــــــــــــــ
لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دینی و ملی جذبات کا اظہار ضرور ہو ، مگر ایک منظم اور مؤثر حکمتِ عملی کے ساتھ۔ قائدین ملت اسلامیہ ، علماء ذوی الاحترام اور مذہبی و سماجی تنظیمیں مل کر کوئی ایسا دن اور طریقہ طے کریں جو مؤثر بھی ہو اور پرامن بھی۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ احتجاج کا اصل مقصد کیا ہے جذبات کا وقتی اظہار ہے یا دیرپا نتائج کا حصول؟
اگر ہم واقعی حضور سید کونین ﷺ سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں اُن کے دین اور دن دونوں کا ادب کرنا ہوگاـــ
ابن التہذیب
محمد آصف نوری
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی