اختلافات کو اپنی ذاتی رائے اور تعصب کی بجائے علمی اصولوں کی روشنی میں دیکھیں
قصبہ منہداول ـ دینی معاملہ میں اعتراضات اور بحث جاری،ثالثی کی بھی بات اٹھی
(قاری) ااخلاق احمد نظامی
مقام و پوسٹ گلرہا،مہنداول،ضلع سنت کبیر نگر
9935410277
اتحاد و اتفاق امت مسلمہ کی بنیادی ضرورت ہے، خاص طور پر علمائے کرام کے درمیان جو علمی و دینی رہنما ہوتے ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیشہ اتحاد کی تاکید کی ہے کیونکہ امت کی طاقت اور استحکام اس کے علماء کی ہم آہنگی میں مضمر ہے۔ اختلافِ رائے کی اصل روح انسانی عقل و فہم کی گہرائی اور علمی تحقیق کی روشنی میں حقائق کی تلاش ہے، نہ کہ ذاتی جذبات اور عناد کی بنیاد پر تصادم۔ تاریخِ اسلام کی روشن مثالیں ہمیں بتاتی ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین کے درمیان بھی اختلافات پائے گئے، لیکن یہ اختلافات کبھی بھی امت کی تقسیم کا سبب نہ بنے بلکہ علمی ترقی اور دین کی وسعت کا ذریعہ بنے۔
قصبہ مہنداول میں کچھ دینی مسائل پر اختلافات عرصہ دراز سے جاری ہیں، جنہیں بعض افراد نے ذاتی حملوں اور نفرت انگیز بیانات کی شکل دے دی ہے۔ سوشل میڈیا کی بے تحاشا آزادی نے بعض مواقع پر ان اختلافات کو مزید ہوا دی ہے، جس سے عوام میں بے یقینی اور فکری انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اختلافِ رائے شریعت کی فطرت میں شامل ہے، بشرطیکہ وہ علمی حدود میں رہ کر کیا جائے۔ قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ کی روشنی میں علماء کی عزت اور مقام کی اعلیٰ ترین اہمیت ہے، اور ان کا اختلاف تحقیق کی طرف رہنمائی کرتا ہے، نہ کہ فساد و فتنے کی جانب لے جاتا ہے۔ اس لیے اختلافات کی مذمت کی جانی چاہیے جو ذاتی دشمنی، بدگمانی اور تعصب کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔
علمائے اہلسنت مہنداول کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی علمی اور فکری حیثیت کو پہچانتے ہوئے آپسی اختلافات کو عزت و احترام کی فضا میں رکھتے ہوئے حل کریں۔ انہیں چاہیے کہ اپنے اختلافات کو عوام الناس کے سامنے ذاتی نوعیت کی بحث کی شکل میں نہ لائیں بلکہ اکابر علماء، مشائخ اور معتبر دینی مراکز کی نگرانی میں ایک علمی مجلس کے ذریعہ اس کا حل نکالیں تاکہ عوام کو اس کا صحیح اور مثبت تاثر حاصل ہو۔ یہ علماء کی عظیم ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو یہ باور کرائیں کہ اختلافِ رائے دین کی جزوی تعلیمات کی گہرائی اور روشنی ہے، نہ کہ فتنہ یا فساد کی وجہ،بڑی خوشی کی بات ہے کہ مذکورہ مسئلہ کے حل کے لیے معروف عالم دین مولانا آس محمد مصباحی صاحب نے سنی رضا مسجد گروپ میں اپنی بات رکھی کہ اس مسئلہ کے سدباب کے لیے ملک کے بڑے مفتیان کرام کی خدمات حاصل کی جائے جس پر گروپ کے علماء نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ہے
واضح رہے کہ اتحاد و اتفاق امت مسلمہ کی کامیابی کی کنجی ہے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اختلافات کو اپنی ذاتی رائے اور تعصب کی بجائے علمی اصولوں کی روشنی میں دیکھیں۔ اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ اختلاف کو ایک علمی موضوع کے طور پر سمجھا جائے اور اس کا حل محبت، عزت اور احترام کے ذریعے نکالا جائے تاکہ امت میں بھائی چارہ اور یکجہتی قائم رہے۔ اس کے لیے عملی اقدام انتہائی اہم ہیں۔
مجلسِ اتحاد کی تشکیل کی جائے، جہاں قصبہ مہنداول و اطراف کے معزز علماء و مشائخ شرکت کرکے اختلافات کی نوعیت، اسباب اور حل پر بحث کریں۔ اس مجلس کی طرف سے ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا جائے تاکہ عوام الناس کو علم ہو کہ اختلافِ رائے کی شرعی حیثیت کیا ہے اور یہ کس حد تک دینی شعور کو بڑھانے میں مددگار ہے۔ علمی نشستیں، لیکچرز اور مباحثے منعقد کیے جائیں تاکہ عوام کو اس حقیقت سے روشناس کیا جائے کہ اختلاف کی اصل روح تحقیق و تدبر کی بنیاد پر ہے نہ کہ جذباتی کشمکش کی بنیاد پر۔ سوشل میڈیا کی بے تحاشا آزادی کا مثبت استعمال بھی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ علماء کرام اور اہل علم کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا کو نفرت انگیز بیانات اور ذاتی حملوں کا ذریعہ بنانے کی بجائے علم کی روشنی پھیلانے کے لیے استعمال کریں۔ مثبت پیغام رسانی، علمی مباحثے، سوال و جواب کے ذریعے عوام میں علم کا فروغ ممکن بنایا جائے تاکہ لوگ اس انتشار سے بچ سکیں کہ اختلاف صرف فساد کا سبب بنتا ہے۔
عوام کو بھی اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دینی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا سبب نہ بنائیں بلکہ اسے علم کی ترقی اور اجتماعی فہم کے لیے ایک نعمت سمجھیں۔ جب ہر فرد اس بات کو سمجھے گا کہ اختلافِ رائے ایک علمی رویہ ہے اور اس کا مقصد حقیقت کی تلاش ہے، تو اجتماعی اتحاد اور بھائی چارے کی فضا خود بخود قائم ہوگی۔ علمائے کرام جب اپنے اختلافات کو احترام کی فضا میں حل کریں گے تو یہ امت مسلمہ کے لیے مشعل راہ بن جائے گا۔ اسلام کے بنیادی عقائد جیسے توحید، رسالت اور آخرت پر تمام علماء متفق ہیں، اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا۔ اختلافِ رائے زیادہ تر فروعی مسائل تک محدود ہوتا ہے، جو دینی تحقیق کی علامت ہیں۔ یہی علمی بحث امت کو وقت کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ رکھنے اور نئے مسائل کا حل پیش کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جب مسلمان علمی اختلافات کے باوجود اتحاد میں تھے، تو دو دنیا کی سپر پاور بنے ہوئے تھے۔ آج بھی یہی علمی روایت امت کو مضبوط اور مستحکم بنا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فہم عطا فرمائے تاکہ اختلافات کو علم کی ترقی اور امت کی بھلائی کا ذریعہ بنایا جا سکے۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی علمی حیثیت کو سمجھتے ہوئے اختلافات کو نہ ذاتیات کا میدان بنائیں، نہ عوام کے سامنے ایسی باتیں رکھیں جو اتحاد و اتفاق کی روح کو مجروح کریں۔ بلکہ انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کی رائے کی قدر کریں، علمی انداز میں تحقیق کریں اور حقیقت کی تلاش کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت و احترام کا مظاہرہ کریں۔ یہ وقت ہے کہ اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھا جائے اور اسے علم کی ترقی، امت کی فلاح اور دین کی خدمت کا ذریعہ بنایا جائے تاکہ امت مسلمہ کی فکری، عملی اور روحانی طاقت میں اضافہ ہو۔
علمی اختلاف اگر ہو جائے تو ہمیں حسن ظن سے کام لینا ہوگا اور کسی بھی عالم کی نیت پر شک کرنے یا الزام لگانے سے گریز کرنا ہوگا جیسے فلاں شخص قادیانیوں کا ایجنٹ ہے فلاں شخص بد مذہبوں کا یار ہے فلاں شخص نیم رافضی ہے فلاں شخص صلح کلی ہے وغیرہ وغیرہ اس طرح کے لغو جملوں کا سہارا لینے کی بجائے اختلاف کو ختم کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے آگے چل کر ہم حل کی بات بھی کریں گے گروپ میں علماء کے درمیان اختلاف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمیں خود تو معلوم نہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط یا اپنی کم علمی کی وجہ سے ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط ٹھرارہے ہوتے اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ہمیں کسی ایک سے عقیدت و محبت ہوتی ہے یا استاذی و شاگردی کا رشتہ ہوتا ہے یا پیری و مریدی کا راشتہ ہوتا ہے اس لیے ہم نے ہر صورت دوسرے فریق کو غلط کہنا ہی کہنا ہے یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ علماء دین امت کے چراغ ، دین اسلام کے محافظ ، علمی و عملی ، فکری و اعتقادی رہنما ہوتے ہیں جب علماء کے درمیان اختلاف ہوگا تو یقیناً امت کی وحدت متاثر ہوگی فتنوں کے دروازے کھلیں گے اسلام دشمن عناصر کو افتراق و انتشار کا بہترین موقع فراہم ہوگا اور عام لوگوں کا علماء سے اعتماد آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلائے گا گا