Oct 23, 2025 07:42 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
مختصر تذکرہ میلاد رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم

مختصر تذکرہ میلاد رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم

28 Aug 2025
1 min read

مختصر تذکرہ میلاد رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم

اسیر مصطفیٰ محمد ایوب قادری

سابق صدر المدرسین دارالعلوم علیمیہ 

جمد اشاہی ضلع بستی یوپی (انڈیا)

نزیل۔ علی گڑھ

وہ آئے روشنی پھیلی، ہوا دن، کھل گئیں آنکھیں

اندھیرا ہی اندھیرا چھا رہا تھا بزم امکاں میں

وہ ہر عالم کی رحمت ہیں کسی عالم میں رہ جاتے

یہ ان کی مہربانی ہے کہ یہ عالم پسند آیا

قرآن پاک ناطق ہے کہ،،بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول (سید عالم خاتم النبیین محمد مصطفی ﷺ کو) بھیجا (ترجمہ سورہ آل عمران آیة 162)

ولادت

 بارہ ربیع الاول 1447ھ سے یعنی چودہ سو ننانوے سال دو ماہ بارہ دن قبل کا دور گزرا کہ شہر مکہ مبارکہ و اطراف و جوانب میں موسم بہار کا آغاز تھا کلیاں کھلنے والی تھیں، ہر سو نور ہی نور کا جلوہ تھا فضا مشک بار سکون بخش ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا سہانی رات کا پچھلا پہر تھا کہ حضرت آمنہ کو معمولی درد زہ ہوا رجوع الی اللہ ہوئیں اس وقت کیا دیکھتی ہیں کثیر تعداد میں خوبصورت عورتیں حاضر آگئیں انہوں نے کہا گھبرایں نہیں اللہ تعالی نے ہم حوروں کو جنت سے آپ کی خدمت کے لیے بھیجا ہے۔ ہم سب آپ پر فدا و قربان ہیں۔ اور اس وقت ایک نورانی سی شکل کی شخصیت کا ظہور ہوا اس نے ایک پیالہ شراب طہور کا میرے ہاتھ میں دیا اور کہا پی لو میں نے پیا وہ دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ بعدہ اس نے کہا اظھر یا سید العالمین اظھر یا خاتم النبیین، اظھر یا نورا من نور اللہ، اظھر یا محمد بن عبداللہ ﷺ یہ کہہ کر وہ غائب ہوگئے فظھر صلی اللہ علیہ وسلم کالبدرالمنیر

حاصل مقصود عام الفیل ہجرت مقدسہ سے تریپن برس پہلے (خلاصہ 53+1446= 1499 سال اور 1447ھ کا دو ماہ بارہ دن یعنی کل 1499 سال دو ماہ بارہ دن قبل) ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ دوشنبہ کے دن بوقت صبح صادق روح کائنات سید عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آبائی رشک خانہ میں حضرت آمنہ رضی اللہ تعالی عنہا کے شکم مبارک سے مختون پیدا ہوئے۔ 

ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا

دعائے خلیل و نوید مسیحا

صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا

صدقہ لینے نور کا آیا ہے تارا نور کا

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند

اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

*حضور نبی کریم ﷺ* کی جب ولادت ھوئی چار عورتیں آسمان سے اتریں حضرت آمنہ کو کچھ خوف محسوس ہوا آپ نے کہا آپ سب کس کی عورتیں ہیں؟ انہوں نے کہا آپ خوف نہ کریں ایک بولی کی میں حوا ام البشر ہوں دوسری نے کہا میں سارہ ام اسحق ہوں تیسری بولی میں ہاجرہ ام اسمعیل ہوں چوتھی کہنے لگی میں آسیہ بنت مزاحم ہوں۔ حضرت حوا کے پاس سونے کا طبق اور حضرت سارہ کے پاس ابریق نقرہ (چاندی کا پیالہ) میں آب کوثر اور حضرت

ہاجرہ کے پاس عطر بہشت اور حضرت آسیہ کے پاس مندیل سبز تھی انہوں نے حضور ﷺ کو غسل دے کر جسم اطہر کو عطر و خوشبو سے معطر کرکے حضرت آمنہ کے گود میں دے دیا۔ آپ چودہویں چاند سے زیادہ روشن و خوب رو رخ انور دیکھ کر کیف و سرور سے بیخود ہوگئیں محبت بھرے سینے سے نور نظر کو چمٹا لیا (راقم کا وجدان یہ ہے گویا ان کی صدائے دل یہی رہی) 

ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا

تجھ کو دیکھا ہو گیا ٹھنڈا کلیجہ نور کا

آنکھوں کا تارا میرا محمد ﷺ

دل میں سماجا میرا محمد ﷺ

عالم کا پیارا میرا محمد ﷺ

*بعد ولادت* سیدالملائکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرشتوں کے جھرمٹ میں حضور کی ولادت کی خوشی میں مشرق و مغرب میں اور کعبہ کی چھت پر نورانی جھنڈا نصب کیا۔

کعبہ کی چھت پر جھنڈا روح الامیں نے گاڑا

تا عرش اڑا پھریرا صبح شب ولادت

بارگاہ مصطفی ﷺ میں دیگر فرشتوں نے حاضر ہو کر نذرانہ سلام پیش کیا صبح صبح پیدائش کی خبر عام ہوگئی قریش کی عورتوں نے حاضر ہو کر حضرت آمنہ کو مبارکباد دیتی رہیں۔ 

*سردار مکہ* آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب بوقت ولادت خانہ کعبہ میں تھے وہاں سے تشریف لاکر مسرت سے بیٹے عبداللہ کی نشانی کو سینے سے لگایا دادا کا دلی ارمان پورا ہوا خوشی و شادمانی میں مست ہو گئے آپ کا چمکتا دمکتا مسکراتا رخ زیبا دیکھا زبان حال سے گویا ہوۓ 

اک ترے رخ کی روشنی چین ہے دو جہان کی

انس کا انس اسی سے ہے جان کی وہ ہی جان ہے

نہ کوئی آپ جیسا تھا نہ کوئی آپ جیسا ہو

خدا نے گویا خود آپ کی چاہت سے ڈھالا ہو

صورت تیری معیار کمالات بنا کر 

دانستہ مصور نے قلم توڑ دیا ہے 

آپ ﷺ کو خانہ کعبہ لے گئے باب کعبہ پہ کھڑے ہوکر اس عظیم نعمت پر شکر خدا بجا لائے آپ کو حق تعالیٰ کی پناہ میں سپرد کیا اور محمد نام رکھا بیت اللہ شریف سے واپس آکر حضرت آمنہ کی گود میں آپ کو دے دیا اور آپ کی محافظت کی تاکید فرمائی*عقیقہ* حضور ﷺ کے والد حضرت عبداللہ آپ کی ولادت سے قبل وصال فرما چکے تھے اس لئے نام رکھنے کی ذمہ داری والدہ محترمہ اور دادا جان عبدالمطلب پر آگئی اور یہی دونوں شخصیتیں نام رکھنے کی مجاز تھیں اور ان دونوں کو قبل ولادت محمد نام رکھنے کی بشارت بھی مل چکی تھی.

امام بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے آپ کے پیدائش کے ساتویں دن محمد ﷺ کے نام پر عقیقہ کیا خوب فربہ توانا تندرست جانور ذبح کیا قریش کو ضیافت دی بحسب دعوت اہل قریش نے حاضر ہو کر کھانا تناول فرمایا کھانا کھانے کے بعد آپ سے دریافت کیا گیا اےعبدالمطلب آپ نے اس بچے کا محمد نام کیوں رکھا؟ آپ نے جواباً فرمایا (بشارت کے مطابق) تا کہ آسمان والے اس بے مثال بچے کی تعریف کرتے رہیں۔ اور اہل زمین بھی اس کے لئے رطب اللسان رہیں۔ (الروض الانف ۱/۲۸۰ دلائل النبوہ لابی نعیم ۱/۱۳۶ دلائل النبوہ للبیہقی ۱/۱۱۳) 

میٹھا میٹھا ہے میرے محمد ﷺ کا نام

سب کو پیارا ہے میرے محمد ﷺ کا نام

ہر سو شہرہ ہے میرے محمد ﷺ کا نام

ان پہ لاکھوں درود و کروڑوں سلام

ان پہ لاکھوں درود و کروڑوں سلام

*حضرت امام نووی* رحمتہ اللہ علیہ علامہ ابن الفارس علیہ الرحمہ کا قول نقل فرماتے ہوئے کہتے ہیں، وبه سمي نبينا صلى الله عليه وسلم محمدا و احمد اى الهم اللّه تعالى اهله ان سموه به لما علمه من جميل صفاته،، ہمارے نبی کریم ﷺ کا نام محمد و احمد اس لئے رکھا گیا کہ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کے گھر والوں (آپ کی والدہ حضرت آمنہ و دادا عبدالمطلب) کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ آپ کا نام محمد اور احمد رکھیں یہ مبارک نام رکھنے کی اہم وجہ یہ تھی کہ آپ کی یگانہ صفات خوب تر اچھائیاں (استقرار حمل کے وقت سے ظاہر ہو رہیں تھیں اور تواتر دم بدم سے) احاطہ علم میں آ رہی تھیں (شرح النوی علی صحیح مسلم ۱۵/۱۵۲,۱۵۳) 

پیارے نبی کا بچپن :سرکار دوعالم ﷺ نے جب خاکدان گیتی کو شرف بخشا تو وجود  عالم ہی کے وقت سے چاند وسورج کا جو عمل جاری تھا چاند اور سورج طلوع اور غروب ہوکر اپنی روشنی و چمک دمک دکھاتے اور غروب ہوجاتے ان کی یکساں حالت نہ رہتی تغیر و تبد یلی ہوتی رہتی بہت موقع کی بات ہے جیسا کہ مستند کتابوں میں تحریر ہے کہ نبی کریم ﷺ کو جب پالنے میں مہد گہوارہ میں آرام کے لئے لٹایا جاتا تو آپ جس طرف انگشت مبارک اٹھاتے پھراتے تو چاند اِدھر اُدھر جھک جاتا یہ آپکی معجزانہ قوت کا اظہار تھا۔

چاند جھک جا تا جدھر انگلی اٹھاتے مہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

ایام طفولیت میں آپ عام بچوں کی طرح لہولعب و کھیل کود میں شامل نہ رہتے بچپن ہی سے بہت حیا دار تھے آپ کی عمر زیادہ ہوتی گئی تو جو ہر نمایاں ہوتا رہا۔

*عالم جوانی* جوانی میں بھی آپ کا کردار و عمل اعلی پیانے پر مکہ میں مشہور تھا زمانہ جاہلیت کے میلوں میں بھی جو کھیل تماشا نیزہ بازی و جاہلانہ و شاعرانہ مقابلہ ہوتا تھا آپ اس سے نفرت کرتے اور جدائی رکھتے عالم جوانی میں آپ کو اہل مکہ ایک امین دیانتدار صادق و راست گو مانتے و جانتے تھے اور اسی لقب سے پکارتے تھے آپ دکھیاروں کے درد میں شریک رہتے بیواؤں یتیموں محتاجوں کی خبر گیری کرتے چھوٹے بڑے سے حسب حیثیت سلوک رکھتے۔

*نکاح* آپ کے اعلی کردار و عمل سے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا جو ایک صاحب مال و دولت نیک سیرت بیوہ تھیں وہ بھی آپ کی ذات سے بہت متاثر ہوئیں

چنانچه۔ نیک بیوی کی جانب سے بہ واسطہ اپنے چچا و سہیلی حضور کے چچا ابوطالب سے حضور کے رشتے کا تذکرہ ہوا ابوطالب نے بخوشی منظور کیا الحاصل حضرت خدیجہ کے دولت کدہ پر ابوطالب و خاندان کے دیگر حضرات جمع ہوۓ اور حضور کا حضرت خدیجہ سے نکاح ہو گیا بوقت نکاح حضرت خدیجہ کی عمر 40 برس اور آپ کی 25 برس تھی، حضرت خدیجہ سے آپ کے لڑ کے ولڑکیاں ہوئیں لڑ کے ایام طفلی میں وفات پاگئے البتہ چار لڑکیاں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئیں۔

*اعلان نبوت* ایسے حالات میں کہ مکہ و پوری دنیا جہالت و کفر کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی انسانیت پر نزع کا عالم طاری تھا دنیا ہلاکت کے گہرے غار میں گم ہوجانے والی تھی عین ایسے وقت میں حضور کی پاکیزہ زندگی کے جب 40 سال مکمل ہوۓ تو قریش و اہل مکہ کے اجتماع میں بحکم رب العالمین آپ نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان فرمایا کہ اے لوگوں میں اللہ کا رسول نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں کلمہ توحید پڑھ کر دامن اسلام میں داخل ہو جاؤ نجات و فلاح پاؤ گے جن کا نصیبہ اچھا تھا وہ لوگ ایمان لاۓ اور اکثر لوگ کنارہ کش اور اسلام سے بیزار رہے 

ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ جو ذات ہادیٔ برحق تھی اور

اتر کر حرا سے سوۓ قوم آیا

وہ اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا

کفار قریش نے آپ اور اسلام قبول کرنے والوں پر ہر طرح کے مصائب و آلام کا پہاڑ توڑتے تھے اعلان نبوت کے بعد سے 13 سالہ مکی زندگی مسلمانوں کے لئے بہت پریشان کن وکٹھن گھڑی تھی لیکن ہر دکھ درد کو برداشت کرتے ہوۓ خدا کی وحدانیت رسول کی رسالت پر قائم رہے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا جب کفار قریش کا ظلم وستم حد سے زیادہ بڑھ گیا تو بحکم رب العالمین حضور نے اور مسلمانوں نے ترک وطن و ہجرت کر کے مدینہ شریف کو اپنا وطن ومسکن بنایا مد ینہ شریف کی دس سالہ قیمتی زندگی میں اسلام کا عروج ہوا مہاجرین و انصار نبی کے حکم پر جان و مال قربان کرتے رہے صحابہ کے جذبہ ایمانی ایثار و قربانی سے اسلام کا غلبہ ہوا اعلان نبوت کے بعد آقا کی 23 سالہ روشن و تابناک حیات نے پوری دنیا کو امن کا پیغام دیا کفر و شرک جاہلیت کے رسم و رواج سے معاشرہ کو پاک وصاف کر دیا۔

*رحمت للعالمین عظیم نعمت الہی ہیں*

قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے {وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ} اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچہ کرو حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی نعمت سے مراد محمد ﷺ کی ذات ہے حضور کی تشریف آوری سب نعمتوں سے اعلی نعمت ہے

رب اعلی کی نعمت پر اعلی درود

حق تعالی کی منت پہ لاکھوں سلام

آپ ہی کی میلاد آپ کی مبارک آمد کے طفیل سارے عالم کا وجود ہے سب سے پہلے اللہ نے حضور کے نور کی تخلیق فرمائی آپ ہی کے نور سے تمام کائنات کو پیدا فرمایا آپ نور عالم روح کائنات ہیں

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہوں

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

ایک انسان ہی نہیں ساری مخلوق ولادت کی خوشی میں مگن ہیں فرشتے بھی میلاد سرکار مناتے ہیں فرشتے کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو بلاتا ہے محبوب کے تذکرہ میں آسمان پر چھا جاتے ہیں ہم آپ تو ولادت کی خوشی میں نعت گنگناتے ہیں شیرینی بانٹتے ہیں صدقہ و خیرات کرتے ہیں ملائکہ تو رحمت کی سوغات تقسیم کرتے ہیں کیونکہ کائنات کے رسول سارے عالم کے رحمت للعالمین کا تذکرہ ہورہا ہے جن کی رحمت سے تمام عالم فیض حاصل کر رہا ہے 

اسی لئے ہر سال 12 ربیع الاول کو عالم اسلام آپ کی ذات عالی وقار کا یوم ولادت بہت تزک و احتشام سے مناتے ہیں رحمت و انوار سے بہرہ مند ہوتے ہیں اور عاشقان مصطفی سرکار مدینہ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔ 

میں گدا تو بادشاہ بھر دے پیالہ نور کا

نوردن دو نا تیرا دے ڈال صدقہ نور کا

ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود

ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام

وہ رحمت و کرم والا آ قا جو امت کا نجات دہندہ ہے ہم کو بھی چاہیے کہ  جشن ولادت سرکار شریعت کے مطابق منایں اور حضور کی سیرت کو اپنائیں حقوق اللہ حقوق العباد کی ادائیگی کرتے رہیں۔ 

*ادارہ علیمیہ کے زیرانتظام جشن ولادت سرکار مدینہﷺ*راقم جب 1971 عیسوی میں ادارہ ہذا میں صدر مدرس کہ عہدے پر فائز ہوا تو چند ماہ کے بعد 27 اپریل 1972 عیسوی 12 ربیع الاول 1392 ہجری جمعرات کی شب میں جلسہ اور جمعرات کو دن میں جلوس نبوی کا آغاز ہو کر حمد و نعت کے ساتھ آبادی میں گشت ہوا۔

الحمدللہ! دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی میں زیر انتظام دارالعلوم علیمیہ بحساب سن ہجری امسال 56 واں جلسہ 4 ستمبر بعد نماز عشاء اور جلوس نبوی ﷺ 5 ستمبر 2025 بروز جمعہ مبارکہ 12 ربیع الاول 1447ھ کو تزک و احتشام کے ساتھ جلوس کا گشت ہوگا۔ پروگرام کی تفصیل ادارہ کے پوسٹر سے ظاہر ہے

احباب اہلسنت خاص کر جماعت علیمیہ سے گزارش ہے کہ اس پر مسرت موقع پر اپنے کاروبار کو بند کرکے ہر دو پروگرام میں شرکت فرماییں اور بحسب سابق جلوس نبوی ﷺ کا استقبال کرتے ہوئے ادارہ علیمیہ کی دام درمے قدمِ سخن حتی المقدور مالی امداد و تعاون فرمایں۔ آمین

اسیر مصطفیٰ *محمد ایوب قادری* سابق صدر المدرسین دارالعلوم علیمیہ جمد اشاہی ضلع بستی یوپی (انڈیا)

نزیل۔ علی گڑھ

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383