Oct 23, 2025 11:21 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
جلتا نیپال

جلتا نیپال

12 Sep 2025
1 min read

جلتا نیپال

دنیا میں امن قائم رکھنے کے لیے جمہوریت، انصاف اور انسانی حقوق کو بنیاد مانا جاتا ہے۔ لیکن جب یہ بنیادیں ہل جائیں، جب طاقتور طبقہ اپنے عوام کی آواز کو دبانے کے لیے گولیوں اور تشدد کا سہارا لے، تو پھر قومیں جلنے لگتی ہیں اور ملک خانہ جنگی کے دہانے پر جا کھڑا ہوتا ہے۔ آج نیپال انہی حالات سے گزر رہا ہے۔جی ہاں!وہی نیپال جو کبھی امن کا گہوارہ مانا جارہا تھا،جس کے پر امن ماحول اور انسانیت دوست عوام کی مثال دی جارہی تھی،جس کے اخلاص و وفا اور سنجیدہ مزاجی ملک و بیرون ملک زبان زد ہے،آج وہی ملک منافرت اور گندی سیاسی کی بھینٹ چڑھتا دکھ رہا ہے۔کثیر مسائل و مصائب اور تناؤ کی دنیا میں مزید اضافہ قابل تشویش ہے۔

عوامی احتجاج: امید سے مایوسی تک

نیپالی عوام عرصہ دراز سے معاشی بدحالی، بے روزگاری، بدعنوانی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان کے مسائل کی فہرست لمبی ہے، لیکن حل کہیں نظر نہیں آتا۔ جب عوام کی امیدیں بار بار ٹوٹتی ہیں تو وہ اپنی آواز بلند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر نکلنے والے عوام نے انصاف، حقوق اور شفاف نظام کے قیام کا مطالبہ کیا۔ مگر جواب میں انھیں گولیوں سے نوازا گیا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب عوام کی مایوسی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے، اور ملک جلنے لگتا ہے۔

احتجاج کا اصل پس منظر: سوشل میڈیا پر پابندی

موجودہ احتجاج کا سب سے بڑا سبب حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی ہے۔ یہ دور معلومات اور رابطوں کا ہے، جہاں سوشل میڈیا نہ صرف عوامی رائے کا ذریعہ ہے بلکہ مظلوموں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا سب سے مؤثر ہتھیار بھی ہے۔ جب حکومت نے اس پر قدغن لگائی تو عوام نے اسے اپنے بنیادی حق، آزادی اظہارِ رائے پر حملہ سمجھا۔ سوشل میڈیا پر پابندی دراصل عوام کو اندھیرے میں دھکیلنے کے مترادف ہے تاکہ ان کی چیخ و پکار دنیا تک نہ پہنچ سکے۔ یہی وہ اقدام ہے جس نے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کردیا اور نیپال کی سڑکوں کو احتجاج سے بھر دیا۔

طاقت کا وحشی استعمال

ریاست کا اصل کام عوام کی جان و مال کی حفاظت ہے، لیکن نیپال میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ احتجاج کرنے والوں کو امن و سکون دینے کے بجائے طاقت کے ذریعے کچلا جارہا ہے۔ پولیس اور فورسز کی فائرنگ سے کئی افراد جاں بحق ہوچکے 

ہیں، درجنوں اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ یہ وحشیانہ طرزِ عمل نہ صرف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ حکومت کے اخلاقی جواز پر بھی سوالیہ نشان ہے۔

پرامن احتجاج کی ضرورت

یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ مظاہرین اپنے حق کے لیے آواز ضرور اٹھائیں، لیکن احتجاج کا دائرہ پرامن رہے۔ سرکاری عمارتوں، عوامی املاک، گاڑیوں اور بسوں کو نقصان پہنچانا خود عوام کے نقصان کے مترادف ہے۔ بسوں پر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ نہ صرف احتجاج کے مقصد کو کمزور کرتا ہے بلکہ عام عوام کو بھی تکلیف پہنچاتا ہے۔ پرامن احتجاج ہی وہ راستہ ہے جو انصاف اور کامیابی کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔ اگر مظاہرین ضبط و حکمت کے ساتھ اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں تو دنیا بھی ان کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے سنے گی اور ان کا مطالبہ مزید مضبوط ہوگا۔

بینکوں کی لوٹ مار: افسوسناک پہلو

خبریں یہ بھی آئی ہیں کہ بعض مقامات پر مشتعل مظاہرین نے بینکوں کو لوٹا۔ یہ انتہائی افسوسناک اور غیر منصفانہ عمل ہے۔ بینکوں میں عوام کی محنت کی کمائی محفوظ ہوتی ہے۔ جب انہی بینکوں کو لوٹا جائے تو دراصل نقصان براہِ راست عوام کا ہی ہوتا ہے۔ یہ کیسا احتجاج ہے کہ جس کے نام پر معصوم عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالا جائے؟ 

ایسا طرزِ عمل نہ صرف اخلاقی طور پر غلط ہے بلکہ احتجاج کی اصل روح کو بھی داغدار کرتا ہے۔ احتجاج کا مقصد انصاف اور حقوق حاصل کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے مال و اسباب کو تباہ کرنا۔ جو لوگ ایسے اقدامات کرتے ہیں وہ دراصل احتجاج کو بدنام کرتے ہیں اور حکومت کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ احتجاج کو "فساد" کا نام دے کر مزید سختی کرے۔

جمہوریت یا آمرانہ رویہ؟

نیپال کے عوام نے کئی سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ بادشاہت کے خاتمے سے لے کر جمہوریت کے قیام تک عوام نے قربانیاں دیں۔ مگر آج جس طرح سے ان کے حقِ رائے اور حقِ احتجاج کو دبایا جارہا ہے، وہ آمرانہ طرزِ عمل سے کم نہیں۔ جمہوریت اس وقت تک جمہوریت ہے جب تک عوام کو کھل کر اپنی رائے دینے کا موقع حاصل ہو۔ جب زبانوں پر تالے اور سینوں پر گولیاں چلیں تو پھر جمہوریت کا لبادہ اتار کر آمریت کا چہرہ عیاں ہوجاتا ہے۔

انسانی حقوق کی پامالی:اقوام متحدہ اور عالمی ادارے ہر سال انسانی حقوق کے عالمی دن مناتے ہیں، 

 

بڑے بڑے بیانات جاری کرتے ہیں۔ لیکن کیا نیپال کے مظلوم عوام ان بیانات کا حصہ نہیں؟ ان کے زخموں پر مرہم کیوں نہیں رکھا جاتا؟ جب بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کی لاشیں گر رہی ہیں، جب اسپتالوں کے دروازے زخمیوں سے بھر گئے ہیں، تب

انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں؟ کیا ان کا ضمیر صرف طاقتور ممالک کے دباؤ کے تحت ہی جاگتا ہے؟

عالمی برادری کی خاموشی

نیپال کی موجودہ صورت حال صرف نیپالی عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے خطے کے امن کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایک ملک کا عدم استحکام اس کے ہمسایوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اگر نیپال جلتا رہا تو اس کے شعلے خطے کے دیگر ممالک تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ عالمی برادری، خصوصاً جنوبی ایشیا کے ممالک، نیپال کے بحران کو سنجیدگی سے لیں اور فوری طور پر امن و مکالمہ قائم کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔

مستقبل کا خطرناک راستہ

اگر موجودہ حالات کو نظر انداز کیا گیا تو عوام اور ریاست کے درمیان خلیج مزید بڑھ جائے گی۔ عوامی غصہ شدت اختیار کرے گا اور یہ احتجاج کسی بڑی خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کرسکتا ہے۔ ایک طرف غریب عوام کا لہو بہے گا اور دوسری طرف ملک کا سکون، معیشت اور ترقی سب راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے۔

خلاصہ:

آج نیپال جل رہا ہے — صرف اس کی زمین نہیں بلکہ اس کے عوام کے دل بھی دہک رہے ہیں۔ اس آگ کو بجھانے کے لیے بندوقیں اور گولیاں نہیں بلکہ انصاف، مکالمہ اور حقیقی جمہوری رویہ درکار ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے آواز ضرور بلند کریں مگر پرامن رہ کر، تاکہ ان کی جدوجہد دنیا کے سامنے مضبوط اور مدلل انداز میں آئے۔ بینک لوٹنے یا املاک تباہ کرنے جیسے غیر ذمہ دارانہ اقدامات احتجاج کو کمزور اور بدنام کرتے ہیں، لہٰذا ان سے اجتناب ضروری ہے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ عوامی مطالبات کو تسلیم کرے اور ظلم و جبر کا راستہ چھوڑے۔ دوسری طرف عالمی ادارے اور خطے کے ممالک بھی اپنی ذمے داری ادا کریں، ورنہ کل تاریخ یہ فیصلہ کرے گی کہ جب نیپال جل رہا تھا، تو دنیا تماشائی بنی بیٹھی تھی۔

جو اپنے ہی عوام پر بندوقیں چلائے

وہ قاتل حکومت کب تک مسند سنبھالے

✍ از قلم: ابو العطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی (تاراپٹی، نیپال)

حال مقیم: دوحہ، قطر

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383