اِک دشمن جو نظر نہیں آتا!
(حافظ) افتخاراحمدقادری
دنیا ایک امتحان گاہ اور ایسا دارالعمل ہے جہاں ہر لمحہ، ہر سانس، ہر فیصلہ انسان کے لیے آزمائش کا ذریعہ ہے۔ یہاں انسان کو نہ صرف اپنے نفس کے خلاف لڑنا ہے بلکہ ایک ایسے دشمن سے بھی بچنا ہے جو ازل سے انسان کی بربادی پر کمربستہ ہے۔ اس دشمن کا نام "شیطان" ہے۔ یہ دشمن نہ صرف پرانا ہے بلکہ نہایت چالاک، تجربہ کار اور انسان کی فطرت و کمزوریوں سے مکمل واقف ہے۔ دوسری طرف الله رب العزت نے انسان کو نورِ ہدایت، وحی انبیاء کرام علیہم السلام اور قرآن مجید جیسی نعمتوں سے نوازا تاکہ وہ شیطان کے وار سے محفوظ رہے اور جادہ حق پر قائم رہ سکے۔ یہ جنگ حق و باطل، روشنی و تاریکی، خیر و شر کی جنگ ہے جو انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ جب حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو الله رب العزت نے مٹی سے پیدا فرمایا، انہیں علم عطا کیا اور فرشتوں کے سامنے ان کا شرف ظاہر کیا تو ابلیس نے حسد اور تکبر کی وجہ سے سجدے سے انکار کر دیا۔ اس کا یہ انکار محض نافرمانی نہ تھا بلکہ یہ ایک بغاوت تھی۔ اس نے الله رب العزت کے حکم کو رد کیا، اپنی پیدائش پر غرور کیا اور ہمیشہ کے لیے مردود ٹھہرا۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ترجمہ:
"یقیناً شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے پس تم اسے دشمن ہی سمجھو۔" (فاطر: 6)
یہ اعلان صاف بتاتا ہے کہ شیطان دوستی کے لبادے میں دشمنی کرتا ہے۔ وہ سامنے سے وار نہیں کرتا بلکہ دل میں وسوسے، آنکھوں میں چمکدار مناظر، کانوں میں خوشنمائی کی آوازیں اور ذہن میں الجھنیں ڈال کر انسان کو بہکاتا ہے۔
آج کے دور میں جب فتنوں کا سیلاب ہر جانب سے امڈ رہا ہے، موبائل، انٹرنیٹ، فلمیں، گانے، سوشل میڈیا اور دیگر بے شمار ذرائع کے ذریعے شیطان نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔ وہ اب صرف دل میں وسوسہ ڈالنے تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر اس چیز میں داخل ہوگیا ہے جو انسان کی توجہ الله رب العزت سے ہٹا سکتی ہے۔ آج کے انسان کے لیے شیطان کی چالیں زیادہ پرکشش، زیادہ مہلک اور کہیں زیادہ خاموش ہیں۔ شیطان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ انسان کو گناہ کی طرف براہ راست نہیں بلاتا بلکہ آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے بہانوں سے بظاہر معمولی باتوں سے دل میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے: "یہ صرف ایک بار ہے، سب لوگ یہی کر رہے ہیں تم کیوں نہیں؟ الله بہت غفور و رحیم ہے بعد میں توبہ کر لینا۔" اسی طرح وہ معصیت کو خوبصورت، جدید اور قابل قبول بنا کر پیش کرتا ہے حتیٰ کہ انسان گناہ کو گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیتا ہے۔ الله تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے ترجمہ:
"شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوشنما بنا دیا۔" (النحل:63) یہی وہ چالاکی ہے جس سے شیطان انسان کو راہِ راست سے ہٹاتا اور انسان کو بتدریج گناہ کی دلدل میں دھکیلتا ہے۔ پہلے نظریں پھسلتی ہیں، پھر دل بہکتا ہے، پھر عمل ہوتا ہے، پھر دل سخت ہوتا ہے اور آخرکار انسان گناہ کو زندگی کا معمول سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کے لیے پلٹنا مشکل ہو جاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: "شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔" (صحیح البخاری) یعنی وہ ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے، اس کے جذبات و خیالات، نیتوں اور خواہشات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انسان کو اس کے کمزور پہلو سے پکڑتا ہے۔ جو شخص شہوت میں کمزور ہو اسے فحاشی میں لگاتا ہے، جو مال کا حریص ہو اسے حرام کمانے پر ابھارتا ہے، جو عزت کا بھوکا ہو اسے ریاکاری میں مبتلا کرتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود الله رب العزت نے انسان کو تنہا نہیں چھوڑا بلکہ قرآن مجید، نماز، ذکر، صالحین کی صحبت، علماء کی نصیحت اور رسول الله ﷺ کی سنتیں ہمارے لیے قلعہ ہیں جن میں داخل ہو کر ہم شیطان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ترجمہ:
"یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔" (العنکبوت: 45)
لیکن یہ وہی نماز ہے جو دل سے پڑھی جائے، جس میں خشوع و خضوع ہو، جو محض جسمانی ورزش نہ ہو بلکہ روحانی ملاقات ہو۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "وہ گھر جس میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے
وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔" (صحیح مسلم) اسی طرح "آیت الکرسی" "سورۃ الاخلاص" "الفلق" اور "الناس" کا صبح و شام ورد انسان کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ آج دنیا میں شیطان نے میڈیا، فیشن، تعلیمی نظام حتیٰ کہ مذہب کے نام پر ہونے والے اختلافات کو بھی اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ وہ لوگوں کو فرقہ واریت، انتہا پسندی اور تعصب میںمبتلا کر کے اصل دین سے دور کرتا جا رہا ہے۔ وہ ہمیں دین کے ظاہر میں الجھا کر باطن سے غافل کر رہا ہے۔مثال کے طور پر ایک نوجوان جب موبائل پر گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے تو شیطان اسے تسلی دیتا ہے کہ "تم ابھی جوان ہو بعد میں سنبھل جانا، دل تو تمہارا صاف ہے تم کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے صرف انٹرنیٹ ہی تو ہے!" یہی وہ دھوکہ ہے جس سے لاکھوں نوجوان غفلت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن ایک مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ شیطان کو پہچانے، اس کی چالوں کو سمجھے اور الله رب العزت کی طرف رجوع کرے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جس نے گناہ سے توبہ کی گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔" (مشکوٰۃ المصابیح) الله تعالیٰ کی رحمت بے حد وسیع ہے، اس کی مغفرت ہر گناہ سے بڑی ہے سوائے شرک کے۔ شیطان کی سب سے خطرناک چال یہ ہے کہ وہ انسان کو گناہ کے بعد مایوس کرتا ہے۔ اسے یقین دلاتا ہے کہ اب الله رب العزت معاف نہیں کرے گا، اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ لیکن قرآن مجید فرماتا ہے ترجمہ: "الله کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک الله تمام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔" (الزمر: 53) یہی توکل، یہی امید مؤمن کا ہتھیار ہے۔ صالحین کی صحبت، علماء کی مجالس، نیک دوست اور دینی کتب انسان کے دل کو زندہ رکھتی
ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ترجمہ: "اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں۔" (الکہف: 28)
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، پس تم میں سے ہر ایک دیکھے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔" (مشکوٰۃ المصابیح)
اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے تو اسے چاہیے کہ اپنے دل کو ایمان سے، زبان کو ذکر سے، اعمال کو اخلاص سے اور اپنی نیت کو الله تعالیٰ کی رضا سے بھر دے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ:
"یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور اپنے رب پر توکل کیا ان پر شیطان کا کوئی زور نہیں چلتا۔" (النحل: 99) مسلمانو! زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے، فتنوں کا اندھیرا گہرا ہو رہا ہے، حق و باطل کے درمیان فرق مٹتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر تم نے قرآن مجید کو اپنا ساتھی، نماز کو اپنا ہتھیار، توبہ کو اپنی عادت اور صالحین کو اپنا رفیق بنا لیا تو یہ وہ لمحات ہیں جن میں دل کی پکار اور روح کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہ وہ موقع ہیں جب انسان کو خود کو پہچاننا ہے، اپنی کمزوریوں کا ادراک کرنا ہے اور حق کی جانب قدم بڑھانا ہے۔ قارئین مزید دیکھیں کہ ایک مؤمن کے لئے شیطان کی چالوں سے بچنے اور ایمان کو مضبوط رکھنے کی مزید تدابیر کیا ہیں؟ شیطان چاہتا ہے کہ گناہ ہماری روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن جائیں، جیسے فحش ویڈیوز دیکھنا، لغو گفتگو کرنا، بلا مقصد ویب سرفنگ کرنا اور زبان کو بے ہودہ باتوں میں لگانا۔ جب ان چیزوں کو معمول بنا لیا جائے تو انسان کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کتنا دور ہو چکا ہے۔ وہ کہتا ہے: “یہ کوئی بڑی بات نہیں” “بس ایک بار کو ہوا تھا” “تمہارے اعمال بہت اچھے ہیں، ایک غلطی کیا فرق ڈالے گی” اس طرح وہ گناہوں کو قابلِ قبول بنا دیتا ہے۔ اگرچہ شیطان کی چالاکیاں بہت پیچیدہ اور مسلسل ہیں مگر الله رب العزت کی رحمت، نبی کریم ﷺ کی شفاعت اور مخلص مومنوں کی دعا ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ وہ ہمیں بار بار گرانے والا نہیں بلکہ اٹھانے والا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہوں بلکہ ہمیشہ توبہ کریں، درست رہیں اور واپس لوٹیں۔ *کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اترپردیش