Oct 23, 2025 04:44 AM Asia/Kathmandu
ہمیں فالو کریں:
انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر

انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر

16 Oct 2025
1 min read

انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر

ابو خالد قاسمی

زمانہ خود بھی بدلتا ہے، قافلے بھی بدلتے ہیں

مگر وہی کامیاب ہے جو منزلوں پہ قائم ہے

یہ خاکی پیکرِ انسان کبھی انجم، کبھی غبار

کبھی تختِ سلیماں، کبھی زنداں کی دیوار

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے

تھے جو رہبر کبھی، اب راہ کے مسافر ہیں

کبھی دنیا پہ غالب، کبھی خود کے اندر حائل ہیں

    تغیرِ دنیا اور قانونِ الٰہی

            دنیا تغیر و تبدل کی آماجگاہ ہے۔ وقت کا پہیہ ہر لمحہ گردش میں ہے، 

سلطنتیں بنتی اور بگڑتی ہیں، قومیں ابھرتی اور مٹتی ہیں،

تہذیبیں طلوع ہوتی ہیں اور غروب ہو جاتی ہیں۔

لیکن اس ساری تبدیلی کے بیچ ایک ابدی حقیقت ہمیشہ قائم رہتی ہے: إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ۔

(الرعد: 11)

اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلیں۔

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی شہرۂ آفاق تصنیف "ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین"

اسی الٰہی اصول کی عظیم تفسیر ہے، ‌کہ دنیا کی تاریخ دراصل اسلام کے عروج و زوال کی کہانی ہے۔ جب مسلمان بامقصد، عادل اور خدا پرست رہے تو دنیا امن و انصاف کا گہوارہ بنی، اور جب وہ خود زوال کا شکار ہوئے تو انسانیت پر ظلمتوں کا پردہ چھا گیا۔

قبلِ اسلام: ظلمتوں کا دوربعثتِ نبوی ﷺ سے قبل انسانیت اخلاقی، فکری اور روحانی موت مر چکی تھی۔دنیا کی بڑی قومیں — روم و فارس — مادی عیش و عشرت، شراب و شباب، اور جاہ و جلال کے نشے میں مدہوش تھیں۔طاقت ہی قانون تھی، عدل و انصاف صرف کمزور کے لیے عذاب۔

جہاں علم تھا وہاں ایمان نہ تھا، جہاں عبادت تھی وہاں انسانیت سے گریز اور دنیا سے فرار۔عرب کی سرزمین پر تو ظلمت کی راتیں اور بھی گہری تھیں:بت پرستی، قبائلی خون ریزی، شراب و

زنا، عورتوں پر ظلم،اور بے انتہا عصبیت و جاہ پرستی۔

عورت کو وراثت نہیں، بلکہ زندگی کا حق تک حاصل نہ تھا۔قتل و غارت معمول، اور جہالت فخر سمجھی جاتی تھی۔دِیپ بجھ چکے تھے ضمیر کے،

ہر سمت اندھیرا چھا گیا تھا۔انسان، انسان کے لیے درندہ بن چکا تھا۔دنیا کے فکری افق پر نورِ ہدایت کا کوئی چراغ باقی نہ رہا تھا۔

بعثتِ نبوی ﷺ اور انسانیت کی تجدید

                  ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں نورِ نبوت ﷺ طلوع ہوا۔ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کو نئی زندگی، نیا شعور، نیا ضمیر عطا کیا۔ جہالت کے صحرا میں علم کے چشمے پھوٹے،

ظلمتوں میں عدل و رحمت کے چراغ روشن ہوئے۔وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الأنبياء: 107)ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔رسولِ اکرم ﷺ نے ان وحشی صحرانشینوں کوانسانیت کا درجہ دیا، اخلاقِ حسنہ سکھائے، اور ظالم سے کہا کہ ظلم سے رک جا، مظلوم سے کہا کہ صبر کے ساتھ حق کا علم بلند رکھ۔

 

انصر أخاک ظالماً أو مظلوماً۔ کا مفہوم بدل گیا —

اب ظالم کی مدد یہ نہ رہی کہ اس کے ظلم میں شریک ہو،بلکہ یہ کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے۔ یوں عدل، مساوات، رحمت اور علم کی بنیاد پر ایک نئی دنیا قائم ہوئی۔اسلام نے بتایا کہ دین صرف عبادت نہیں، بلکہ زندگی کا مکمل نظام ہے، جو روحانی بھی ہے، اخلاقی بھی، سماجی بھی، سیاسی بھی۔

اسلامی عروج عدل و علم کا دور۔

                 اسلامی انقلاب نے دنیا کو وہ سبق دیا،  جو نہ یونان کے فلسفہ میں تھا نہ روم کے قانون میں۔ اس نے بتایا کہ انسان کی عزت اس کے رنگ، نسل یا مال میں نہیں

بلکہ تقویٰ اور کردار میں ہے۔

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات: 13)

خلافتِ راشدہ کے دور میں

عدل و انصاف کا وہ منظر دنیا نے دیکھا، جو انسانی تاریخ میں بے نظیر ہے۔ خلیفہ وقت عام سپاہی کی طرح عدالت میں کھڑا ہوتا، اور بیت المال کو اپنی ذاتی جاگیر نہیں سمجھتا تھا۔ عمرؓ چراغ گل کرتے تھے جب کام ذاتی ہوتا، وہی چراغ جلتا جب امت کی بات آتی۔

مسلمان جہاں گئے، وہاں علم کے چراغ جلائے، ہسپتال، مدارس، کتب خانے اور انصاف گاہیں قائم کیں۔ قرطبہ، بغداد، دمشق، قاہرہ اور سمرقند، دنیا کے علم و تمدن کے مرکز بن گئے۔

یورپ نے علم کی جو روشنی پائی، وہ انہی چراغوں سے لی۔

اسلامی عروج دراصل انسانی عروج تھا — کیونکہ اس نے غلاموں کو آزادی، عورتوں کو عزت، اور انسانوں کو روحانی وقار عطا کیا۔

نہ تاج میں نہ حکومت میں لطفِ زندگی ہے، مزہ تو اُس میں ہے جب دل کسی کے درد کا مرہم بنے۔

مسلمانوں کا زوال روحانی انحطاط

                   مگر جب امت نے روح کے بجائے جسم، ایمان کے بجائے دولت، علم کے بجائے جاہ کو اپنایا، تو زوال شروع ہوگیا۔

خلافتیں رہیں مگر روحِ ایمانی ختم ہوگئی۔ علم باقی رہا مگر اخلاصِ نیت جاتا رہا۔ دین باقی رہا مگر عمل کا جوش ماند پڑ گیا۔

دل مردہ نہیں ہے تو زرا شورِ قیامت سے لگا

کہ ہر ذرّہ کہہ رہا ہے، ہم ہیں مسلمان ابھی! (اقبال)

مولانا ندویؒ نے لکھا:

دنیا کا سب سے بڑا خسارہ مسلمانوں کی سلطنتوں کا ختم ہونا نہیں، بلکہ ایمان و اخلاق کے زوال کا ہے۔ جب مسلمانوں کے دلوں سے خدا کی یاد مٹ گئی، تو دنیا سے عدل، رحم اور انصاف اٹھ گیا۔مغرب نے مسلمانوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا علم، معیشت اور سیاست سب پر قبضہ کر لیا، اور امتِ مسلمہ کو فکری غلامی میں مبتلا کر دیا۔ مسلمان اپنی تہذیب پر شرمندہ، اور مغربی طرزِ زندگی پر فخر کرنے لگے۔

موجودہ دور کا المیہ

                  آج وہی عالمِ عرب جو کبھی وحی کا مرکز تھا،

تہذیبی نقالی کا شکار ہے۔

مسجدیں ویران، بازار پر رونق،تعلیم ہے مگر مقصد نہیں،دولت ہے مگر خدمت نہیں۔اُن کے چراغوں میں روغن نہیں رہا، دلوں میں حرارتِ ایمانی بجھ گئی ہے۔

ہم نے فکری خودمختاری کھو دی، روحانی غیرت گنوا دی، اور ایمان کی حرارت کو دنیاوی سہولتوں میں دفن کر دیا۔ ضرورتِ احیائے امت                اب وقت ہے کہ امتِ مسلمہ پھر اپنی اصل کی طرف لوٹے۔ دنیا کی قیادت دولت یا طاقت سے نہیں، بلکہ کردار، علم اور ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ امت کو چاہیے کہ وہ قرآن و سنت کی روشنی میںاپنی تہذیب، تعلیم، معیشت، سیاست — ہر شعبہ کو ایمان کے سانچے میں ڈھالے۔

اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے!" (اقبال)ہمیں پھر وہی جذبہ پیدا کرنا ہوگا، جو صحابہؓ و تابعین کے دور میں تھا — جہاں زندگی کا مقصد اللہ کی رضا، حکومت خدمتِ خلق، اور علم عبادت تھا۔ اگر امت نے دوبارہ ایمان کو حرارت، علم کو مقصد، اور عمل کو عبادت بنا لیا تو وہی انقلاب جو غارِ حراء سے اٹھا تھا،

پھر سے ظلمتوں کو مٹا سکتا ہے۔

Abdul Jabbar Alimi

عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔

چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز 8795979383