جب قومیں جاگتی ہیں: نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کا سبق
انسانی تاریخ میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہمیشہ سے قارئین کی دلچسپی کا مرکز رہی ہیں۔ کچھ قومیں اتنی ترقی کرتی ہیں کہ ہر طرف ان کا چرچا ہوتا ہے۔ وہ تہذیب و تمدن کی بنیادیں رکھتی ہیں اور نہ صرف خود بلکہ دنیا کو بھی ترقی کی راہوں پر گامزن کرتی ہیں جب کہ اس کے برعکس دوسری قومیں تنزلی کا شکار ہوکر تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔ قوموں کی ناکامی کا مسئلہ صرف معیشت یا سیاست کا نہیں بلکہ انسانی اقدار، انصاف اور حقوق کا بھی ہے۔
قوموں کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہے کہ عوام کو ان کا جائز مقام دیا جائے ان کے ساتھ برابری کا سلوک ہو اور یہ کوشش کی جائے کہ معاشرے کے کچلے ہوئے طبقے کو طاقتور بنایا جاسکے۔ قوموں کی ترقی میں سیاسی اور معاشی اداروں کا کردار ان کی ترقی یا تنزلی کا تعین کرتا ہے۔ معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ادارے اپنا کردار درست طریقے سے انجام دیں اور عوام الناس کے مفادات کو یقینی بنائیں۔
جب بھی کسی قوم میں جمہوری اور شراکتی ادارے معاشی اور سیاسی سرگرمیوں میں وسیع پیمانے پر شرکت کی اجازت دیتے ہیں، مساوی مواقع فراہم کرتے ہیں، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھا جاتا ہے اور چند افراد کے بجائے اکثریت کے مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے تو سماج ترقی کرتا ہے۔ قوموں کے زوال کا سبب صرف بیرونی طاقتوں کا تسلط نہیں بلکہ اندرونی سماجی ڈھانچے کی خرابی بھی ہے۔ جب استحصالی
طبقہ عوام کے حقوق کو غضب کرتا ہے تو وہ قوم اپنی شناخت اور آزادی کھو دیتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں بھی ظلم و ستم کا نظام قائم ہوتا ہے وہاں قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ انسان فطرتاً آزادی، انصاف اور برابری کی خواہش رکھتا ہے اور جب جب انسان سے یہ حقوق چھینے جاتے ہیں تو بغاوت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ انصاف اور آزادی کی جستجو نہ کبھی رکی ہے نہ رکے گی۔ کسی بھی قوم کی ترقی صرف معاشی پیمانوں سے نہیں ناپی جاسکتی بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس سماج میں لوگوں کو کس قدر انصاف، آزادی اور عزت ملتی ہے۔ لوگ جس سماج میں محفوظ ہوں اور انہیں بنیادی حقوق حاصل ہوں اور ان کے لیے آگے بڑھنا دشوار نہ ہو ایسے سماج اور قومیں ترقی کرتی ہیں۔ سماج کی کامیابی کا راز اس بات میں ہے کہ انسانوں کو ان کا جائز مقام ملے انہیں غربت، ناانصافی، ظلم و ستم سے آزاد کیا جائے اور انہیں ترقی کے لیے برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔
جنوبی ایشیا کے سیاسی منظر نامے میں حالیہ برسوں میں ایک ایسی تبدیلی کی لہر اٹھی جس نے روایتی طاقت کے ڈھانچوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ معاشی بحران، بدعنوانی اور نوجوان نسل کی مایوسی سے جنم لینے والے عوامی احتجاج نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب نیپال میں خود سر حکمرانوں کی حکومتوں کو اکھاڑ پھینکا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف سڑکوں پر تشدد اور ہنگاموں کی داستان رقم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ جمہوری نظام میں عوام کی آواز کو
دبانے کی کوشش کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کے لئے یہ ایک عبرتناک سبق ہے کہ عوامی جذبات اور مطالبات کو طویل عرصے تک نظر انداز کرنا ایک ایسی طاقت کو بیدار کر دیتا ہے جو کسی بھی اقتدار کو چیلنج کر سکتی ہے۔ سری لنکا کا واقعہ اس کی سب سے واضح مثال ہے۔ 2022 میں ملک شدید معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہوا۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر ختم ہو گئے، ایندھن اور ادویات کی قلت نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا، مہنگائی آسمان چھو رہی تھی اور قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہو گیا تھا۔ نتیجتاً ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ طاقتور راجپاکشے خاندان جو دہائیوں سے اقتدار پر قابض تھا، عوامی غم و غصے کی زد میں آگیا۔ مہندھا اور گوٹابایا راجپاکشے کو نہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ ان کے گھروں کو آگ لگائی گئی اور صدر گوٹابایا کو محل چھوڑ کر فرار ہونا پڑا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ معاشی ناکامیوں کو بروقت حل نہ کرنے سے عوامی غصہ کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔
اسی طرح بنگلہ دیش میں 2024 کے آغاز سے حالات خراب ہو گئے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں کے خلاف طلبہ اور نوجوان سڑکوں پر نکل آئے۔ طلبہ تنظیموں اور اپوزیشن کی حمایت سے یہ احتجاج تشدد پر تشدد ہوگیا، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ جنھیں جنوبی ایشیا کی ’’آئرن لیڈی‘‘ کہا جاتا تھا، کو ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینی پڑی۔ یہ انقلاب ظاہر کرتا ہے کہ طویل حکمرانی میں
بدعنوانی اور جبر عوام کو کس طرح متحد کر دیتا ہے اور طاقت کا غلط استعمال اقتدار کی بنیادیں کس قدر کمزور کر دیتا ہے۔
اب نیپال کی تازہ ترین صورتحال دنیا کے سامنے ہے جہاں نو ستمبر 2025 کو وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ عوامی غم و غصے نے نیپال میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی۔ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندی کا فیصلہ عوامی ناراضگی کا باعث بنا جسے طلبہ اور نوجوانوں نے سنسرشپ اور بدعنوانی کی پردہ پوشی کی کوشش قرار دیا۔ اس فیصلے نے کٹھمنڈو میں’’جنریشن زیڈ احتجاجات ‘‘ کو جنم دیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ملک گیر تحریک بن گیا۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا۔ وزراء اور سیاسی رہنماؤں کی رہائش گاہوں پر حملے کئے اور وزیر اعظم کی نجی رہائش گاہ کو آگ لگا دی۔ چند طاقتور وزراء کو دوڑا دوڑا کر پیٹا گیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں بیس سے زائد افراد ہلاک اور دو سو پچاس سے زائد زخمی ہوگئے۔ حالات اس قدر بگڑ گئے کہ کٹھمنڈو اور دیگر شہروں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا اور فوج کو سڑکوں پر اتارا گیا۔ بالآخر اولی نے صدر رام چندر پوڈیل کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا جس کے بعد صدر راج نافذ ہوگیا۔ حکومت نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پندرہ روزہ انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر پابندی رات گئے ختم کر دی گئی لیکن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ واقعہ ڈیجیٹل دور میں عوامی جذبات کو دبانے کی کوششوں کے سنگین نتائج کو عیاں کرتا ہے۔ مذکورہ تینوں واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں عوامی طاقت کو کمزور سمجھنا ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ نظام میں عوام کا اعتماد بحال رکھیں، جمہوری اداروں کو مضبوط کریں اور شفاف و جوابدہ حکمرانی کو یقینی بنائیں۔ معاشی مسائل، بدعنوانی اور نوجوانوں کی مایوسی کو حل نہ کرنے سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے جو کسی بھی رہنما کی سیاسی زندگی کو یکدم ختم کر سکتا ہے۔ حکمرانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اقتدار عوام کی طرف سے ایک عارضی امانت ہے اور اسے ضائع کرنے کی قیمت بہت بھاری ہو سکتی ہے۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو ایسے بحران ناگزیر ہیں۔ عوام کی آواز اور ان کے تقاضوں کو کچل کر کوئی بھی حکمران تاریخ کو بار بار دہرانے سے نہیں روک سکتا ہے۔ خود سر اور مطلق العنان حکمران کا انجام وہی ہوگا جو سری لنکا، بنگلہ دیش اور اب نیپال میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
iftikharahmadquadri@gmail.com