حضور مفتی اعظم ہند اور فقہی اختلافات
خطاب حضرت علامہ ڈاکٹر انوار احمد خان بغدادی بموقع عرس نوری
مرتب: راشد حسن
جماعت خامسہ، متعلم جامعہ غوثیہ نجم العلوم،
مرکزی ادارہ سنی دعوت اسلامی
آج کی اِس نورانی بزم میں شرکت کرنے والے یقینا یہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ عالمی تحریک ’’سنی دعوت اسلامی‘‘ صرف عمومی تحریک نہیں ہے،بلکہ یہ علما کی بھی تحریک ہے۔
یہ ہم سب کے لیے اور مسلمانانِ ہند کے لیے قابلِ رشک بات ہےکہ اللہ رب العزت نے تاج دار اہلِ سنت، حضور مفتیٔ اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کی بارگاہ کے فیض یافتہ، حضور داعیِ کبیر کی شکل میں ہمیں ایک ایسی شخصیت عطا کر دی ہے،جس نے اِس نازک دور میں اہلِ سنت و جماعت کی لاج رکھی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ حضور مفتیٔ اعظمِ ہند کا فیضان جاری و ساری رکھے،اِس تحریک کو قائم و دائم رکھےاوربانیٔ تحریک کو مولیٰ تعالیٰ عمرِ خضر عطا فرمائے۔
حضرات! قابلِ مبارک باد ہیں ہم اور آپ کہ ایک ایسی ذات بابرکت کی یاد میں بیٹھے ہیں، جو ولی ابن ولی ہیں، فقیہ ابن فقیہ ہیںاور تقی ابن تقی ہیں۔
فقہی اختلافات میں حضور مفتیٔ اعظم ِہند علیہ الرحمہ والرضوان کا کردار کیا تھا؟ فقہی اختلافات کو آپ نے کیسے دیکھا؟ اورآپ نے اپنے ہم عصر علما کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا؟
یہ علما کی محفل ہے، پڑھے لکھے لوگ یہاں حاضر ہیں، اتنے حساس مسئلہ کو اگر ہم حضور مفتیٔ اعظمِ ہند کے کردار کی روشنی میں جان لیتے ہیں تو امید ہے کہ کسی سطح تک (یہ دعوی نہیں ہے کہ پورے ہندوستان میں) جماعتِ اہلِ سنت میں خوش گوار ماحول پیدا ہو جائےتو یہ وقت کا تقاضا ہے، یہ جاننا اِس لیے بھی ضروری ہے، کیوںکہ آج ہم اور آپ جن مسائل سے گزر رہے ہیں ، اس کے لیےیہ نہایت اہم ہے۔
سب سے پہلے میں یہ عرض کروں کہ اختلاف کی چند قسمیں ہیں:
(۱) اصول میں اختلاف
(۲) فروع میں اختلاف
پھر:(۱) اختلافِ مقبول
(۲) اختلافِ مذموم؛ یہ عقائد اور اصول میں ہےاور فروع میں بھی ہے، ہم یہاں عقائد اور اصول کی بات
نہیں کرتے ہیں ، صرف فروع کی بات کرتے ہیں، کیوںکہ ہم جن مسائل سے آج جماعتی سطح پہ اُلجھے ہوئے ہیں ،وہ مسائل فروع ہی کے ہیں اور یہ دو طرح کے فروعی اختلاف ہیں:
(۱) اختلافِ مذموم
(۲) اختلافِ مشروع
بہت مختصر انداز میں یہ بتا دوں کہ اختلافِ مذموم کا مطلب ایسا اختلاف جو شقاق، نزاع، لڑائی، جھگڑا، نفرت اور دوری کا سبب بنے، یہ اختلافِ مذموم ہے اور جو اِن تمام چیزوں کا سبب نہ بنے، بلکہ حالات اور تقاضے کے مطابق ہو، مسائل کے استخراج میں فقہا کی مدد کرے، مسائل کے استنباط میں الجھنوں کو دور کرے، نفرت نہیں محبت کی طرف مؤدی ہو، ایسا اختلاف اختلافِ مذموم نہیں ہے، بلکہ اختلافِ مشروع ہے۔
اختلافِ مشروع قرآن سے ثابت ہے، احادیثِ طیبہ کا ایک بڑا ذخیرہ بھی اس بارے میں ہے، صحابۂ کرام کے فتاوے، اُن کے اسالیب اور اُن کے کردار اس پر شاہد ہیں، اِسی طرح تابعینِ کرام اور مجتہدینِ کرام وغیرہ کے اختلافات ہیں۔
قرآن سے اس کی دلیل :
قرآن پاک کی سورۂ انبیامیں اللہ رب العزت نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کا واقعہ ذکر کیا ہے، اس کے پس منظر میں جائیں گے تو پتہ چلے گا کہ ایک شخص کی کھیتی میں ایک شخص کی بکریاں آتی ہیں اور اس کی کھیتی چر لیتی ہیں ، وہ شخص شکایت لے کر حضرت داؤد علیہ السلام کی بارگاہ میں پہنچتا ہے، حضرت داؤد علیہ السلام فیصلہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ بکریاں جس کی کھیتی چری گئی ہے، اُسے دے دی جائیں‘‘۔
وہ شخص نکلتا ہے اور اُس کی حضرت سلیمان علیہ السلام سے ملاقات ہو جاتی ہے ،آپ پوچھتے ہیں: ’’کیا معاملہ ہے؟‘‘ اُس نے معاملہ بتایا، پوچھا: ’’کیا فیصلہ کیا ابا نے؟‘‘اس نے فیصلہ بھی بتایا۔
اِس پر آپ نے فرمایا: ’’نہیں! ایسا نہیں ہے،بلکہ ایسا ہونا چاہیے کہ کھیتی والے کو بکریاں دے دی جائیں اور بکری والے کو کھیتی دے دی جائے،یہ اس وقت تک کھیتی کرتا رہے، جب تک کہ اُس حالت میں کھیتی نہ پہنچ جائے، جو حالت چرنے سے پہلے تھی اور وہ شخص جو کھیتی والا ہے، وہ بکریاں لے لے اور بکریوں سے فائدہ اُٹھائے،جب وہ کھیتی
سابقہ حالت میں لوٹا دے، تو یہ اُس کی بکریاں لوٹا دے‘‘۔
قران پاک نے بہت مخصوص اور بڑے پیارے انداز میں اِس کا تذکرہ فرمایا ہےاور اخیر میں جو الفاظ فرمائے وہ یہ ہیں:
﴿وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا﴾. [سورۂ انبیا: 79]
ترجمہ: ’’ہم نے تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو علم و حکمت عطا کر دیا‘‘۔
آپ یہاں ذرا غور کریں ،باپ بیٹے کا معاملہ ہے، باپ کا فیصلہ کچھ، بیٹے کا فیصلہ کچھ اور مفسرین تو لکھتے ہیں کہ انصاف سے زیادہ قریب بیٹے کا فیصلہ ہے۔
یہاں آج جو ماحول بنا ہوا ہے، ہندوستان میں ترازو لے کے بیٹھے ہوئے ہیںاور وہ لوگ ترازو لے کر کے
بیٹھے ہوئے ہیں، جن کو نہ استخراج کے قواعد کا پتہ ہے،نہ مسائل کا پتہ ہے، نہ جزئیات کا پتہ ہے، وہ ترازو لے کر کے صرف ناپنے میں لگے ہیں۔
اگر آج کے یہ لوگ قرآن کی اِس آیت تک پہنچتے تو وہاں بھی ناپتے، وہاں جب ناپتے تو بیٹے کو باپ کی شان میں گستاخی کرنے والا ہی پاتے، اگر قرآن کی نظر میں بیٹا باپ کی شان میں گستاخی کرنے والاہوتا تو قرآن یہ نہ کہتا: ’’ہم نے تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو علم و حکمت عطا کر دیا‘‘۔
قرآن نے کہا بھی اِسی لیے ہے، تاکہ قیامت تک کے لیے ایک ضابطہ بن جائے، فقہی مسائل میں باپ بیٹا نہیں دیکھا جائے گا، اُستاذ و شاگرد نہیں دیکھا جائے گا، حقائق اور مقاصدِ شریعت دیکھے جائیں گے، اِس کے مطابق جس کا فتوی زیادہ قریب ہوگا، اُسی کا فتوی مانا جائے گا اور یہ گستاخی نہیں ہوتی ہے، اگر توہین ہوتی تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف سے باپ کی شان میں توہین ضرور ہوتی۔
لیکن مجھے ذرا بتائیں! کیا آج کوئی مفتی جراء ت کر سکتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو حضرت داؤد علیہ السلام کا گستاخ بتائے؟ اگر یہ جراءت نہیں کر سکتے ہو تو لوگوں نے یہ جراءت کیسے کر لی کہ حضور سراج الفقہا حضور مفتیٔ اعظمِ ہند کے گستاخ ہیں؟ جراءت اُنھوں نے کی ہے، جو قرآن کی اِس آیتِ کریمہ کو نہیں سمجھتے ہیں،ایسی مثالیں بہت ہیں۔
یہاںمیں نے اختلافِ مشروع (مقبول اختلاف) کی ایک جھلک آپ کو دکھا دی، اب حدیث مبارک سے اس کی دلیل دیتا ہوں۔حدیث پاک سے دلیل: بخاری شریف کی حدیث پاک ہے ،حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ غزوۂ احزاب سے آقاے کریم ﷺ لوٹ رہے تھے، آپ نے فرمایا:
’’ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ‘‘. [صحیح بخاری:ج: 1،ص: 321، حدیث نمبر: 904]
ترجمہ: ’’عصرکی نماز تم میں سے کوئی نہ پڑھے گا مگر بنی قریظہ میں‘‘۔
آقا نے یہ ارشاد فرمایا، قافلہ چلا، آگے چلتا رہا، عصر کا وقت ہو گیا،صحابۂ کرام دوگروہوں میں بٹ گئے،کچھ نے کہا کہ: ’’آقا نے فرمایا تھا عصر بنی قریظہ میں پڑھنی ہے، ابھی تو ہم راستے میں ہیں، بنی قریظہ پہنچے نہیں، اب کریں کیا؟ عصر کا وقت ہے، عصر پڑھیں کہ نہ پڑھیں؟‘‘
ایک گروہ نے عصرپڑھ لی،ـدوسرے گروہ نے عصرنہیں پڑھی،جنھوں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی، اُن کا استدلال یہ تھا کہ: ’’آقا نے فرمایا ہے: ’’عصر کی نماز تم میں سے کوئی نہ پڑھنا، مگربنی قریظہ میں‘‘، ابھی بنی قریظہ پہنچے نہیں ہیں‘‘۔
دوسرے گروہ نے کہا: ’’اگر بنی قریظہ کے پہنچنے کا انتظار کریں گے تو عصر چھوٹ جائے گی‘‘، لہٰذا دوسرے گروہ نے پڑھ لیا، ـپہنچے سب بارگاہِ رسالت مآب ﷺمیں، مسئلے کا وہاں ذکر ہوا، اب امام بخاری کے الفاظ ہیں:
’’ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ‘‘.
ترجمہ: ’’(میرے آقا نے خاموشی اختیار کی اور) دونوں گروہوں میں سے کسی کو کچھ بھی نہیں کہا‘‘۔
اختلاف کیا صحابہ نے، مسئلہ کیاتھا؟ نماز پڑھنے کا، پڑھیں یا نہ پڑھیں، اجتہاد کیا صحابہ نے، ایک گروہ نے اِس حدیث پاک کو ظاہر پر محمول کیا، دوسرے گروہ نے حدیث پاک کو تاویل کر کے سمجھا۔
آقاے کریم ﷺ خاموش ہیں، اختلاف کی گنجائش ہے ،میرا نبی اختلاف کی گنجائش کو اِس حدیث سے ہمیں بتا رہا ہے، اِسی طرح کے اختلافات امامِ اعظم، امام شافعی (رضی اللہ تعالی عنہما) اور دیگر ائمہ میں پائے جاتے ہیں۔
میرے آقاے کریم ﷺ نے مجتہدین کی فقہی اور فروعی اجتہادات کے اختلافات کے لیے ایک ضابطہ رکھاکہ اگر فروع میں اختلافات ہیں تو یہ قابلِ عیب نہیں ہیں۔
آپ جانتے ہیں کس طرح ائمۂ کرام (فروعی اختلافات میں) اختلافات کے باوجود ایک دوسرے سے محبت فرماتے تھے، آپ ذرا اندازہ لگائیں، حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت امامِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مسجد میں نمازِ فجر ادا کرتے ہیں، لیکن قنوت نہیں پڑھتے ہیں، کسی نے پوچھا: ’’ایسا آپ نے کیوں کیا؟آپ کا مذہب تو یہ ہے کہ آپ نمازِ فجر میں دعاے قنوت پڑھیں گے، آپ نے کیوں نہیں پڑھا؟‘‘
اِس پر آپ نےامامِ اعظم کی قبرِ انور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’أستحي من صاحب هذا القبر‘‘.
مجھے اِن سے شرم آتی ہے کہ میں اِن کی مسجد میں اِن کے مذہب سے اختلاف کر کے نماز پڑھوں۔
آج علما کے درمیان فروعی مسائل کو لے کر کےجو نفرتیں ہیں، آپ ذرا بتاؤ ہم کہاں ہیں اور یہ بزرگانِ دین کہاں ہیں ؟
باہر کی دنیا میں ایک مادہ پڑھایا جاتا ہے، جس کا نام ’’فقہ الاختلاف‘‘ ہے،کاش! ہمارے یہاں کے علما بھی اِس طرف توجہ دیں اور بحیثیت مادہ اِس کو پڑھائیں، تاکہ جن اُلجھنوں سے آج ہم
گزر رہے ہیں ، اُن اُلجھنوں کا اگر ہم خاتمہ نہیں کر سکتے ہیں توکم از کم اُس کی حدت کو تو کم کرسکتے ہیں ۔
آئیے، حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمہ والرضوان کو دیکھیں، آپ کے زمانے کے بعض علما جو آپ سے اختلاف رکھنے والے تھے، آپ نے اُن سے قطعِ تعلق نہ فرمایا،بلکہ اُن سے اچھے تعلقات رکھے۔
اگر حضور مفتیٔ اعظمِ ہند اسلاف کے طریقے پہ نہ چلتے، آدابِ اختلاف سے مکمل آگاہ نہ ہوتے اور نفس پرستی کے بیمار ہوتے تو آپ کا بھی معاملہ اپنے ہم عصر مخالف علما سے وہی ہوتا، جو آج کےبعض لوگوں کا ہے، لیکن ایسا نہیں تھا،بلکہ میں نے جو اپنے بزرگوں اور اساتذہ سے سنا ہے، وہ یہ ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمہ کا اپنے معاصر علما سے اچھے تعلقات تھے۔
مولانا مفتی اسلم صاحب نے ذکر کیا کہ حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمہ والرضوان کی بارگاہ سے بڑی قربت رکھنے والی ایک شخصیت نے مائیک کے مسئلے پر آپ سے دریافت کیاکہ: ’’حضور! ہندوستان میں تو ٹھیک ہے، لیکن ہندوستان سے باہربہت ساری مسجدوں میں مائک پر نماز ہوتی ہے،کیا اُن سب کی نماز نہ ہوئی؟ سب کے سب گنہگار ہوئے ؟‘‘اس پر آپ نے فرمایا: ’’میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ سب کی نماز باطل ہو گئی، کسی کی نماز نہ ہوئی؟ یہ تو میری راے ہے‘‘۔یہاں سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ والرضوان آدابِ اختلاف سے مکمل طور پر آگاہ تھے،ـ آج ہم جب حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کا عرس منا رہے ہیں تو اِس گوشے کو بھی اپنے سامنے رکھیں، جو بہت دبا ہوا ہے،کیوں کہ ہم کبھی کبھی جراءت نہیں کر پاتےاور بہت ساری باتوں کو دبا دیتے ہیں، دبانے کی وجہ سے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اگر علما جراءت کے ساتھ تمام گوشوں کو اجاگر کرتے رہیں تو مسائل کم پیدا ہوں گےـ۔
حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ و الرضوان کی سیرت کے اِس مبارک گوشے کو یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ: ’’اے میرے بچو!آئندہ آپ کو اپنی جماعت کا اور اپنے ملک کافقیہ بنناہے،عالمِ دین بننا ہے۔لہٰذا آپ سے گزارش ہے، وسعتِ ظرفی،خاص طور پر فقہی مسائل میں وسعت قلبی پیدا کرنا،کیوں کہ اس تنگ نظری،تشدد اور نفس پرستی نے جماعتی سطح پر ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، اہل فکر و نظر اِس نقصان سے آگاہ ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ رب قدیر ہم سب کو نفس پرستی سے بچائے اور ہمیں حضور مفتیٔ اعظمِ ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وہ مفتیٔ اعظم ہیں،جب تک باحیات رہے، جماعتِ اہلِ سنت کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا،شیرازہ آپ کے جانےکے بعد بکھرا ہے،اس لیے آج میں کہتا ہوں: ’’وقت ایک بار پھر پکار رہا ہے کہ حضور مفتیٔ اعظمِ ہند کے اِس کردار کو زندہ کیا جائے، تاکہ جماعتِ اہلِ سنت کی پھر شیرازہ بندی کی ہوسکےـاور اِسی آواز کے ساتھ آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔