نوبل امن ایوارڈ کی حیثیت اور اس کی تاریخ
ادیب شہیر علامہ نور محمد خالد مصباحی
مرکزی خازن علما فاؤنڈیشن نیپال
نوبل انعام کا بانی: الفریڈ نوبیل ہے، جس کی ولادت 21/ اکتوبر 1833ء کو سویڈن (Sweden) کے مشہور شہر اسٹاک ہوم میں ہوئی، اور وفات 10 دسمبر 1896ء کو اٹلی کے شہر سان ریمو میں ہوئی۔
نوبل انعام کی ابتداء پہلی بار 1901 میں Physics (طبعیات)، Chemistry (کیمیا)، Medicine (طب)، Literature (ادب)، Peace (امن) کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی حاصل کرنے والوں کو ہر سال 10 دسمبر سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں الفریڈ نوبيل کے سالانہ برسی کے موقع پر پیش کی جاتی ہے۔
ہر سال نوبل انعام یافتگان کی لسٹ 1 /اکتوبر سے 10 اکتوبر تک تیار کر لی جاتی ہے۔ مختلف شعبوں میں نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی بڑی اہمیت ہے بالخصوص نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی۔لیکن وقتا فوقتا متنازع شخصیت اپنے طاقت کے بل پر نوبل امن انعام حاصل كرنے کی کوشش کرتی ہے، چنانچہ اسرائیل کو اسلحہ دے کر 2 لاکھ فلسطینیوں کو قتل کروانے والے ڈونالڈ ٹرمپ بھی، امن نوبل پرائز کے حصول میں ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔
جب قاتل، ظالم، راہزن، غاصب، خائن ہی امنِ عالم کا فرضی مسیحا بن جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔
اس کی ابتداء کیسے ہوئی؟ الفریڈ نوبل اپنے دور کے مایہ ناز موجد، انجینئر اور ماہرِ کیمیا تھے۔ انہوں نے 355 ایجادات کے ذریعہ بے پناہ دولت حاصل کی۔ ان کی دولت کا تخمینہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1880 میں وہ 165 ملین امریکی ڈالر کے مالک تھے۔ وہ میزائل میں استعمال ہونے والے دھماکہ خیز مواد بنانے والی فیکٹری کے مالک تھے۔ فیکٹری میں آگ لگنے سے ان کے بھائی لُدوک کا انتقال ہو گیا، مگر کئی اخبارات نے لُدوک کی وفات کی خبر شائع نہ کرکے الفریڈ نوبیل کی موت کی خبر شائع کی اور یہ ہیڈنگ لگایا: ’’موت کے سوداگر کی موت‘‘ الفریڈ نوبیل کو اس کا بڑا صدمہ ہوا کہ اس کی موت کے بعد لوگ اسے موت کے سوداگر کے طور پر یاد کریں گے۔ کیونکہ اس فیکٹری کا بارود ایٹم بم وغیرہ بنانے میں کام آتا تھا اور اس بم سے لاکھوں انسانوں کےجان جانے کا خطرہ تھا اس لئے لوگوں نے اسے موت کے سوداگر کے طور پر یاد کیا، چنانچہ اس نے اپنی اسی ذلت کو دور کرنے کے لئے اپنی دولت کا 94 فیصد حصہ نوبل فاؤنڈیشن کے نام وقف کردیا اور اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کردی کہ فزکس، کیمسٹری، فزیالوجی، ادب، طب اور امنِ عالم میں قابلِ قدر خدمات انجام دینے والے افراد کو میری اس رقم سے نوبل انعام سے نوازا جائے۔اور ان كی خدمات كو سراه كر ان كی حوصلہ افرائی کی جائے۔
اپنے موضوع کی تفصیل میں جانے سے قبل قرآنی و اسلامی نقطۂ نظر سے ان علوم کی کیا اہمیت ہے اس پر روشنی ڈال دیتا ہوں تاکہ مضمون کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
فزکس: ہدایۃ الحکمۃ نامی درس نطامیہ کی مشہور کتاب جنہوں نے پڑھی ہوگی انہیں معلومہوگا کہ فزکس کو عربی مین طبعیات کہا جاتا ہے، فزکس کی مثال ہیولیٰ و جزء لایتجزّی وغيره کی بحث ہے۔
سر دست جزء لا يتجزي سے بحث كر ليتے ہیں۔
قدیم یونانی فلاسفر کا عقیدہ تھا کہ ذرات تقسيم قبول نہیں كرتے، مگر قرآن عظیم نے ’’ومزقناھم كل ممزق‘‘ نازل فرماكر اس باطل نظريہ كی ترديد كر دی، بعد کے مسلمان سائنسدانوں نے جزء لايتجزي كا نظريہ قائم کیا اور سارے دنیا کے سائنسدانوں نے اس نظریہ کو قبول کیا، اور اسی نظریہ سے ایٹم بم وجود میں آیا ۔مگر بعد کے مسلمانوں نے قرآن کو تلاوت تک کرکے اس پر ریسرچ کرنا چھوڑ دیا، جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں، اور دوسری قومیں ان پر عمل کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئیں۔
فزکس کا تعلق حواسِ خمسہ ظاہرہ سے ہے، الحمد زمانہ طالب علمی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں ھدایةالحكمة حضور محدث كبير دامت بركاتهم القدسية سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ہے، اس لئے اس کی اكثر بحثيں ابهی تک مستحضر ہيں۔ فزکس کی ایک قسم Metaphysics جسے فلسفہ میں ما بعد الطبعیات کہا جاتا ہے، جسے ھدایة الحكمة ميں الهيات كہا جاتا ہے۔
فزکس کی تعریف جو مادہ، ذرات، زمان و مکان ان کی حرکات و سکنات رویوں، نیز توانائی اور قوت سے متعلق چیزوں سے بحث کرے۔ ان علوم کا ذكر قران كريم کے متعدد آيتوں میں موجود ہے۔
قرآن اور نباتیات: قدیم زمانے میں لوگوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جوڑے ہوتے ہیں، مگر قرآن نے 1447 برس پہلے بتا دیا: ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۢبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ﴾ (الذاریات: 49)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے، خواہ وہ زمین کے نباتات میں سے ہوں یا خود اپنی جنس (یعنی نوعِ انسانی) یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے بھی نہیں۔اس علم کو انگریزی میں Botany کہا جاتا ہے۔
قرآن اور فلکیات (Astronomy): ﴿اَوَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ كَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا﴾ (الانبیاء: 30)
ترجمہ: کیا کافروں نے نہ دیکھا کہ آسمان اور زمین سب اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے تو ہم نے انہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
سورج، چاند، سیاروں کی گردش کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے رسالہ ’’فوز مبین در رد حرکت زمین‘‘ میں ایسے دلائل پیش کیے جن سے قدیم و جدید سائنسی نظریے کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں ۔
اسی لیے تو زمانہ آپ کو اعلیٰ حضرت کہنے پر مجبور ہے۔
ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیے ہیں
قرآن اور فعلیات (Physiology): قرآن میں خون کی گردش اور دودھ کی تحقیق
کا ذکر ۔ سورۃ المؤمنون آیت 21 میں ’’وان لکم في الانعام لعبرة نسقيكم مما في بطونها ولكم فيها منافع كثيره. ومنها تاكلون‘‘۔ ترجمہ: اور حقيقت یہ ہے کہ تمہارے لئے میوشيوں ميں بهی ايک سبق موجود ہے ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں ایک دودھ بھی ہم تمہیں پلاتے ہیں اور اس میں تمہارے لئے بہت فائدہ بھی ہے اس میں سے بعض کو تم کھاتے ہو۔ یہ ہے قرآن کی فعلیات۔
علم الکیمیاء (Chemistry): کیمیاء کا بھی ذکر قرآن میں موجود ہے۔ امام رازیؒ، جابر بن حیانؒ یہ سب کیمسٹری کے امام مانے جاتے ہیں اور انہوں نے کیمسٹری قرآن پاک سے سیکھی۔ قرآن اور علم طب (Medicine): اللہ پاک نے شہد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ایک سورۃ کا نام ہی سورة النحل رکھ ديا. آقا کریم ﷺ نے حَبّة السوداء (کلونجی) کو موت کے علاوہ ہر بيماري سے شفاء بتادیا۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب الطب کے نام سے ایک مستقل باب ہی باندھ ديا ۔
چنانچہ قرآن وحديث كو اپنا ماخذ بناکر بڑے بڑے مسلم سائنسدان اسلام کی تاریخ میں پیدا ہوئے ۔جن کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں ۔ بوعلی سینا (980–1037) ہارون الرشید کے دور میں طب کے ممتاز طبیب سمجھے جاتے تھے۔ ابنِ سینا کو پوری دنیا میں طب کا امام مانا جاتا ہے، اور انگریز انہی کے نام پر دوا کو میڈیسن کہتے تھے جو آج تک رائج ہے۔
میڈیسن میں سین ’’سینا‘‘ کی طرف منسوب ہے اور آپ کو یونانی طب کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
آپ کتاب الطب کے مصنف ہیں ۔
قرآن اور علم ادب (Literature): قرآن مجید خود عربی ادب میں ایک معجزہ ہے: ﴿فَأْتُوا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ﴾۔ فصاحت و بلاغت، استعارات و کنایات، تشبیہات و تمثیلات کا قرآن پاک عطر مجموعہ ہے۔
قرآن اور امنِ عالم (World Peace):
اس کے لیے ہمارا مضمون "رحمتِ عالم امنِ عالم کے علمبردار" نیپال اردو ٹائمز میں ملاحظہ کریں۔
قرآن پاک میں ان علوم کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بحیثیت مسلمان بعض اوقات ان علوم کا سیکھنا واجب ہی نہیں بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ جیسے نماز صحیح ہونے کے لیے مصلیٰ کا باوضو ہونا فر ض ہے ۔ ایسے ہی جہاد فرض ہونے کی صورت میں ہر مسلمان پر آلاتِ حرب چلانے میں مہارت تامہ حاصل کرنا بھی فرض ہے۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْۚ- لَا تَعْلَمُوْنَهُمْۚ- اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْؕ- وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ﴾ (الانفال: 60)
ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے جتنی قوت ہوسکے تیار رکھو اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تاکہ اس تیاری کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں انہیں ڈراؤ، تم انہیں نہیں جانتے اور اللہ انہیں جانتا ہے اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر کوئی زیادتی نہ کی جائے گی۔
تفسیر صراط الجنان: {وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ:} اس آیت میں قوت سے مراد یہ ہے کہ اسلحے اور آلات کی وہ تمام اقسام کہ جن کے ذریعے دشمن سے جنگ کے دوران قوت حاصل ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد قلعے اور پناہ گاہیں ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد رَمی یعنی تیر اندازی ہے۔ جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ سیدِ عالم ﷺ نے اس آیت کی تفسیر میں قوت کے معنی رمی یعنی تیر اندازی بتائے۔ فی زمانہ میزائل وغیرہ بھی اسی میں داخل ہوں گے۔
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں:
1- جہاد کی تیاری بھی عبادت ہے اور جہاد کی طرح حسبِ موقع یہ تیاری بھی فرض ہے جیسے نماز کے لیے وضو ضروری ہے۔
2- عبادت کے اسباب جمع کرنا عبادت ہے اور گناہ کے اسباب جمع کرنا گناہ ہے۔
3- کفار کو ڈرانا، دھمکانا، اپنی قوت دکھانا، بہادری کی باتیں کرنا جائز ہیں تاکہ ان کے دلوں میں رعب بیٹھ جائے۔
یہ آیت فتح و نصرت اور غلبہ و عظمت کی عظیم تدبیر پر مشتمل ہے۔ سائنس کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، میتھ کی ضرورت نہ ہو۔ سوئی سے لے کر جہاز، میزائل، فائٹر جٹ، ٹینک، نیوکلیئر بم، بندوق جتنے بھی آلاتِ حرب ہیں سب کو بنانے کے لیے ان علوم میں ماہر ہونا شرط ہے ۔مگر آج کے 57مسلم ممالک الا ما شاءالله اکتر آلاتِ حرب اور دوسری اشیاء میں یورپین، امریکن، رُسين اور چینیون کےمحتاج ہیں ۔ علماء کرام، مفتیانِ کرام ، پیرانِ کرام نے ان علوم کے حصول کو شجرِ ممنوعہ سمجھ کر اس کے نام پر کالج واسکول قائم کرنے نیز اس کے لئے چندہ مانگنے کو ناجائز قرار دے دیا، جو کہ ایک بہت بڑا جرم ہے۔ اور ان سب نے یہ کہتے ہوئے اپنا دامن جھاڑ لیا کہ یہ سب میرا کام نہیں، یہ تو امیر مسلمانوں کا کام ہے، پھر تو دارالعلوم بھی امیر مسلمانوں کا کام ہونا چاہئے، ہاں اپنے لیے لنگر غوثِ اعظم، توشہ غوث اعظم ، عرس، نذر و نیازکےانعقاد کو ضروری قرار دے لیا۔
لائقِ مبارکباد ہیں خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ کے سجادہ نشین، حضور سیدی مرشدی و مولائی سرکار امینِ ملت دامت برکاتہم القدسیہ، بانی البرکات انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ، جنہوں نے خانقاہی نظام سے مربوط ہوتے ہوئے اس نوعیت کا ادارہ قائم فرما کر دنیائے سنیت کو ایک ذہن دیا۔ اللہ پاک سرکاران مارہرہ مطہرہ کو سلامت رکھے۔ اور ان کے نقش قدم پر دوسرے خانقاهوں کو چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اب تو ہندوستان نیپال میں کترت سے اسکول ، کالج ، مسلم انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میڈیکل کالج وغیرہ کھولنے کی سخت ضرورت ہے۔
نوبيل انعام حاصل کرنے کے شرائط
قابلِ قدر کارنامہ: انعام یافتہ شخص یا ادارہ کیمیا، فزکس، فیزیولوجی یا طب، ادب، یا امن کے شعبے میں سب سے نمایاں کام کرنے والا ہونا چاہیے.
علمی شراکت: یہ کام انسانوں کو فائدہ پہنچانے والا ہونا چاہیے، جس میں انسانیت کی بہتری شامل ہو.
نوبيل کا تصور:
نوبيل انعام کا مقصد انسانیت کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنے والوں کو پہچان دینا ہے.
منصفانہ انتخاب:
انعام حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے نامزدگی کا عمل ہوتا ہے، اور پھر متعلقہ ادارے ان نامزدگیوں پر غور کر کے سب سے بہترین فرد كا انتخاب کرتے ہیں.
دیگر متعلقہ انعامات:
نوبل انعام کے ساتھ معاشیات کا انعام ، جو کہ 1969ء سے دیا جا رہا ہے.
نوبیل انعام یافتگان کی ذمہ داریاں
نوبیل لیکچر:
انعام حاصل کرنے کے بعد ہر انعام یافتہ کو چھ ماہ کے اندر اپنے شعبے میں کیے گئے کام پر عوامی لیکچر دینا ہوتا ہے.
اعزاز کا قبول کرنا:
انعام لینے والے کو انعام کے ساتھ ملنے والا میڈل اور ڈپلومہ قبول کرنا ہوتا ہے، تاہم یہ بھی اہم ہے کہ انعام لینے کے لئے اپنے ملک کے حکومت کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے
نوبل انعام ایک سالانہ بین الاقوامی انعام ہے جو 1901ء میں پہلی بار طبیعیات، کیمیا، فعلیات یا ادویات، ادب اور امن کے متعلق کارکردگیوں پر نوازا گیا
ہر انعام یافتہ ایک طلائی میڈل، ایک عدد ڈپلوما اور کچھ رقم جو موجودہ دور مین 11 لاکھ ڈالر ہے، وصول کرتا ہے جس کے مقدار کا فیصلہ ہر سال نوبل فانڈویشن طے کرتی ہے
1901تا 2023ء سولہ مسلمانوں کو نوبل انعام دیا گیا سولہ میں سے نو کو امن کا نوبل انعام، چار کو سائنس اور تین کو ادب کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
ان کی تفصیل یہ ہے 1۔ احمد زبول مصری أمريكی. كيميا۔ 2۔ عزيز سنجر ترک نزاد امريكی كيميا۔ 3۔ مونگی باوندی تیونسی امریکی ۔کیمیا۔ 4۔ نجيب محفوظ مصری عربی ادب (جنہوں نے اعلی حضرت کے حدايق بخشس كو منظوم عربى ميں ڈھالا) 5۔ اورخان پاموک ملک۔ترکی ادب۔ 6۔ عبدالرزاق گرناہ ملک تنرانیہ ادب میں۔ 7۔ امن نوبل انعام انورالسادات مصر۔ 8۔ یاسر عرفات فلسطینی صدر ان نوبل۔ 9۔ محمد البرداعي مصر۔ 10۔ محمد يونس بنگلہ دیشی معاشیات۔ 11۔ توكل كرمان يمني خاتون۔ 12۔ملالہ یوسف زئی پاکستاني خاتون۔ 13۔ نرگس محمدی ايرانی خاتون۔ 14۔ داکٹر عبدالسلام ۔طبعیات پاکستان۔ 15 و 16نصيرالدين و محمد.يوسف صاحبان جو 2 عرب مسلم آبادی كے تناسب سے صفر کا مقام رکھتا ہے۔
مسلمانوں کو ان علوم میں مہارت تامہ ضروری ہو گیا ہے
نوبل پرائز حاصل كرنے والوں میں یورپین و امریکن کمیونٹی کی تعداد زیادہ ہے 1901 تا 1924 اب تک نوبل پرائز حاصل كرنے والے افراد یا تنظیم کی تعداد تقریبا 892 ہو چکی ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد دال میں نمک کے برابر ہے جو مسلمانوں کے حالت زار کی عکاسی کرتا ہے۔
مسلمانوں میں جن کو ملا ان میں اکثر ملک و ملت کے غداروں كو ملا۔ رائل سویڈش اکیڈمی طبعیات، کیمیات معاشیات کا انعام کیرولنسکا طب و ادب کا انعام، نارویجین نوبل امن کمیٹی امن کا نوبل انعام دیتی ہے لیکن ان میں اکثر متنازع فیہ امن نوبل، انعام ہی ہوتا ہے جو وقتا فوقتا غیر مستحق كو بھی مل جاتا ہے،
جس کی لاٹھی اس کی بھینس پر عمل کرتے ہوئے۔