تحریک اردو جمشید پور کا قیام
نیپال اردو ٹائمزپریس ریلیز
٧/کتوبر ۲۰۲۵ ء بروز منگل بعد نماز عشا کثیر مسلم آبادی علاقہ آزادنگر میں شہر کی مشہور و معروف شخصیت ، معمار ملت حضرت علامہ مفتی عبدالمالک مصباحی بانی دارین اکیڈمی جمشید پور کی قیام گاہ نزد مدینہ مسجد آزاد نگر میں شہر آہن کے معززین کی ایک پر وقار تقریب حضرت معمار ملت کی سرپرستی اور الحاج ماسٹر محمد اتالیق حسین کی صدارت میں منعقد کی گئی جس میں شہر آہن کی کئی ممتاز اور علمی ، ادبی ملی اور سماجی خدمات گار شخصیات نے شرکت کی ۔ اس نشست کا مقصد اردو زبان کی ترویج واشاعت پر غور و خوض اور اس کے تحفظ و بقا کے عملی اقدامات پر گفت و شنید تھی ۔ الحمد للہ اتمام شرکا نے اپنی بھر پور دلچسی اور قربانی کا مظاہرہ کیا۔ نیز باد مخالف کی تیز و تند آندھیوں میں اردو کی شمع جلائے رکھنے اور مخالفین اردو کی نازیبا حرکتوں کا بر وقت تدارک کرنے کے لیے تحریک اردو جمشید پور کے نام سے ایک ایسی انجمن کی داغ بیل ڈالی جو زبان و تہذیب کی حفاظت کے ہمہ وقت سرگرم رہے گی ۔ ان شاء المولی تعالی
اس موقع پر پروفیسر جاوید انصاری نے کہا کہ عوام تو عوام خواص کا ذہن اردو سے بہتا جا رہا ہے جو قوم کے لیے نہایت تشویش کی بات ہے۔ زندہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کیا کرتی ہیں مگر مسلمان اس حقیقت سے عملی طور پر دور ہوتے جارہے ہیں جو افسوس کا مقام ہے۔ ایسے وقت میں تحریک اردو کی بنیاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر اسے آگے بڑھانا اور اس راہ کی تمام روکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ وہیں ڈاکٹر افروز شکیل نے اس تحریک کو صرف جمشید پور ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے زندگی کی ایک رمق قرار دیا اور کہا کہ اس تحریک کو گھر گھر پہچانا ہم سبھوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ دوران گفتگو مدرسہ فیض العلوم کے سکریٹری عالی جناب انجینئر بلال ناصر نے کہا کہ ہمیں اپنی نسل کی حفاظت کے لیے اردو زبان کی ترویج واشاعت کے لیے دل و جان سے لگنا ہوگا۔ اس کے لیے عصری تقاضوں کوپیش نظر رکھتے ہوئے آف لائن اور آن لائن دونوں طرح سے کوشش کرنی ہوگی۔ ڈاکٹر محمد طاہر حسین اے پی جے ابوالکلام کالج کے بانی نے کہا کہ سرکار اردو کے حوالے سے مخلص نہیں ہے جگہ جگہ سے پرانے پرانے اردو کے سائن بورڈ ہٹائے جا رہے ہیں اس طرح سے اردو زبان کو لوگوں کے ذہن سے مٹانے
کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے ہم اردو مخالفین کو ان کی کوششوں میں کامیاب ہونے نہیں دیں گے اور اردو کے تحفظ و بقا کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیں گے۔ تحریک اردو جمشید پور اس سلسلے کی ایک بنیادی کڑی ہے۔ ماسٹر محمد اتالیق حسین صدر دارین اکیڈمی نے کہا کہ تعلیم یافتہ حضرات کو اس سلسلے میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور اس پر ہمہ جہت غور فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر اردو ہمارے درمیان سے کیوں کر غائب ہوتی جارہی ہے۔ قوم کی اردو سے بے اعتنائی حد درجہ قابل افسوس ہے۔تحریک کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے مفتی عبدالمالک مصباحی صاحب نے کہا کہ اردو زبان وادب کے فروغ، ترویج واشاعت اور تحفظ کے علمی و عملی کوشش کرنا جملہ روحانیت ، اخلاقیات اور تہذیبی اقدار کو ادب و تعلیم کے ذریعے زندہ رکھنا ہی اردو مشاعرے، سیمنار، تربیتی ورکشاپس اور ملی مذاکروں کا انعقاد کرنا یہ طلبا وعوام میں اردو کے محبت اور ذوق مطالعہ پیدا کرنا ہی یتیموں ، نادار طلبا او معلمین کی فلاح کے لیے اسکیمیں، حکومت جھارکھنڈ یا دیگر اداروں کے ساتھ تعلیمی و ثقافتی اشتراک۔