اعراس سے اداروں تک: وقت کا تقاضا اور ہماری ذمہ داری
تعارف و تاریخی پس منظر
ملتِ اسلامیہ کی تاریخ میں خانقاہیں اور درگاہیں نہ صرف روحانی مراکز تھیں، بلکہ فکری، تعلیمی اور اجتماعی زندگی کے روشن منار ے بھی تھیں۔ بغداد کی مدارسِ نظامیہ، قرطبہ و غرناطہ کے جامعات، اور دہلی کی قدیم خانقاہیں اس بات کی روشن مثال ہیں کہ جب سجادگانِ خانقاہ نے اپنے وسائل کو علم، تربیت اور خدمتِ خلق میں صرف کیا، تو قوم نے عروج پایا۔ علم و عرفان کی شمعیں روشن ہوئیں، نسلوں کو فکری و روحانی تربیت ملی، اور دنیا نے اسلامی تہذیب کی تابناک مثالیں دیکھی۔
لیکن تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ سے یہ بھی واضح ہے کہ جس وقت خانقاہی وسائل عارضی لذتوں، نمائشی محفلوں اور محض اعراس کی رونقوں پر ضائع ہوئے، وہاں قوم کی فکری و عملی ترقی رک گئی اور زوال کے بادل چھا گئے۔ بغداد کے زوال اور اندلس کی تباہی اسی اسباب کی روشن مثالیں ہیں، جہاں علم و حکمت کی روشن شمعیں بجھ گئیں، درسگاہیں ویران ہوئیں اور قوم اپنی روحانی و علمی قیادت سے محروم ہو کر دشمنوں کا آسان شکار بن گئی۔ جب خانقاہیں اور مدارس اپنی اصل روح یعنی تزکیۂ نفس، تعلیم و تربیت اور معاشرتی رہنمائی کے بجائے ظاہری جاہ و جلال کے مراکز بن جائیں، تو پھر قومیں قافلۂ تہذیب و تمدن سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی دینی مراکز نے دنیاوی نمود و نمائش کو اپنا مقصد بنا لیا، وہاں سے اخلاص رخصت ہوا، عمل کمزور پڑ گیا اور قوتِ عمل کے بجائے کمزوری و غلامی نے جگہ لے لی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی اپنے روحانی و علمی سرمایہ کو غلط مصرف میں کھپاتے رہے، وہاں عزت و عظمت کے بجائے رسوائی اور محکومی ان کا مقدر بنی۔
افسوس کہ یہی منظرنامہ آج بھی کئی خانقاہوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ روحانی مراکز جو کبھی خدمتِ خلق، اصلاحِ باطن اور سماجی رہنمائی کے سرچشمے تھے، اب کئی مقامات پر محض میلوں، ڈھول تاشوں، چادریں چڑھانے اور نمائشی جلوسوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے بجائے ان کا وقت، مال اور صلاحیتیں رسمی تقریبات کی نذر ہو رہی ہیں۔ حالانکہ اگر یہی توانائیاں تعلیم، تحقیق، رفاہی خدمات اور قومی بیداری میں صرف ہوتیں تو آج امت زوال و پسماندگی کے بجائے ترقی و قیادت کی منازل طے کر رہی ہوتی۔ یوں لگتا ہے کہ ہم نے تاریخ کے تلخ اسباق سے کچھ سیکھنے کے بجائے انہیں دہرانے کی راہ اختیار کر لی ہے۔
عصری واقعات اور میڈیا کی جانبداری:
آج ملتِ اسلامیہ کے سامنے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ظلم اور مظالم کی تصویر ہمیشہ مسخ ہو کر دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ میڈیا، جو حقیقت کو بیان کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، اکثر طاقتوروں اور حکمرانوں کے مفادات کا آلہ بن کر سامنے آتا ہے۔ حقیقت کے دھندلے عکس کو بڑے شعلوں میں پیش کر کے مظلوم کو ہی مجرم، اور ظالم کو ہی ہیرو ثابت کیا جاتا ہے۔(اس حوالے سے فقیر کا مضمون ’’ ذرائع ابلاغ کی جانبداری اور ملتِ اسلامیہ کی بے بسی‘‘ شائع ہوچکا ہے)
خانقاہی سرمایہ، اعراس اور قوالی: ایک تنقیدی جائزہ:
ملت کے سامنے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ ہمارے خانقاہی وسائل کہاں استعمال ہو رہے ہیں؟ ایک طرف یہ مراکز علم و عرفان اور روحانیت کے منار ہیں، تو دوسری طرف وہی خانقاہیں اور درگاہیں دو روزہ یا سہ روزہ اعراس، قوالی کے خیمے، چراغاں اور تماشائی محافل کی نذر ہو رہی ہیں۔
قوالی کے خیمے، چراغاں کے جلوس، اور سہ روزہ اعراس اس بات کا مظہر ہیں کہ ملت کے اصل سرمایہ، یعنی وقت، توانائی اور دولت، وقتی لذتوں، اسراف اور پیروں کی دست بوسی، غلو آمیز عقیدت اور نذرانہ بٹوری میں ضائع ہو رہے ہیں۔ لاکھوں روپے ان محفلوں میں بہا دیے جاتے ہیں، مگراسی سرمایہ سے ملت کے لیے دیرپا اور نتیجہ خیز منصوبے وجود میں لائے جا سکتے ہیں۔
سوچیے، اگر یہی رقم میڈیا ہاؤسز، اخبارات، ٹی وی چینلز، تعلیمی ادارے، ہسپتال اور تجارتی مراکز کے قیام پر صرف کی جائے تو چند برسوں میں ملت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ نوجوانوں کو وسائل اور تربیت فراہم کرنے سے وہ محافل کے تماشائی کے بجائے فکری اور عملی سپاہی بن سکتے ہیں، اور ملت کے بیانیے کو خود دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں۔
ہاں!یہ کہنا ہرگز مناسب نہیں کہ تمام خانقاہیں اس روش پر گامزن ہیں۔ الحمدللہ، بعض ممتاز خانقاہیں آج بھی ملت کے لیے شمعِ رہنمائی ہیں۔ ان کی خدمات سے آج بھی علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ لیکن وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ان ممتاز خانقاہوں سے بھی مودبانہ درخواست کی جائے کہ وہ سہ روزہ اعراس اور طویل محفلوں کی بدعت حسنہ مؤلہ سے نکل کر سادگی اور اخلاص کی طرف رجوع کریں۔
ملت کو آج چراغاں اور قوالی کے شور کی نہیں بلکہ فکری بیداری، تعلیمی خودکفالت اور اجتماعی ترقی کی ضرورت ہے۔ اگر خانقاہی سرمایہ درست سمت میں لگایا جائے تو یہ وسائل محض وقتی مسرتوں پر خرچ ہونے کے بجائے نسلوں کی تعمیر و تربیت کے ضامن بن سکتے ہیں۔ انہی وسائل سے عصری و دینی تعلیم کے ادارے قائم ہو سکتے ہیں، تحقیقی مراکز وجود میں آ سکتے ہیں،
نوجوانوں کے لیے تربیتی پروگرام اور اسکالرشپ کے دروازے کھل سکتے ہیں، اور سماجی و رفاہی منصوبے امت کی پسماندگی کو دور کر سکتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: ﴿وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ﴾ (الأنفال: 60)
یعنی "اپنے دشمنوں کے مقابلے کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق قوت تیار رکھو۔"
یہ قوت صرف عسکری نہیں بلکہ علمی، فکری اور تعلیمی قوت بھی ہے جس کے بغیر کوئی قوم سربلند نہیں رہ سکتی۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا"طَلَبُ العِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ" (ابن ماجہ)
"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"
یہی وہ سرمایہ ہے جسے اگر فلاحِ عامہ اور علمی ترقی میں صرف کیا جائے تو ہم اپنی قوم کو نہ صرف جہالت اور غربت کی زنجیروں سے آزاد کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کو علم و اخلاق کا وہ نور بھی دے سکتے ہیں جس کی روشنی سے تاریخ میں ایک نیا اور روشن باب رقم ہو۔ یہی وہ راستہ ہے جو خانقاہوں کو دوبارہ ان کے اصل کردار—یعنی روحانی اصلاح، علمی رہنمائی اور سماجی خدمت—کی طرف لوٹا سکتا ہے۔
اصلاحی منشور اور عملی لائحہ عمل:
ملت کی بقاء اور ترقی اسی وقت ممکن ہے جب خانقاہی سرمایہ عوامی فلاح، تعلیم اور میڈیا کی طرف موڑ دیا جائے۔ اس کے لیے
عملی اقدامات درج ذیل ہیں:
1. اعراس اور قوالی کی محافل کو مختصر اور بابرکت انداز میں محدود کریں:
دو روزہ یا سہ روزہ نمائش کی بجائے فاتحہ و قرآن خوانی اور مختصر محفلیں کافی ہوں۔ اس سے اخلاص بڑھے گا اور وسائل ضائع نہیں ہوں گے۔
2. میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا قیام:
اپنے ٹی وی چینل، اخبارات اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز قائم کریں تاکہ ملت کا بیانیہ خود دنیا کے سامنے پیش ہو، اور سچائی کے خلاف جھوٹ کا مقابلہ ہو سکے۔
3. تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں:
خانقاہی سرمایہ سے جدید معیار کے کالج اور یونیورسٹیاں قائم کریں تاکہ نوجوان علم و فہم حاصل کریں اور ملت کے روشن مستقبل کے لیے تربیت یافتہ ہوں۔
4. ہسپتال اور طبی مراکز:
نادار اور بیمار افراد کی خدمت کے لیے مستند ہسپتال قائم کریں، تاکہ خدمتِ خلق خانقاہی سرمایہ کی اصل ترجمانی بنے۔
5. تجارتی اور معاشی منصوبے:
ملت کی معاشی خود کفالت کے لیے تجارتی مراکز قائم کریں، تاکہ دولت مستقل وسائل پیدا کرے اور وقت کے ساتھ ترقی کی بنیاد رکھے۔
6. نوجوانوں کی تربیت:
نوجوانوں کو محافل کے تماشائی کے بجائے فکری، عملی اور میڈیا کے میدان میں قائد
بنایا جائے، تاکہ وہ ملت کی صحیح ترجمانی کر سکیں۔7. ممتاز خانقاہوں کا رول ماڈل بننا:
مستثنیٰ خانقاہیں سادگی، اخلاص اور تعمیری منصوبوں کی قیادت کریں، تاکہ باقی خانقاہیں بھی ان سے سبق سیکھیں۔
گذارش:اے اہلِ ملت! آج وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم اعراس سے اداروں تک کا سفر طے کریں۔ خانقاہی سرمایہ اگر تعلیمی اداروں، میڈیا، صحت کے مراکز اور اجتماعی ترقی کی طرف لگے تو ملت کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ وسائل ہماری آنکھوں کے سامنے تماشوں اور نمائشی محافل میں ضائع ہو جائیں گے، اور آنے والی نسلیں ہمیں کوتاہ بیں اور غافل قوم کے طور پر یاد رکھیں گی۔
🌹 پروردگار! ہمیں وہ حکمت عطا فرما کہ ہم اپنے وسائل کو صحیح راہوں میں صرف کریں، اپنی خانقاہوں کو ملت کی عزت و وقار کا مینار بنائیں، اور اپنی قوم کو فکری، تعلیمی اور معاشی خود کفالت کی نعمت عطا فرما۔ آمین۔
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
تاراپٹی ،دھنوشا(نیپال)
حال مقیم:دوحہ قطر
30 ستمبر 2025