Oct 23, 2025 07:52 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
حصولِ علمِ دین کیوں ضروری ہے؟

حصولِ علمِ دین کیوں ضروری ہے؟

07 Aug 2025
1 min read

حصولِ علمِ دین کیوں ضروری ہے؟ 

احادیثِ مبارکہ: ۱. "طلبُ العلمِ فريضةٌ على كلِّ مسلمٍ و مسلمۃ"ترجمہ: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔"(سنن ابنِ ماجہ)اسی حدیث پاک کے تحت ایک سوال کے جواب میں اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

سب میں پہلا فرض آدمی پر اسی کا تعلم ہے اور اس کی طرف احتیاج میں سب یکساں،پھر علم مسائل نماز یعنی اس کے فرائض وشرائط ومفسدات جن کے جاننے سے نماز صحیح طور پر ادا کرسکے،پھر جب رمضان آئے تو مسائل صوم، مالك نصاب نامی ہو تو مسائل زکوٰۃ، صاحب استطاعت ہو تو مسائل حج، نکاح کرنا چاہے تو اس کے متعلق ضروری مسئلے، تاجر ہو تو مسائل بیع وشراء، مزارع پرمسائل زراعت، موجرومستاجر پر مسائل اجارہ، وعلٰی ھذا القیاس ہر اس شخص پر اس کی حالت موجودہ کے مسئلے سیکھنا فرض عین ہے اور انہیں میں سے ہیں مسائل حلال وحرام کہ ہرفردبشر ان کا محتاج ہے اور مسائل علم قلب یعنی فرائض قلبیہ مثل تواضع واخلاص وتوکل وغیرھا اور ان کے طرق تحصیل اور محرمات باطنیہ تکبر و ریا وعُجب وحسد وغیرھا اور اُن کے معالجات کہ ان کا علم بھی ہرمسلمان پر اہم فرائض سے ہے جس طرح بےنماز فاسق وفاجر ومرتکب کبائر ہے یونہی بعینہ ریاء سے نماز پڑھنے والا انہیں مصیبتوں میں گرفتاہے (ملخصاً)

۲. "وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ الْعِلْم فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتّٰی يَرْجِعَ". رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والدَّارِمِيُّ.

ترجمہ: روایت ہے حضرت انس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو تلاش علم میں نکلا وہ واپسی تک اللہ کی راہ میں ہے۔

شرحِ حدیث: یعنی جو کوئی مسئلے پوچھنے کے لیئے اپنے گھر سے،یا علم کی جستجو میں اپنے وطن سے علماء کے پاس گیا وہ بھی مجاہد فی سبیل اللہ ہے، غازی کی طرح گھر لوٹنے تک اس کا سارا وقت اور ہر وقت اور ہر حرکت عبادت ہوگی، گھر آجانے کے بعد یہ ثواب ختم ہو جائے گا، پھر عمل اور تبلیغ کرنے کا ثواب شروع ہوگا۔۳. ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ تَدَارُسُ الْعِلْمِ سَاعَۃً مِّنَ اللَّیْلِ خَیْرٌ مِّنْ إِحْیَاءِھَا"۔  (دارمی، مشکوۃ)ترجمہ: حضرتِ ابن عباس رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے انہوں نے فر مایا کہ رات میں ایک گھڑی علمِ دین کا پڑھنا، پڑھانارات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔حضرت ملا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ البَارِی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:’’قَالَ الشُّرَّاحُ اَلْمُرَادُ بِالعلْمِ مَا لَا مندوحۃ لِلْعَبدِ من تعلّمہِ کَمعْرِفۃِ الصَّانِع وَالْعِلمُ بِوحْدَانیَّتِہ ونبوَّۃِ رَسُولِہ وکَیْفِیَۃِ الصَّلاۃ،فَإِنَّ تعلَّمہ فَرضُ عینٍ،وَأَمَّا بلوغُ رتبۃِ الاجتھَادِ وَالْفُتیا فَفَرضُ کِفَایَۃٍ‘‘ ۔یعنی شارحینِ حدیث نے فرمایا کہ علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حاصل کرنا بندہ کے لیے ضروری ہے جیسے خدائے تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی وحدانیت، اس کے رسول کی نبوت کی شناخت اور ضروری مسائل کے ساتھ نماز پڑھنے کے طریقے کو جاننا۔ اس لیے کہ ان چیزوں کا علم فرضِ عین ہے اور فتویٰ و اجتہاد کے رتبہ کو پہنچنا فرضِ کفایہ ہے ۔ (مرقاۃ شرح مشکوۃ، جلد اول ، ص۲۳۳)3. حصولِ علمِ دین کی ضرورت: الف. عقیدہ کی درستگی کے لیے:صحیح عقیدہ ایمان کی 

بنیاد ہے۔ علمِ دین کے بغیر انسان شرک، بدعت یا گمراہی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ب: عبادات کی صحت کے لیے:نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ جیسے فرائض کو درست طریقے سے ادا کرنا علم کے بغیر ممکن نہیں۔ اکثر لوگ بغیر علم کے نمازیں پڑھتے ہیں مگر ان کی نمازیں درست نہیں ہوتیں۔ج: معاملات کی درستگی کے لیے:

کاروبار، لین دین، نکاح، طلاق، وراثت اور دیگر روزمرہ معاملات میں اگر علمِ دین نہ ہو تو انسان نادانی میں حرام کما بیٹھتا ہے یا ظلم کر بیٹھتا ہے۔

د: اخلاق کی اصلاح کے لیے:

علمِ دین انسان کو اخلاقِ فاضلہ (سچائی، امانت داری، حلم، تواضع) سکھاتا ہے، اور اخلاقِ قبیحہ (جھوٹ، غیبت، حسد، تکبر) سے روکتا ہے۔

4. علمِ دین کے فوائد: 

(ا) اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔

(ب) دل کو سکون اور روح کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

(ت) انسان صراطِ مستقیم پر چلتا ہے۔

(ج) دنیا و آخرت کی کامیابی ممکن ہوتی ہے۔

(د) علم کا نور انسان کو فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے۔5. آج کے دور میں علمِ دین کی اشد ضرورت: 

فکری فتنوں (الحاد، دہریت، نچریت) کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے

مسلکی انتشار اور غلط تشریحات کے سدِ باب کے لیے، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دین سے متعلق گمراہ کن باتوں کا ازالہ کرنے کے لیے، اولاد کی صحیح دینی 

تربیت کے لیے

6. علمِ دین کہاں سے حاصل کریں؟ 

(۱) علمائے کرام اور مفتیانِ دین سے بالمشافہ یا آن لائن استفادہ۔

(۲) مدارسِ دینیہ اور اسلامی یونیورسٹیوں میں داخلہ۔

(۳) قرآن، حدیث اور سیرت کی مستند کتب کا مطالعہ۔

(۴) آن لائن کورسز، ویڈیوز، لیکچرز اور دروس۔

(۵) مساجد میں ہونے والے دینی حلقے اور بیان و اجتماع۔

7. علمِ دین حاصل کرنے کے آداب: 

(۱)  اخلاص نیت: صرف اللہ کی رضا کے لیے علم سیکھنا۔

(۲) ادب و احترام: استاد، کتاب اور علم کا ادب۔

(۳) عمل کی نیت: صرف معلومات کے لیے نہیں، عمل کے لیے علم حاصل کرنا۔

(۴)  تسلسل اور مستقل مزاجی۔

8. علمِ دین پر عمل کی اہمیت! 

علم حاصل کرنے کے بعد اس پر عمل کرنا لازم ہے، ورنہ یہ علم بوجھ بن جائے گا۔ قرآن میں ایسے لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو علم رکھتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔

 الحاصل: علمِ دین محض معلومات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ انسان کی روح کی غذا، زندگی کی رہنمائی، اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔ ایک دین دار انسان بننے کے لیے علمِ دین کا حصول ضروری ہے۔ اگر ہر فرد دین کا کم از کم فرضی علم حاصل کرے، تو نہ صرف اس کی اپنی زندگی سنور سکتی ہے بلکہ معاشرہ بھی فلاح کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔

از قلم: محمد سلمان العطاری

جامعۃ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383