علماء اور عوام میں دوری کے اسباب و محركات :
از: ادیب شہیر حضرت علامہ نور محمد خالد مصباحی
مرکزی خازن علما کونسل نیپال
علماء كونسل نيپال ضلع کپلوستو یونٹ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئز کے انعامی مقابلے کو کامیاب بنانے کے لیے کپلوستو کے کئی مدارس ومکاتب کا دورہ کیا، مگر اکثر پرنسپل حضرات كا ايک ہی جواب تھا میرے مدرسہ میں مقابلہ میں شریک ہونے لائق طلباء نہیں ہیں، وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ اکثر بچے سرکاری یا بوردنگ اسکول چلے جاتے ہیں، میں نے رات کی تنہائی میں اس پر غور وفکر کرنا شروع کر دیا کہ جس علم کی فضیلت کا یہ عالم ہو کہ فرشتے جن طالبان علوم نبویہ کے لیے اپنے نورانی پر بچھا رہے ہو، سمندر کی مچھلیاں جن کے لیے دعائے مغفرت کر رہی ہوں، جن کے والدین کو بروز حشر ایسا تاج پہنایا جائے گا کہ جس کی چمک کے سامنے چاند کی چمک ماند پر جاۓ گی، جو مدرسہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے با کی ابتداء کریں تو خدائے غفار اپنے شان كريمی سے انکے گنہگار والدین کے گناہوں کو معاف کرکے انہیں جنت کی بہاریں عطا کردے۔ اور اگر علم دین کی طلب میں وہ انتقال کر جائیں تو انہیں شہادت کا درجہ نصیب ہو جائے، ایسے صفات کے حامل سے ہمارے مدارس محروم كيوں؟
جواب ملا مادیت سے چکا چوند زندگی کا تصور فکر آخرت سے دوری، خشيت الہی كا فقدان ۔مغربی تہذیب کی اسلامی تہذیب و ثقافت پر بالآ دستی ۔رزق کے معاملے میں توکل علی اللہ کا فقدان، مکاتب کے علماء کی تساہلی وغفلت علماء کی عوام سے دوری، بچوں کا سیرت مصطفے اور سیرت صحابه اور بچیوں کا سیرت صحابيات سے دوری، یہ وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر اکثر مكاتب ومدارس کے ذمہ داران نے مقابلہ میں شركت کرنے سے گریز کیا، اب میں اس اجمال کی ذرا مختر تفصیل کر دوں۔مادیت سے چکا چوند زندگی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین کو بھول گیا کہ اللہ نے ہمیں خیر الامم بنا کے اس دنیا میں مبعوث كيا اور ہمیں دنیا کی امامت کا منصب عطا کیا گیا ہے، ہمارے سروں پر شہداء علی الناس کا زرین تاج سجایا گیا ہے۔ آج وہ بمبئ لندن و پیرس کی جگمگاتی ہوئی بلدنگون سے ایسا مرعوب ہو گیا کہ بچہ پیدا ہونے کے تین سال بعد کسی convent اسکول میں داخلہ کروانا شروع کر دیا ۔ فکر اخرت سے دوری ایک دور
تھا کہ مسلمان اپنی آخرت کو بنانے کے لیے اپنی جان مال اولاد سب کچھ قربان کر دیتا تھا اوریہ آیت گنگناتا تھا ۔واما من طغي واثر الحيوة الدنيا فان الجحيم ھی الماوي .اور جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی جہنم اس کا ٹھکانہ ہے۔آج مسلمان آخرت کو بھول کر دنیاوی زندگی میں مست ہے۔۔خشيت الهي كا فقدان واما من خاف مفام ربه ونهي الفس عن الهوي فان الجنة هي الماوي .
جب تک خشيت الهي تهی آخرت كا تصور تھا دل حصول جنت کے لیے ہر لمحہ دھرکتا تھا۔توکل علی اللہ کا فقدان: آج کا مسلمان سوچتا ہے کہ اگر میرا بچہ مدرسہ یا دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرے گا تو دس پندرہ ہزار روپے ماہانہ کمائے گا اور ڈاکٹر انجینئر بنے گا تو لاکھوں ماہانہ کمائ گا، مگر وہ بھول گیا کہ رزق کا معاملہ اللہ کے ذمہ کرم پر ہے۔ان الله يبسط الرزق لمن يشاء دوسری جگہ ارشاد ہے ان الله يرزق من يشاء بغير حساب. اشرفيہ کے دوران طالب علمی مجھے حضور محدث كبير دامت بركاتهم القدسية کے وہ نصیحت مندانہ کلمات یاد ہیں کہ(ایک دور وہ تھا کہ ہم لوگ روٹی دھوپ میں سکھا دیتے اور جب بھوک لگتی پانی میں بھگو کر پھر کھالیتے، مگر اللہ کا فضل ہے کہ آج میری رزق پوری دنیا میں پھیلا دی گئی ہے )
امام ابو یوسف رحمه الله کی والدہ نے جب آپ کو امام ابو حنیفہ رضي الله عنه کی بارگاہ میں ديني ودنياوي تعليم کے حصول کے لئے پیش کیا تو کیا وہ جانتی تھیں کہ ایک دور وہ بھی آئیگا کہ میرا یہ بیٹا وقت کا قاضی القضاة ہوگا، مگر زمانے نے اپنی نگاہوں سے دیکھا کہ زمانہ انکے قدموں پر نچھاور ہو رہا ہے۔
علم ایک ایسی دولت ہے جو صاحب علم کو اوج ثريا کی بلندی عطا کر دیتی ہے ۔کون جانتا تھا جنک پور کا ایک گمنام بچہ ازھر ہند جامعہ اشرفیہ کا استاد ہوکر مورخ نیپال کے لقب سے ملقب ہوگا، کون جانتا تھا کہ پراسی کا ایک بچہ سید غلام حسين صاحب قبلہ كی شكل ميں علماء كونسل جيسی معزز تنظيم كا صدر اعلي هو كر قايد ملت کے لقب سے ملقب ہوگا، کون جانتا تھا کہ روپندیہی کے ایک چھوٹی سی بستی کا ایک بچہ عبد الجبار علیمی کی شکل میں نیپال اردو ٹائمز کا چیف اڈیٹر ہوگا، مگر زمانے نے دیکھا اسی علم دین کی خدمت کی برکت نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔مکاتب و جامعات کے علماء کی تساہلی وغفلت : آج مكاتب کے اکثر مدرسین کا یہ حال ہے کہ وہ دلجمعی سے بچوں کی تعلیم و تربیت نہیں کرتے درسگاہ میں موبائل چلانا، اوقات تعلیم بچوں سے پاوں سر دبوانا یہ عام بات ہو چکی ہے، کتنے مکاتب
میں طلباء وطالبات سے گتکا منگواتے ہوئے سنا گیا ہے۔ہمارے قریبی ملک ہندوستان کے گورمنٹ سے الحاق شدہ جامعات کے حالات تو اور ابتر ہیں نہ تو اساتذه كو بچوں سے وہ عزت مل رہی ہے اور نہ بچوں کو اساتذہ سے وہ شفقت مل رہی ہے جیسا ملنے کا حق ہے۔۔اساتذہ کو تو موٹی موٹی رقمیں بشکل تنخواہیں مل رہی ہیں، مگر بچوں کے رہن سہن، کھان پین دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے، بھات کچا دال پانی بے نمک ترکاریاں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ خوشحال گھرانے کے طلباء و طالبات سے ہم محروم ہو جاتے ہیں یہ وہ چند عوامل۔ل ہیں جنکی وجہ سے مکاتب اسلامیہ میں بچے تعلیم کے لیے نہیں آتے ہیں۔
علماء کی عوام سے دوری کے چند اسباب:
علماء کا آپسی حسد، غيبت، چغلخوری .عياری .مكاری .بد عملی، بد اخلاقی، بد نيتی یہ وہ عوامل ہیں جنکی بنیاد پر عوام علماء سے متنفر ہونا شروع كر ديتی ہے۔حسد.تو اكثر علماء كے خمیر میں جیسے رچی بسی ہو، اسی لئے صادق و مصدوق اقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ لولا الحسد في العلماء لكانوا مثل انبياء بني إسرائيل.
ایک مدرسے میں چند اساتذہ مامور ہوں تو ایک دوسرے کی غیبت وچغلخوری کرکے کمیتی وعوام میں سرخرو بننے کی خواہش کرتے ہیں جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ من طلب العلم ليجاری به العلماء او ليماری به السفهاء لو يصرف به وجوه الناس اليه ادخله الله في النار.
جس نے علم اس لیے سیکھا کہ اس کے ذریعہ علماء كا مقابله كرے یا ان پڑھ لوگوں سے جھگڑا کرے اور لوگوں کو اس علم سے اپنی طرف متوجہ کرے اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کرے گا۔ ترمذی شريفعوام جب ان حرکات رذيلہ کا مشاہدہ کرتی ہے تو علماء سے دور بھاگنا شروع كر ديتي ہےبد عملي سے میری مراد یہ ہے کہ آج اکتر علماء بے نمازی ہو چکے ہیں۔ایک گاوں کے مکتب ومسجد میں خدمت دین کا موقع ملا تو نا مکتب میں صحيح تعليم سے واسطہ نا مسجد میں پنجوقتہ اذان واقامت سے وابسطہ، طلباء وطالبات کا دو دو سال لگ جاتے ہیں یسرنا القران ختم۔ہونے میں، ترک صلاة کا یہ حال کہ نا فجر كی نماز سے مطلب نہ جماعت سے عصر کی اذان ہو رہی ہے اور چنروتا، بہادر گنج، کرشنانگر ۔کودھوان چوراہے پر چائے نوشی کا دور شباب پر ہوتی ہے۔
عوام اس منظر جمیلہ کا نظارہ کرتی ہے ۔مگر وہی امام صاحب آئندہ جمعہ کو منبر رسول پر ان الصلوة تنهي عن الفحشاء والمنكر پر خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔قول و فعل کا یہ تضاد انھیں عوام سے دور کر دیتی ہے۔بد اخلاقی: محلہ میں ایک مسلمان بیمار ہے دوڑتے دوڑ تے ایک بچہ آیا امام صاحب میرے ابو یا امی بیمار ہیں چلئے دعا فر ما دیجئے یا کوئی تعویذ لكھ دیجئے تو جواب دینگے میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں گھر گھر دعا کرنے جاؤں مگر جب انہیں مولانا صاحب کو دیسی مرغے کی دعوت ملے تو گھر گھر جانے میں لا باس فيه یہی وہ دہرا معیار ہے جسکی وجہ سے ہم عوام کی نگاہوں سے دور ہو جاتے ہیں۔مذهب سے بیزاری: مسلمانوں کا ایک اچھا خاصہ مغربی تهزیب کا دلدادہ خود دین سے بیزار ہو نے کی وجہ سے علماء سے بیزار نظر آتا ہے ۔دین سے کچھ مسلمانوں کے بیزار ہو نے کی وجہ کیا ہے۔
اسکے بھی چند عوامل۔ہی
ں- 1 دین ودنیا کی تفریق
۔ 2 دين كا سیاست سے جدا کر دینا
۔ 3 اسلام کا ایسا تصور جو اسکے مزاج کے خلاف ہے
۔4 داعیان اسلام کی کم علمی
۔ 5 فروعی مسائل ميں تقليد جامد كا تصور
۔ 6 مشربی اختلافات۔
دین ودنیا کا ایسا تصور جو اسلام کے روح کے خلاف ہے ۔مثلا خطبات جمعہ یا عیدین میں فقراء کے مدح بیان کرنا اور اہل ثروت كی مذمت كرنا۔دین و سیاست میں تفریق کا مطلب ۔گوشہ نشینوں کی تعریفیں بیان کرنا اور میدان کار زار میں اپنی جان مال اولاد سب کچھ راہ خدا میں قربان کرکے شہادت نصیب کر نے والے کو دنیا دار کہنا ۔بظاہر سائنس و قران و حديث کے نظریات میں ٹکراؤ کی صورت میں اپنے موقف کو صحيح انداز سے پیش نہ کر پانا۔مشتشرقین کی طرف سے کئے گئے اعتراضات کے جوابات کو دینے میں کاہلی و سستی کا مظاہرہ یہ وہ عوامل ہیں جنکی بنیاد پر کچھ لوگ مذہب بیزار ہو گئے۔مگر ایسا نہیں ہے کہ اج ساری عوام سارے علماء سے بیزار ہو چکی ہے حاشا وكلا . آج بھی ایسے اولیاء وعلماء ہمارے درمیان موجود ہیں کہ جن کو دیکھو تو خدا یاد آ جائے۔ایسے فقہاء ہینث جنکی فقاہت پر زمانے کو ناز ہے۔ ایسے محدث كبير ہيں جنکی حديت دانی پر ہم سنیوں کو ناز ہیں، ایسے مفسر قران ہیں جن پر نیپال کو ناز ہے۔، اور ایسے ادیب ہیں جن کی صحافت پر اردو ٹائمز نیپال کو ناز ہے