Oct 23, 2025 11:24 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہےلب پہ آسکتانہیں!

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہےلب پہ آسکتانہیں!

10 Sep 2025
1 min read

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہےلب پہ آسکتانہیں!

       ایک پر سکون فضا اس وقت لہو لہان ہے۔ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ گلیوں میں چیخوں کا ہجوم ہے۔ سڑکوں پر بارود کی بو ہے۔ گھروں کے اندر خوف کا ایسا سایہ پھیل چکا ہے جو ہر دل کو لرزا دیتا ہے۔ نوجوان نسل، جس کے ہاتھوں میں کبھی قلم اور موبائل تھے، اب زخمی جسموں اور ٹوٹی سانسوں کے بوجھ تلے دب رہی ہے اور سوشل میڈیا کی آزادی چھیننے کے خلاف اٹھنے والی یہ آواز محض احتجاج نہ رہی بلکہ ایک ایسی طوفانی چیخ میں ڈھل گئی جس نے پورے ملک کے سکون کو تہہ و بالا کر دیا۔

       پولیس کی بندوقوں سے نکلتی گولیاں اب آنکھوں کے خوابوں کو چھلنی کر رہی ہیں۔ ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کے پردوں میں چھپے ہوئے براہِ راست فائر کے زخم اب دو درجن کے قریب جوان لاشوں کی صورت میں زمین پر بکھرے ہیں، اور سینکڑوں زخمی اپنے ہی خون میں لت پت تڑپ رہے ہیں۔ ماؤں کی آہ و بکا آسمان کو دہلا رہی ہے، بچے یتیمی کے اندیشے میں لرز رہے ہیں اور بزرگ اپنی آنکھوں سے اس دھرتی کے بکھرتے سکون کو دیکھ کر رو رہے ہیں۔

       اقتدار کی کرسی بھی لرز گئی۔ دباؤ کی شدت نے وزیر اعظم کو اپنے ہی دستخط شدہ استعفے پر مجبور کر دیا، مگر یہ کاغذی فیصلہ ان گلیوں کے جلتے شعلوں کو نہ بجھا سکا جو پارلیمنٹ، عدالتوں اور سرکاری عمارتوں کوراکھ میں بدل چکےتھے۔ ہرطرف آگ کےشعلے ہیں،دھوئیں کے بادل ہیں اورایک ایساگھٹن زدہ منظر جس میں سانس لینابھی اذیت بن گیا ہے۔

       عوام کی گونج نے سوشل میڈیا کی بندش کو توڑ دیا، مگر اس واپسی کی خوشبو بھی خون کے چھینٹوں میں دبی رہ گئی۔ فوج کی بوٹوں کی چاپ نے سڑکوں کو مزید اجاڑ دیا۔ کرفیو کے سائے میں ہر کھڑکی، ہر دروازہ خوف سے لرز رہا ہے۔ ٹریبھون ایئرپورٹ کی بندش اور فضائی پروازوں کی منسوخی نے نیپال کو جیسے دنیا سے کاٹ دیا ہے۔ یہ گلزار اب گویااپنی ہی آگ میں گھرااوراپنے ہی دھوئیں میں سانس لےرہاہے۔

       سرحدوں پر بھارت کی کڑی نگرانی ہے، جیسے کوئی آنے والے طوفان کو روکنے کے لیے پہرے پر کھڑا ہو۔ مگر اندر کا طوفان کب کسی بیرونی دیوار سے رکتا ہے، چیخیں سرحدوں کو چیر کر گونجتی ہیں، آنسو بارڈر نہیں پہچانتے، اور دلوں کا درد کاغذی لکیروں کو روندتا ہوا نکل جاتا ہے۔

       دنیا دیکھ رہی ہے۔ انسانی حقوق کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، مگر اس دھرتی کی مٹی پر بہتا ہوا تازہ خون یہ سوال کرتا ہے کہ کون سا انصاف ان معصوموں کی لہورنگ دھرتی کو سکون دےپائےگا؟کون سی تحقیقات ماؤں کےآنسوخشک کرسکیں گی؟

        یہ وقت ہے جب کہ اس سرزمین پر امن کے دیے بجھ چکے ہیں اور ہر طرف جلتے ہوئے خوابوں، لرزتے ہوئے جسموں اور خوف ناک سناٹوں کی ایک ایسی کہانی لکھی جا رہی ہے جسے دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے۔ یہ کہانی صرف سیاست یا احتجاج کی نہیں۔ یہ کہانی ہے اس دھرتی پر ایک قوم کے، ٹوٹتے حوصلوں، بکھرتے خوابوں اور بہتے لہو کی ۔ وہ دھرتی ہے نیپال کی راج دھانی *"کاٹھ مانڈو"۔ !!!*

  *محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!*

 

                              *ازہرالقادری*

                              10/09/2025

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383