ہندوستان کے بدلتے حالات پس منظر و پیش منظر
ادیب شہیر علامہ نور محمد خالد مصباحی ازہری : مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال
آج سے78سال قبل 1947میں ہندوستان انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوا مگر اس کی آزادی سے لیکر اب تک کچھ ایسے ملک دشمن عناصر تنطیمین اور تحریکیں سرگرم عمل ہیں جو اس ملک کی جمہوریت ۔وحدت و سلامتي کے لئے خطرہ ہیں ۔بابا بھیم راو امبیدکر جن کی ولادت 14 اپریل۔1891 كو رتنا گیری۔مہاراشٹر کے ایک مهار دلت قبيلے میں ہوئی تھی ۔1950 مين انهون نے دستور ہند مرتب کرکے ایک دستور عطا کیا جو اج تک رو بعمل ہے۔اس دستور ہند کی رو سے ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوریت کی تعریف:حكومت كي ايك ايسي حالت جس مين عوام كا منتخب شده نماینده حكومت چلانے کا ایل ہوتا ہے ۔اس کا مترادف انگریزی میں Democracy اور عربی میں ديمقراطية ہے۔ Democracy یونانی زبان Demo بمعنی عوام Cracy بمعنی حاكميت یعنی عوام كي حاكميت .سے ماخوذ ہے۔جمہوریت کے بنیادی اصول ۔مندرجہ ذیل ہین۔ مذہبی ازادی۔معاشی ازادی ۔سیاسی آزادی ۔۔مگر 2014 میں جب سے بے۔جے۔پی۔ اقتدار میں آئی ہے ہندوستان کے حالات يكسر بدل گئے ہیں ہندوستان میں اقلیتون اور دلتون کا جینا حرام ہو گیا ۔انکے جان ومال دین و ایمان کا تحفظ خطرے میں پڑگیا ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ ہندوستان وہ ہندوستان نہ رہا جسے ہندو مسلم اتحاد کے نام پر انگریزوں کے پنجہ استبداد سے آزاد کر وا گیا تھا ۔جس کی آزادی کی جدوجہد میں لاکھوں علماء وعوام مسلمین تختہ دار ہر لٹکا دیے گئے یا شهيد كر ديئے گئے ۔جس کی آزادی کے لئے علامہ فضل حق خيرا بادي نے جزیرہ انڈمان میں جیل۔کی صعوبتین جھیلیں RSS نامی تنظیم جس کی بنیاد 1925 كو ناگپور میں رکھی گئی ۔جس کا اس ملک کی آزادی میں کوئی کردار نہیں جو انگریزوں کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے ملک کی آزادی میں رخنہ ڈالے ہوئے تھی ۔اس دعوی کی دلیل۔بھٹہ کی۔تصنیف کردہ کتاب Hindu Nationalism 2001 صفحہ 99مين ہے۔During the colonial period RSS collaborated with British Raj and played no role in Indian independence movement. استعماری دور حكومت مين راشٹریہ سیوک سنگھ برٹش گورنمنٹ سے اندر ہی اندر ملی ہوئی تھی اور ہندوستان کے آزادی کی جدوجہد میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا ۔مگر واہ رے ہندوستان تیری بد نصیبی پر رونا آتا ہے کہ آج اسی تنظیم کی سیاسی بازو بھارتیہ جنتا پارٹی مستقل 11 سالون سے حكومت كر رهي ہے۔مسلم ۔سکھ۔عیسائی ۔جین۔بدھست اقلیتوں کو انکے حقوق سے محروم کرکے بھارت کو ایک انتہا پرست ہندو ریاست قائم کرنا چاہتی ہے اس کے لیے مودی۔نے آرٹیکل 370 كو خثم كر ديا وقف املاك کے۔قانون کو تبدیل کرکے۔وقف املاک پر قبضہ کروا دیا ۔چنانچہ دیلی۔میں مکیش امبانی کا بنگلہ ایک مسلم۔یتیم خانہ کے وقف جائیداد پر تعمیر کی گئی ہے۔یوں ہی مسلم پرنسل لا میں تبدیلی کرکے نیا قانون پاس کیا گیا اور طلاق ثلاثه کو ایک طلاق تسلیم کرنے کی ناپاک کوشش کی گئی ۔جو سراسر مسلمانوں کی مذہبی ۔آزادی کو چھیننے کے مترادف ہے ۔مسلمانوں کی معاشی واقتصادی ازادی پر قدغن :مودی سرکار کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کو اکثریتی ہندو تنظیموں کے ہاتھوں دھمکی، ہراساں کیے جانے اور تشدد کے بڑھتے واقعات کا سامنا کرنے میں روزانہ کا معمول بن گیا۔ہے۔
حال ہی میں صحت اور حفاظت کے قواعد کو یقینی بنانے کی آڑ میں مسلم مخالف پالیسی اتر پردیش اور ہماچل پردیش میں متعارف کرائی گئی ہے۔
اس مسلم مخالف امتیازی پالیسی میں ریستوران مالکان پر یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام ملازمین کے نام تحريري طور پر ظاہر کریں۔
یہ پالیسی پہلےہندتوا کے پرچارک اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے متعارف کروائی تھی جو کہ بعد میں ہماچل پردیش میں بھی لاگو کیا گیا ۔
مقامی کاروباریون اور تنظیمی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ نئے قوانین کے مسلمان کارکنوں اور اداروں پر تعصب اور نفرت کے تحت حملہ ہے مسلم کاروباری مالکان کو یہ تشویش ہے اس سخت گیرپالیسی کے تحت ہندو تنظیموں جیسے بجرنگ دل۔شیو سینا وعیرہ کے دریعہ منصوبہ بند حملہ یا اقتصادی بائیکاٹ کا دروازہ کھولا گیا ہے ، جس سے ان کے کاروبار کو شدید خطرات لاحق ہونے کا اندیشہ ہے ۔۔
ہندوستان میں پچھلے پانچ سالوں میں مسلمان دوکانداروں کے خلاف تشدد كے واقعات میں جو اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ مہینے بجرنگ دل کے ایک ریاستی رہنما کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہےجس میں بجرنگ دل کے رہنما، نے حاضرین سے یہ عہد کرنے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسی مسلمان دوکاندار سے سامان نہیں خریدیں گے۔اس طرح کا نیا لاگو کردہ قانون بی جے پی کی جانب سے مسلم مخالف ایجنڈے کا حصہ ہے، جو معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اتر پردیش کے کاروباری اور دوکاندار مالکان نے بتایا کہ نئے قوانین کے نتیجے میں انہوں نے مسلم عملے کو اپنے کاروبار سے برطرف کر دیا ہے، کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ وہ ہندوتوا کے حامیوں کا آسانی سے نشانہ نہ بن جائیں۔
دیگر مسلم زیرِ کنٹرول کاروباریون نے انکشاف کیا کہ انہیں اس ظالمانہ پالیسی کے باعث شدید ہراساں کیا جا رہا ہے، اور بعض تو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
اتر پردیش کے شہر مظفر نگر میں ایک ریسٹورنٹ کےمسلمان مالک، رفیق نے کہا؛ "مجھے اپنے مسلمان عملے کو برطرف کرنا پڑا
کیونکہ اس حکم کے بعد میں ان کی حفاظت کے لیے بے حد فکر مند تھا"اس طرح بے جے پی حكومت مسلم مخالف ايسي ايسي پالیسیاں لاتی رہتی ہے جس سے مسلمانوں کا کار وبار برباد ہو جائے ۔مثلا مراداباد کے پیتل۔کا کاروبار ۔بنارس کی ریشمی ساریوں کا کاروبار ۔بھدوہی کی قالین سازی کی فیکتریان ۔کانپور کے چمڑے کی فیکٹریان ۔بڑے کے گوشت کی کمپنیاں ۔بھیوندی کی لومین علی گڑھ کی تالہ ساز فیکٹریان ۔جس کے اکتر مالکان مسلمان ہوا کرتے ہیں بی جے پی دور حكومت مين ۔سب کو ٹارگٹ کیا گیا ہے ۔مسلمانوں کو اظہار رائے کی آزادی پر قدغن : اظہار رائے کی ازادی ہر جمہوری ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق ہے ۔چاہے۔وہ جس نسل ۔قبیلے گروہ یا ۔مذہب سے تعلق رکھتا ہو ۔مگر موجودہ بی۔جے۔پی۔دور حكومت مين مختلف طرح كابہانہ بنا کر مسلمانوں کو اظہار رائے کی آزادی کے حقوق سے محروم كيا جا رہا ہے ۔چنانچہ کانپور میں I love Mohammad کہنے پر کچھ مسلم نوجوانوں کے خلاف پولیس نے F.I.Rدرج کرکے ا نہیں جیل کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔جب بریلی کے باغیور سني مسلمانوں نے کانپور کے ان مظلوم عاشقان رسول۔کی حمايت میں پر امن جلوس نکال کر ان پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف بواسطہ ڈی ایم۔ہوگی ادیتھ ناتھ کو۔ میمورندم پیش کرنے کی کوشش کی تو ان پر لاتھی چارج کرکے ا نھیں خوب مارا پیٹا گیا ۔۔اور اس کے قائد شیر اہلسنت حضرت علامه توقير رضا صاحب بریلوی اور انکے حاميان کو پا بند سلاسل کر دیا گیا ۔ وزیر اعلی اتر پردیش مسٹر ہوگی نے بڑے تحكمانہ ومتكبرانه انداز میں کہا' غزوه ہند کا تصور کرنے والوں کو ہم جہنم کا ٹکٹ دے دیتے ہیں " یہ بیان ایک جمہوری ملک کے وزیر اعلی کے شان کے مناسب نہیں ہے جب کہ بریلی۔کے اس پر امن جلوس کا غزوہ ہند سے کوئی تعلق نہیں ۔بلکہ حكومت کے دستور ہند مخالف قوانین کے نفاذ پر رد عمل کا ایک طرح اظہار ہے۔مسلمانوں کو سیاسی آزادی کے حقوق سے محرومی: جولائی 2023کے اعداد و شمار کے مطابق پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ممبران کی مجموعی تعداد 776 ہے ۔راجیہ سبھا کے 233 ممبران مين مسلمان كي تعدار 13 ہے اور لوک سبھا کے 543ممبران مين مسلمانوں کی تعداد 26 ہے راجیہ سبھا کے 233ممبران مين انكا تناسب 5.58فیصد اور لوک سبھا کے543 ممبران مين انكا تناسب 4.49 فیصد ہے۔ جو آبادی کے تناسب سے ناگفتہ بہ ہے ۔آزادی سے لیکر اب تک تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے اوت کو Use and throwکے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے استعمال کیا ۔اور انہیں ذلت کے قعر عمیق میں ڈال دیا ہے ۔اس لئے میں ہندوستان کے سیاسی .سماجي .كاروباري .شخصیات و مذہبی قائدین سے گذارش کروں گا کہ آپ حضرات اوت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے آوٹ کا مناسب جگہ استعمال کریں اور ہندوستان مسلمانوں کو انکا حقيقي مقام دلوانے میں ایک اہم کردار ادا کریں ۔خاص طور پر خانقاہی نظام سے مربوط پیران عظام وسجاده نشين حضرات بھی اپنے اپنے مریدین ومتوسلین میں سیاسی شعور بیدار کریں ۔اور اب عرس وجلسہ وجلوس میں یہ لکھنا چھوڑ دیں کہ جلسہ ھذا کو سیاست حاضره سے کوئی تعلق نہیں ہے الناس علی دین ملوکھم کے مطابق موجودہ ہندوستان كي سیاست میں حصه لیکر اس میں اصلاح کرنے کی کوشش کرین ۔اگر۔مسلمان سیاسی طور پر بھارت میں کمزور ہوگا تو لازما مذہبی ۔معاشی ۔سماجی طور پر بھی کمزور ہو گا ۔ مضمون کے آخر میں میں سرکار غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة الله عليه کی سیاسی خدمات پر بھی روشنی ڈالوں گا تاکہ موجودہ دور کے علماء و مشائخ جو۔اس موضوع کو اہل خانقاہ و اہل مدارس اپنے لئے شجر ممنوعه تصور کرتے ہین۔ انہین آپ کی سمجھ اجائے اپ کی ولادت 1078عيسوي گیلان وصال 1166 عیسوی بعُداد۔ ۔گیلان بغداد سے 627 كلوميتر دور بجانب شمال مغرب بحيره كيپسن کے قریب واقع ہے آپ سلجوقی دور حكومت مين موجوده ايران كے صوبہ گیلان کے قصبہ نیف میں ایک حسني حسيني سادات گھرانے میں پیدا ہوئے ۔اپ کی ولادت کے وقت بغداد میں المقتدی بامرالله 1075 تا 1094كي برائے نام حكومت تھی اپ مستنصر .للہ 1094 تا 1118کے دور خلافت میں گیلان سے بغداد حصول علم کے لئے تشريف لا ئے اپ۔نے 9 سال تك اس وقت کے مروجہ علوم دينيه مين حاصل كي 25 سال تک بعداد گرد ونواح کے جنگلات میں ریاصت شاقه كرکے اپنے نفس کا تزکیہ۔کرکے بحكم خدا 50سال۔کی عمر میں مخلوق خدا کی روحاني .علمي اخلاقي تربيت كي. ۔ جب ہم غوث اعظم کے دور کے مسلم حكمرانون کی صورتحال پر نظر دوڑاتے ہیں تب مجھے لقب محي الدين كا حقيقي معني سمجھ میں آتا ہے کہ اپنے کس ظر ح رسول الله صلى الله عليه وسلم ك ے مردہ ہو چکے دین کو حيات نو بخشي اپ۔کے دور میں خلافت عباسيه برائے نام کی تھی ۔خلفاء فاطميه جو شیعان علی تھے شمالي افريقيا کے تمام ممالک بشمول مصر ۔فلسطین ۔لبنان جارڈن حتي کی
مکہ و مدینہ پر حكومت كر رہے تھے ۔سلاجقہ گر چہ عالم اسلام کے 3900000لاکھ مربع کلومیٹر پر حكومت كر رہے تھے ۔ مغرب مين تركي اور مشرق مين چین کے بارڈر تک انکی حكومت پھیلی ہوئی تھی ۔افعانستان ۔پاکستان میں عوریہ۔عزنویہ۔کی حكومت تهي ۔ غوث اعظم سركار كي عمر مبارك جب 18 برس كي تھی جب اپ حصول علم کے لئے گیلان سے بغداد تشريف لائے تھے 1096 عيسوي مين پہلی صلیبی جنگ لڑی گئی جس میں صليبيون نے فاطمیون یعنی شیعان علی سے فلسطین چھین کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اور اسکے چارحصے کر دئے تاکہ کوئی دوبارہ اس پر قبضہ نہ کر سکے۔غوث اعظم سركار اس وقت اپنی نگاہ ولایت سے مسلم حكمرانون کی بے بسی کا سارا منظر ملاحظه فرمارہے تھے ۔ساتھ ساتھ اپنی خداداد علمی وروحاني صلاحتيون سے بغداد مين بيتھ کر لاکھوں بندگان خدا کو عشق و معرفت کا جام پلا رہے۔تھے۔انہیں بندگان خدا میں سلطان نورالدین زنگی۔و سلطان صلاح الدين ايوبي رحمة الله عليهما بھی تھے . اول الذكر نے دوسری صلیبی جنگ سے قبل 1144 مين فلسطین کی عیسائی ریاست ادیسہ جو موجودہ ترکی میں واقع ہے کو عیسائیوں سے آزادی کروائی مگر عیسائیوں نے دوبارہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا لیکن _نور الدین زنگی کے سپہ سالار صلاح الدين الأيوبي نے 1198 عیسوی میں مصر وحجاز مقدس کو فاطمی شیعوں سے اور بيت المقدس كو صليبيون سے دوبارہ آزادی دلواکر سنيون کے تصرف میں کر وا دیا ۔یہ دونوں جرنیل سرکار غوث اعظم کے دینی ۔مذہبی ۔سماجی سماجی تعليمات سے متاثر تھے اخر میں یہ کہنا پڑتا ہے ۔نگاہ ولی میں یہ تاثير ديكھی ۔بدلتے ہزاروں کی تقدیر دیکھی چنانچہ حيات غوث اعظم ميرا موضوع تو نهين ہے اس لئے اسے تفصیل سے ذكر نهين كر رها هون ورنه آپ کی حيات وخدمات كو احاطه تحرير مين لانے کے لئے ایک دفتر بھی ناکافی ہے ۔اللہ تعالی ہم غلامان غوث اعظم کو اپ کے نقش قدم پر چلتے کی توفیق عطا فرمائے ۔