ملک نیپال اِن دنوں کئی طرح کے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں ایسی کئی ریلیاں ہوئی ہیں، جن میں بادشاہت کی حمایت میں لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور یہاں بادشاہت اور ہندو قوم کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چناں چہ اسی ضمن میں 05مارچ 2025 کو راسٹریہ پرجاتنتر پارٹی (RPP) نے کھٹمنڈو میں ایک بائیک ریلی کا انعقاد کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگ نیپال کے قومی پرچم کے ساتھ جمع ہوئے۔آر پی پی کو سابق بادشاہ گیانیندر کی حمایت حاصل ہے۔ اس ریلی میں لوگ نیپالی زبان میں نعرے لگا رہے تھے۔نارائن ہیتی کھالی گر، ہمرو راجہ آؤندئی چھن' یعنی نارائن ہیٹی کو خالی کرو، ہمارا راجا آ رہا ہے۔ اس ریلی میں آر پی پی کے صدر راجندر لنگدین نے کہا کہ وفاقی حکومت کو ختم کر دینا چاہیے کیوں کہ یہ کرپٹ نظام کو مضبوط کر رہی ہے۔(نارائن ہیٹی وہی شاہی محل ہے جو کھٹمنڈو میں واقع ہے، جس میں بادشاہ رہتےتھے۔ لیکن دوسو پچاس سالوں کےبعد 2008 میں جب بادشاہت کا نظام ختم ہوا اور جمہوریت وجود میں آئی تو اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا اور اس کے اندر ایک ریپبلک میموریل بھی بنایا گیا ) اس واقعے سے پہلے نیپال کے سابق بادشاہ گیانیندر کا گلیشور دھام اور باگلونگ کالیکا میں بڑی تعداد میں بادشاہت کے حامیوں نے استقبال کیاتھا ۔ اس میں بہت سے لوگوں نےیہ نعرہ لگایا تھا- راجہ آؤ، ملک بچاؤ۔ اس کے بعد 06مارچ 2025 کو ملک کے سیاحتی شہر پوکھرا میں جب سابق بادشاہ بیرندر کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی تو اس مجسمے کی نقاب کشائی کرنے کے لیے سابق بادشاہ گیانیندر کو مدعو کیا گیا تھا۔نیپالی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر وہاں تقریباً تین ہزار لوگوں کا ہجوم موجود تھا۔ مجسمے کی نقاب کشائی کے دوران وہاں موجود بھیڑ نے پرجوش انداز میں بادشاہی نظام کا قومی ترانہ گایا اور حیرت یہ کہ وہاں موجود بھاری پولیس اور فوج نے بھی انھیں اس سے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ اس کے بعد جب وہاں سے واپسی میں 09مارچ 2025 کو گیانندر شاہ اتوار کو پوکھرا سے کھٹمنڈو کے تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے تو ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ میڈیائی رپورٹ کے مطابق اس وقت ایئر پورٹ کے مرکزی دروازے پر گیانندر شاہ کے کم از کم 10 ہزار حامی موجود تھےجو انتہائی جوش کے ساتھ نیپالی زبان میں نعرے لگا رہا تھے جس کا مفہوم یہ تھا۔ نارائن ہیٹی کو چھوڑ دو، ہمارا بادشاہ آ رہا ہے۔(نارائن ہیٹی نیپال کا شاہی محل ہے جہاں پہلے بادشاہ رہتےتھے۔ معلوم ہو کہ نیپال میں جمہوریت آنے کے بعد گیانیندر بیر بکرم شاہ کو عوام میں بہت کم دیکھا جاتا تھا ،وہ بعض خاص مواقع پر محض رسمی بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے تھے لیکن گزشتہ چند مہینوں سے انھیں کافی متحرک دیکھا جارہا ہے، وہ عوامی محفلوں میں شرکت کررہے ہیں اور ان کے استقبال میں بھاری بھیڑ بھی جمع ہورہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ابھی نیپال میں جمہوریت کے قیام کو صرف سترہ سال ہی ہوئے ہیں ،اوراتنی قلیل مدت میں کسی نظام کی کامیابی اور ناکامی کو پیمانہ بنانا مناسب تو نہیں ہے تو پھر اتنے کم عرصے میں ہی یہاں دوبارہ بادشاہت کا مطالبہ کیوں ہورہا ہے؟ اور کیایہاں ایک بار پھر سے بادشاہت کی واپسی ممکن ہے؟ ۔ صحافیوں نے جب آر پی پی کے سینئر نائب صدر رویندر مشرا سے پوچھا گیا کہ وہ نیپال میں بادشاہت کیوں واپس لانا چاہتے ہیں؟ تو مشرا اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ "لوگ اس وقت نیپال میں موجود نظام سے مایوس ہیں۔ اب لوگ پرانے دن کو یاد کر رہے ہیں۔ 17 سال بعد،اب بادشاہ گیانیندر نیپال میں ویلین نہیں رہے۔ اب گیانیندر جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں لوگوں کی بھیڑ جمع ہوجاتی ہے۔ رویندر مشرا سے پوچھا گیا کہ اگر گیانیندر نیپال کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں تو وہ انتخابی سیاست میں کیوں نہیں آتے؟ تو اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’’وہ راجا بننا چاہتے ہیں ، لیڈر نہیں۔انتخابی سیاست سے کوئی بادشاہ نہیں بنتا۔ نیپالی اخبار کانتی پور کے ایڈیٹر امیش چوہان نے اس منظر میں اپنا نظریہ یوں پیش کیا کہ ’’موجودہ حکومت کو لے کر نیپال کے لوگوں میں مایوسی ہے۔ لوگ ناراض بھی ہیں۔ یہاں کے لوگ متبادل سیاست کی تلاش میں ہیں۔ لیکن فی الحال کوئی ٹھوس آپشن نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں بادشاہت کے حامی اس بے اطمینانی کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ عدم اطمینان بادشاہت کے حق میں جائے گا ‘‘۔ امیش چوہان مزید کہتے ہیں کہ ’’ گیانندر آر پی پی کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہیں عوامی حمایت کتنی ملتی ہے؟ یہاں تک کہ اگر گیانیندر آر پی پی میں شامل ہو کر خود الیکشن لڑیں تو بھی وہ جیت نہیں سکیں گے۔ زیادہ سے زیادہ پانچ لاکھ ووٹ جو آر پی پی کو ملتا تھا وہ 10 لاکھ ہو جائے گا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہونے والا۔ ممکن ہے گیانیندر کے حامی نارائن ہیٹی کا گیٹ توڑ کر گیانندر کو وہاں بٹھا دیں لیکن اس کے بعد کیا ہوگا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ مجھے نہیں لگتا کہ گیانندر کبھی ایسا خطرہ مول لیں گے‘‘۔ نیپالی پارلیامینٹ میں فی الحال آر پی پی کے کل 14 ایم پی ہیں۔ ان میں سے سات انتخابی عمل کے ذریعے اور سات متناسب عمل کے ذریعے منتخب کیے جاتے ہیں۔ نیپال کی پارلیمنٹ میں کل 275 ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ ان میں سے 165 انتخابی عمل کے ذریعے اور 110 متناسب عمل کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں۔ نیپال کے سینئر صحافی چندرکشور کا بھی ماننا ہے کہ تمام تر عدم اطمینان کے باوجود نیپال میں بادشاہت کبھی نہیں آئے گی۔ اور گیانیندر جہاں جا رہے ہیں وہاں اتنی بڑی بھیڑ اس لیے جمع ہو رہی ہے کیوں کہ جب گیانیندر بادشاہ تھےتو وہ لوگوں سے بہت دور تھے۔ عام لوگوں نے انھیں براہ راست کبھی نہیں دیکھا تھا ایسے میں جب وہ عام لوگوں میں نظر آرہے ہیں تو لوگوں کا ہجوم جمع ہوجارہا ہے۔ اس بھیڑ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ گیانیندر کو دوبارہ بادشاہ بنائیں گے۔ البتہ یہاں 250 سال تک بادشاہت رہی ہے تو ایسے میں اس نظام سے مستفید ہونے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد رہی ہے۔ وہ کیوں نہیں چاہیں گے کہ بادشاہت واپس آئے؟ لیکن نیپال کے عوام نے بادشاہت کو آزما لیا ہے اور یہ ماضی سے حال بننے والا نہیں ہے۔ نیپال میں سابق ہندوستانی سفیر رنجیت رائے سے جب صحافی رجنیش کمار نے پوچھا کہ کیا نیپال میں بادشاہت واپس لائی جا سکتی ہے؟ تو ان کا جواب تھا کہ ’’دیکھیے! نیپال میں مایوسی ہے۔ حکومتیں عوام کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکیں۔ لیکن مجھے شک ہے کہ بادشاہی نظام نیپال کے لوگوں کو اس مایوسی پر قابو پانے میں مدد دے گا۔ بادشاہت کی حمایت میں ابھی اتنے زیادہ لوگ نہیں ہیں، جنہیں نیپال کی جمہوریت کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا جا ئے۔ کٹھمنڈو کی گیانندر استقبالیہ ریلی میں ایک حیرت انگیز معاملہ یہ دیکھا گیا کہ ایک شخص کے ہاتھ میں دوبینر تھے جس میں سے ایک میں گیاننندر شاہ اور دوسرے میں ہندوستانی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی تصویر تھی ، جسے دیکھ کر سیاسی حلقوں میں یہ بات گردش کرنے لگی کہ کیا ان ریلیوں میں مذہبی اور سیاسی شدت پسند تنظیموں کا ہاتھ تو نہیں ہے۔اگر ہزاروں کی ریلی میں ایسا بینر صرف ایک ہی شخص کے ہاتھ میں کیمرے نے قید کیا لیکن یہ امن پسندوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا تھا ۔ ہندوستان ٹائمس امریکا کے صحافی پرشانت جھا نے اپنی کتاب 'بیٹلس آف دی نیو ریپبلک' میں لکھا ہے، ’’ جس وقت بادشاہ بیریندر کو پنچایتی نظام کے خلاف احتجاج کا سامنا تھا اسی وقت وشو ہندو پریشد نے کھٹمنڈو میں بادشاہ بیرندر کی حمایت میں متحرک ہو کر انہیں عالمی ہندو شہنشاہ قرار دیا تھا۔ شاہی قتل عام کے بعد وی ایچ پی نے بادشاہ گیانیندر کو بھی یہی خطاب دیا تھا۔ نیپال کے شاہی خاندان کا گورکھپور کی گورکھ ناتھ مندرسے تاریخی تعلق رہا ہے۔ نیپال میں گورکھ ناتھ مندر کی بہت سی جائیدادیں ہیں۔ ان میں سکول اور ہسپتال بھی شامل ہیں۔(نوٹ: یہ مضمون مختلف ملکی خبروں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے)
عبدالجبار علیمی نظامی نیپالی۔
چیف ایڈیٹر نیپال اردو ٹائمز، میڈیا انچارج علماء کونسل نیپال