Oct 23, 2025 07:41 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
حضور انجم العلماء کا انداز تدریس اور طریقۂ تعلیم

حضور انجم العلماء کا انداز تدریس اور طریقۂ تعلیم

حضور انجم العلماء کا انداز تدریس اور طریقۂ تعلیم

تحریر :مولانا  اکبر علی قادری فیضی

انچارج علما فاؤنڈیشن نیپال 

خادم :مدرسہ اسلامیہ قادریہ اہل سنت فیض العلوم روہنی گاؤں پالیکا وارڈ نمبر ا بینی پور روپندیہی نیپال

دنیا میں تدریس کے مختلف طریقے رائج ہیں اور ہر استاذ اپنے اپنے ذوق اور مزاج کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے چوں کہ ایک جماعت میں مختلف قسم کے بچے ہوتے ہیں۔ جماعت میں موجود ہر بچے کی ذہانت کا معیار ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ بچے بات کو بہت جلد سمجھ لیتے ہیں۔ کچھ بچے جلدی نہیں سمجھتے۔ اچھا استاذ وہ ہوتا ہے، جو بچوں کو سمجھانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ حضور انجم العلماء رحمۃ اللہ تعالی علیہ تدریس کا جو انداز اختیار فرماتے تھے وہ بڑا نرالا تھا ان  میں سے چند طریقے آپ کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں: دوران تدریس صرف سبق کا خیال نہیں  بلکہ طالب علم کابھی خیال رکھتے۔ دوران سبق طلبہ کو دیکھتے کہ کہیں وہ کسی اور شغل میں تو مصروف نہیں۔ وقتاً فوقتاً کسی طالب علم سے اپنی بات دہرانے کو کہتے  تاکہ طلبہ سبق کی جانب ہی متوجہ رہیں اور طلبہ  سے پوچھتے کہ بات سمجھ میں آ گئی ہے یا نہیں۔ اگر اس کی سمجھ میں بات نہ آئی ہو تو دوبارہ سمجھانے کی کوشش کرتے۔ اگر طالب علم کوئی اشکال پیش کرتایا کوئی اعتراض کرتا تو اس کے اعتراض کو غور سے سنتے اور جواب دیتے۔

اگر چہ آپ طلبہ سے بے پناہ محبت کرتے تھے ان کی اکثر غلطیوں پر تنبیہ کرکے چھوڑ دیتے تھے لیکن اسباق  کے بلاوجہ ناغہ کو بالکل پسند نہیں کرتے تھے اور خود معمول یہ تھا ناغہ کرنے سے احتراز کیا کرتے تھے تاکہ طلبہ کا نقصان نہ ہو۔

کسی بھی فن میں  مہارت حاصل کرنے کے لیے مسلسل بنیادوں پر اس کا مطالعہ ضروری ہے، آپ  نے چونکہ اپنی ذات کو شروع ہی سے علمی مصروفیات کے لیے وقف کر رکھا تھا، زندگی کا اوڑھنا بچھونا، علم اور مدرسہ کی چہار دیواری تھی، اس کا اثر تھا کہ مولانا کا مطالعہ اتنا وسیع وعمیق ہوتا کہ جن ابواب میں موافق دلائل ملنے کا گمان بھی نہیں ہوتا، ان سے اپنے مسلک کی تا ئید میں روایات نکال لیتے تھے۔

 

 

 

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383