نیپال میں دوبارہ بادشاہی حکومت کا قیام: مسلمانوں کے لئے مفید یا مضر؟
نیپال ایک ایسا ملک ہے جو اپنی جغرافیائی تنوع، تاریخی ورثے اور ثقافتی کثرت کی وجہ سے دنیا میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ بدھ مت کے بانی کی جائے پیدائش ہونے کے ناطے عالمی روحانیت کا مرکز ہے اور ساتھ ہی اپنی سخت جان فوجی تاریخ اور کبھی نوآبادیاتی تسلط میں نہ آنے کے باعث جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک انوکھا مقام رکھتا ہے۔ اسی سرزمین پر حضرت مسکین شاہ کشمیری ،حضرت سید غیاث الدین کشمیری اور اولیائے روضہ شریف جیسے عظیم روحانی بزرگان دین بھی جلوہ افروز ہوئے جنہوں نے نیپال میں اسلام اور روحانیت کے چراغ کو روشن کیا۔ ان کی تعلیمات، اخلاق اور خدمات نے مقامی سماج پر گہرا اثر ڈالا اور لوگوں کے دلوں کو امن و سکون بخشا۔ ان نفوس قدسیہ کے مبارک وجود کی برکت سے یہاں کا ماحول محبت، رواداری اور اخوت سے منور ہوا۔ ان مشائخ کا نیپالی بادشاہوں کے ساتھ بھی گہرا تعلق رہا، جو نہ صرف ان کے احترام کے قائل تھے بلکہ مختلف مواقع پر ان کی رہنمائی اور دعاؤں سے فیضیاب بھی ہوتے رہے۔ اس طرح روحانیت اور حکمرانی کا یہ حسین امتزاج نیپال کی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔
نیپال کی وادیوں میں وقت کے ساتھ کئی تبدیلیاں آئیں، مگر بادشاہت اور جمہوریت کی کشمکش ہمیشہ ملک کی روح میں گونجتی رہی۔ ہر سنگ میل پر تاریخ نے ہمیں سبق دیا کہ طاقت کے محور بدلنے سے قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے، اور اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کی بقا اور ترقی کی راہیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ آج جب دوبارہ بادشاہت کے قیام کی باتیں سنائی
دے رہی ہیں، تو ہمیں صرف تاریخی حقائق یاد رکھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ مستقبل کے لیے محتاط اور سمجھدار فیصلے کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ لمحہ غور و فکر، حکمت اور پرامن حکمت عملی کا ہے تاکہ وہ نہ صرف اپنے حقوق کی حفاظت کریں بلکہ ملک میں امن اور ہم آہنگی کا بھی ستون بن سکیں۔
مسلمانوں کی سیاسی و سماجی حیثیت:
نیپال میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 4–5 فیصد ہے، اور وہ زیادہ تر ترائی کے علاقوں میں آباد ہیں۔ تاریخی طور پر مسلمانوں نے تجارتی، تعلیمی اور سماجی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، مگر سیاسی میدان میں اکثر محدود رہ گئے۔ 2007 کے شاہی مخالف مظاہروں اور حالیہ احتجاجات میں مسلمانوں کی کم شرکت نے کمیونٹی کی سیاسی کمزوری کو ظاہر کیا۔
مسلمان رہنماؤں کی ذمہ داری:
تاریخ گواہ ہے کہ نیپال میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی بقا ہمیشہ ان کے رہنماؤں کی دوراندیشی پر منحصر رہی ہے۔ 1951ء کی پہلی جمہوری تحریک ہو یا 1990ء کی دوسری بڑی عوامی بیداری، دونوں مواقع پر مسلمانوں کے رہنماؤں نے کمیونٹی کو پیچھے نہیں رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج نیپال کا مسلمان اپنے چھوٹے عددی تناسب کے باوجود قومی منظرنامے میں اپنی شناخت رکھتا ہے۔ آج بھی مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ:
سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیں:
تاریخی تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی اور نسلی اختلافات اکثر کمیونٹی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر 1970–1980 کی دہائی میں مذہبی منافرت کے واقعات نے مسلمانوں کو سیاسی اور سماجی
طور پر کمزور کیا۔ آج مسلمانوں کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے اور دیگر کمیونٹیز کے درمیان تعلقات کو مضبوط رکھیں، اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں، اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ یہ رویہ نہ صرف کمیونٹی کے تحفظ کا ضامن ہے بلکہ ملک میں مثبت اور تعمیری شمولیت کے دروازے بھی کھولتا ہے۔
سیاسی شعور پیدا کریں:
نیپال جیسے کثیر النسلی اور کثیر المذہبی ملک میں ہر کمیونٹی کی بقا اور ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ اس کے افراد میں کتنا سیاسی شعور پایا جاتا ہے۔ سیاسی شعور کا مطلب صرف سیاست پر بات کرنا نہیں بلکہ ملکی حالات کو سمجھنا، تبدیلیوں کا تجزیہ کرنا اور اپنی برادری کے مفاد کو بڑے قومی مفاد سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
رہنماؤں کو جوابدہ بنائیں:
مذہبی اور سیاسی رہنما جو عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہیں، ان پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ شفافیت، دیانت داری اور عملی حکمتِ عملی کے ساتھ اپنی قوم کی رہنمائی کریں۔ اگر وہ ذاتی مفاد، خاندانی وابستگی یا ذاتی شہرت کے اسیر بن جائیں تو کمیونٹی کا نقصان ناگزیر ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ وہ اپنی سرخیلی و بادعائے خویش و وابستگان کا حق صحیح معنوں میں ادا کریں، اپنی ذمہ داریوں کا شعور بیدار کریں اور اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں۔ یہی طرزِ عمل مسلمانوں کے لیے نہ صرف تحفظ کا ذریعہ بن سکتا ہے بلکہ انہیں نیپال کی بدلتی ہوئی سیاست میں ایک مؤثر کردار بھی عطا کر سکتا ہے۔
بادشاہت کے تاریخی فوائد اور نقصانات:
بعض اوقات جہاں مضبوط بادشاہت نے نیپال میں سیاسی انتشار کو کم کیا اور مرکزی حکومت کی مضبوطی
یقینی بنائی،وہیں
تاریخی تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بادشاہت نے اکثر ہندو اکثریت کے مفادات کو ترجیح دی اور اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کی ترقی محدود کی۔
2001 کا شاہی قتل اور بعد کے سیاسی بحران نے دکھایا کہ بادشاہت میں استحکام کے دعوے کے باوجود کشمکش اور تشدد کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔اس لئے موجودہ احتجاجات میں شدت پسند ہندو قوم پرستی کے نعرے مسلمانوں کے لیے خطرہ ہیں، اور بادشاہت کے قیام سے یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تاریخی حقائق اور موجودہ حالات کے تجزیے سے واضح ہے کہ نیپال میں دوبارہ بادشاہت مسلمانوں کے لیے زیادہ مضر ہو سکتی ہے۔ اگرچہ بعض حالات میں نظم و ضبط قائم ہو سکتا ہے، مگر کمیونٹی کی سیاسی آزادی، سماجی حقوق، اور تحفظ کا خطرہ غالب رہے گا۔اور اس وقت جو حالات ملک میں بطور خاص ترائی میں ہیں اس تناظر میں بادشاہی حکومت مسلمانوں کے لئے مستقبل قریب میں نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
مسلمان نیپالی باشندوں کے لیے بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ وہ جمہوری نظام کی حمایت کریں، تعلیم و شعور کو فروغ دیں، پرامن مکالمے کے ذریعے اپنے حقوق کی حفاظت کریں اور آپسی اتحاد بنانے کی بھرپور کوشش کریں۔لیکن جو آپسی انتشار و ناچاقیاں اس وقت مسلمانوں میں ہیں اگریہی حال رہا تو پھر پر امن و خیرآور مستقبل کی امید نہ رکھیں۔
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی عفی عنہ
14/ستمبر 2025